اسلام آباد: (تجزیہ: خاور گھمن) عوام کی نظر میں کسی بھی حکومت کی کارکردگی اس قدر معنی نہیں رکھتی جتنی اسکی ساکھ، عوام کے ذہن میں کسی بھی حکومت کیلئے ایک خاص تاثر بن جائے تو اسے تبدیل کرنا آسان نہیں ہوتا، پیپلزپارٹی جیسی ملک گیر جماعت اس کی زندہ مثال ہے کہ کیسے ایک صوبے تک سکڑ گئی۔ ناقص کارکردگی سے زیادہ کرپشن کے تاثر نے اسے نقصان پہنچایا۔ عمران خان کی 22 سالہ جدوجہد اور خاص کر آخری 6 سے 7 برسوں میں ان کی تقاریر اور وعدوں نے انہیں عوام کیلئے ایک نجات دہندہ بنا دیا۔ نظریاتی حامیوں کو سو فیصد یقین تھا کہ چیئرمین تحریک انصاف جب اقتدار سنبھالیں گے تو ملک کے مسائل ختم نہ سہی کم ضرور ہوں گے اور خلق خدا سکھ کا سانس لے گی ، کپتان جو کہتے ہیں وہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں، بس انہیں ایک موقع ملنا چاہیے۔ نواز شریف اور آصف علی زرداری کو بار با رمواقع ملے لیکن عام آدمی کی زندگی میں تبدیلی نہ آسکی’’ اب راج کرے گی خلق خدا ‘‘ کا نعرہ عمران خان کے اقتدار میں حقیقت بن کر سامنے آئے گا۔
عوام کو یقین ہو چلا تھا کہ عمران خان کو اگر حکومت ملی تو بے روزگاری ختم ہو گی، روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے، میرٹ اور شفافیت کا بول بالا ہو گا، صحت تعلیم، پولیس اور ٹیکس کے نظام میں انقلابی اصلاحات ہوں گی، سستا اور فوری انصاف گھر کی دہلیز پر ملے گا طاقتور کمزور کو دبا نہ سکے، ظالم جیل میں ہوگا اور مظلوم کی فوری داد رسی ہوگی، حکومت معاشرے کے اس طبقے کے ساتھ کھڑی ہو گی جو ماضی کی حکومتوں میں پستا چلا آ رہا ہے ، افسوس صد افسوس کہ ہر گزرتے دن کیساتھ عوام کی امیدیں دم توڑ رہی ہیں۔
جناب وزیر اعظم، عوام کو آج بھی آپ کی دیانتداری اور خلوص نیت پہ شک نہیں، آپ کے دشمن بھی گواہی دیتے ہیں کہ آپ کرپشن نہیں کر سکتے لیکن زمینی حقائق انہیں مسلسل مایوسی کی جانب دھکیل رہے ہیں، وہ تحریک انصاف کے متعین کردہ اصولوں کا ہر روز اپنی آنکھوں کے سامنے خون ہوتا دیکھ رہے ہیں، فیصلوں پر ڈٹ جانا کبھی سیاسی رہنماؤں کی شان کہلاتا تھا آپ نے یوٹرن کو اپنی شان بنا لیا۔ عوام ایک جائز سوال پوچھ رہے ہیں کہ اسد عمر کو آپ نے پل بھر میں گھر بھجوا دیا لیکن عثمان بزدار کی کارکردگی کے حوالے سے آپ خاموش کیوں ہیں ؟ وجہ آج تک معلوم نہیں ہوپا رہی کہ وہ کونسی مجبوری یا مجبوریاں ہے جس کی وجہ سے آپ چپ ہیں۔ گذشتہ 1 سال کے دوران تحریک انصاف کی حکومت سے ایک بھی کام ایسا سرزد نہیں ہوا جس سے کم از کم پی ٹی آئی کے نظریاتی کارکنوں ہی کی ڈھارس بندھ سکے۔ ابھی تک کوئی ایک بھی محکمہ ایسا نہیں جس کی کارکردگی کو حکومت مثال کے طور پر پیش کر سکے۔ تحریک انصاف کی حکومت کس ڈگر پر چل رہی ہے ہر ایک سمجھنے سے قاصر ہے۔عوام کی امیدیں ٹوٹتی ہیں تو پھر حکومت سمت درست بھی کرلے تو عوام دوسرے رُخ پر چلنا شروع کر دیتے ہیں، اب وزیر اعظم کو سوچنا پڑے گا کہ آخر وہ کونسی وجوہات ہیں جن کے باعث عوام ان کی حکومت سے مایوس ہوتے جا رہے ہیں۔ حالات یکسر تبدیل نہ بھی ہوں،معاملات کو درست سمت میں ڈالنے کیلئے ایک سال کافی ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے یہ بھی نہ ہو سکا۔
تحریک انصاف کے ذرائع سے بات کریں تو سب سے پہلے لوگ ان افسران کا نام لیتے ہیں جنہوں نے وزیر اعظم کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے، اکثریت کی رائے میں حکومت کی اب تک کی کارکردگی کی بنیادی وجہ وہ بیوروکریٹس ہیں جن میں سے زیادہ تر کا تجربہ صرف خیبر پختونخوا کا ہے وزیر اعظم کے مشیر برائے اسٹیبلشمنٹ ہوں یا پھر پرنسپل سیکرٹری، دونوں نے اپنی نوکری کا زیادہ تر وقت خیبر پختونخوامیں گزارا۔ واقفانِ حال بتاتے ہیں کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے بیوروکریٹس کو نظر انداز کیا جا رہا ہے کسی قابل افسر کو وزیر اعظم کے قریب پھٹکنے نہیں دیا جاتا۔ اگر وزیر اعظم کو آئندہ 4 سالوں میں کارکردگی بہتر بنانی ہے تو اہم فیصلے کرنا ہوں گے، اپنے ارد گرد بیوروکریٹس کیلئے سزا جزا کا سخت نظام وضع کرنا ہو گا اور چند ایک کو گھر بھیجنا پڑے گا۔
دوسری بڑی وجہ غیر منتخب مشیران کی فوج ظفر موج ہے ، یہ لوگ اپنے محکموں کے حوالے سے پالیسی سازی میں بھی متعلقہ بیوروکریٹس کو نظر انداز کر کے اپنی مرضی کی سفارشات مرتب کر کے وزیر اعظم تک پہنچا دیتے ہیں، زمینی حقائق کے مطابق وہ سفارشات کتنی قابل عمل ہیں انہیں اس کا ادراک ہی نہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ محکموں کی کارکردگی بہتر بنانی ہے تو وزیر اعظم کو خود ان محکموں میں جاکر بریفنگز لینا ہوں گی تاکہ اصل حالات کا علم ہو اور حائل رکاوٹوں کو دور کیا جا سکے۔
مثال کے طور پر رزاق داؤد پاکستان سٹیل ملز کے بارے میں ایک سے زیادہ پلان پیش کر چکے ہیں لیکن سٹیل ملز کی بحالی کے دور دور تک کوئی آثار نہیں، پرانی حکومتوں کی طرح تان نجکاری پر ہی آ کر ٹوٹتی ہے، یہی صورتحال باقی مشیران کی بھی ہے۔ حکومت کیساتھ عوام کی امیدیں ٹوٹنے کی تیسری بڑی وجہ گذشتہ 1 سال میں کوئی بڑا منصوبہ شروع نہ ہونا ہے، افتتاح ہوتے ہیں، زمین پر کچھ نظر نہیں آتا، احساس پروگرام اور صحت کارڈ جیسے منصوبے آگے بڑھے بھی ہیں تو وہ گذشتہ حکومتوں کے شروع کیے ہوئے تھے، کوئی نیا منصوبہ شروع کرنا تو دور کی بات لاہور اورنج ٹرین منصوبہ ہو یا پاک ،چین راہداری سب منصوبے جمود کا شکار ہیں۔ (ن) لیگ کے میٹرو منصوبوں پر تنقید کرنے والی تحریک انصاف کیلئے پشاور میٹرو بس منصوبہ گلے کی ہڈی بن چکا، نگل سکتی ہے نہ اُگل۔
ان سب چیلنجز کیساتھ ساتھ حکومت کو اپنے اندر واضح گروپ بندی کا سامنا بھی ہے، ہر کوئی ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچ رہاہے ۔ وزیر اعظم کو فوری طور پر اس شورش کو ختم کرنا ہوگا ورنہ باہر سے کسی طوفان کا سامنا ہو اتو کمزور بنیادوں پر کھڑی یہ عمارت زیادہ قائم نہیں رہے گی اور کوئی گھر کا بھیدی ہی لنکا ڈھا دے گا۔