آئی ایم ایف کے قرضوں میں فراڈ

Last Updated On 21 November,2019 08:42 am

لاہور: (امتیاز گل) 31 اگست 2018 ء کو اس وقت کے وزیر خزانہ اسد عمر نے ملک پر قرضوں کے بوجھ سے متعلق ایک چشم کشا دستاویز سینیٹ میں پیش کی تھی، اس دستاویز میں کمرشل قرضوں کے علاوہ ان قرضوں کی تفصیلات بھی شامل تھیں جو دو فریقین یا ایک سے زائد ذرائع سے لیے گئے تھے۔ یہ بہت اہم تفصیلات تھیں لیکن ان پر کسی نے خاطر خواہ توجہ ہی نہیں دی یا انہیں عموماً نظر انداز کر دیا گیا۔ یہاں تک کہ اہمیت کے حامل ذرائع ابلاغ نے بھی ان پر توجہ نہیں دی۔

اس دستاویز میں آئی ایم ایف سے لیے گئے قرضوں کے بارے میں معلومات بھی شامل تھیں، اسی لیے ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی سابق حکومتیں آئی ایم ایف پروگرام کو کامیابی کے ساتھ مکمل کرنے کا ڈھنڈورا کیوں پیٹتی رہیں ؟ اس لیے کہ آئی ایم ایف کے قرضے کی میعاد ختم ہونے کے باوجود قرض کی اصل رقم بدستور واجب الادا تھی۔ حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ آئی ایم ایف کے سینئر عہدیداروں نے بھی سابق پاکستانی حکومتوں کے اس دعوے کی نفی نہیں کی کہ آئی ایم ایف کا قرض پروگرام کامیابی کے ساتھ مکمل ہو گیا ہے، حالاں کہ درحقیقت اس وقت پاکستان کی حکومت رعایتوں پر انحصار کر رہی تھی اور ملک کے زخم خوردہ مالیاتی نظام کے بارے میں بے حسی اور تساہل کا شکار رہی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف سے لیے گئے قرضے آخر گئے کہاں ؟ اس دستاویز کے مطابق آئی ایم ایف کا قرض جو بہت کم تھا 30 جون 2018 ء کو بڑھ کر 14.28 ارب ڈالر ہو چکا تھا۔

دوسری جانب یہ حقیقت بھی اہم ہے کہ 2004 ء سے 2009 ء کے دوران پاکستان پر آئی ایم ایف کا قرض بڑھ کر 3,937 ارب ڈالر ہو چکا تھا۔ 23 ماہ کی مدت کے دوران 2009 ء وہ پہلا سال تھا جب پاکستان نے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے تحت آئی ایم ایف سے 7.6 ارب ڈالر کا قرض لیا تھا۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ 2009-2010 ء کے دوران آئی ایم ایف کا قرضہ بڑھ کر 7.45 ارب ڈالر ہو گیا اور 16-2015 ء میں یہ قرض بڑھ کر 14.28 ارب ڈالر ہو گیا۔ یہ صورت حال اس لیے پیدا ہوئی کہ ستمبر 2013 ء میں آئی ایم ایف نے ایکس ٹنڈڈ فنڈ فیسیلٹی کے تحت 36 ماہ کے لیے پاکستان کو 6.6 ارب ڈالر قرض دینے کی منظوری دی۔

اسد عمر نے سینیٹ میں جو دستاویز پیش کی اس کے مطابق صرف 7 برس کے دوران پاکستان پر آئی ایم ایف کے قرض میں کثیر اضافہ ہو گیا۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں کی حکومتوں نے ان قرضوں اور ان کی شرائط سے متعلق قوم سے غلط بیانی کی، دونوں حکومتیں یہ دعویٰ کرتی رہیں کہ انہوں نے کشکول توڑ دیا ہے۔ حقائق کی اس پردہ پوشی میں آئی ایم ایف بھی شریک تھی، کیوں کہ اس نے پاکستان کے عوام کو کبھی نہیں بتایا کہ ان کی حکومتوں نے 2009 ء سے 2015 ء کے دوران اس سے جو قرضے لیے وہ تاحال واپس نہیں کیے گئے۔ یہی نہیں بلکہ اس وقت 6.6 ارب ڈالر کے تازہ ترین قرضے کی وجہ سے قرض کے بوجھ میں اضافہ ہو چکا ہے۔ بہر حال اب مجموعی طور پر صورت حال یہ ہے کہ سابق حکومتوں کی جانب سے اندھا دھند اخراجات، تنگ نظری پر مبنی پالیسیوں اور اسٹرکچرل اصلاحات سے انکار کے نتیجے میں پاکستان بری طرح قرضوں کے جال میں پھنس چکا ہے ، کیوں کہ اب بیرونی قرضے بڑھ کر 104 ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں۔

اقتصادی امور کے ماہر ڈاکٹر طلعت انور نے بتایا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت 2022 ء تک پاکستان کو 37 ارب ڈالر واپس کرنے ہیں، اس میں کسی ایک ذریعے یا مختلف ذرائع سے لیے گئے قرضے شامل ہیں، اس مدت کے دوران پاکستان کو چین سے لیے گئے 14.7 ارب ڈالر بھی واپس کرنے ہیں، اس میں دو طرفہ قرض کے علاوہ کمرشل قرضہ بھی شامل ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ رواں مالی سال 20 -2019 ء کے دوران پاکستان کو 14.9 ارب ڈالر کا غیر ملکی قرض واپس کرنا ہے۔ واضح رہے کہ یہ رقم برآمدات سے ہونے والی آمدنی کے 62 فیصد کے مساوی ہے، ظاہر ہے اس سے ادائیگیوں کے توازن پر منفی اثرات ہوں گے۔

ڈاکٹر طلعت انور نے مزید بتایا کہ قرضوں کی ادائیگی مزید مشکل اس لیے بھی ہو گی کہ 2018 ء کے دوران چین نے ادائیگیوں کے توازن میں مدد دینے کے لیے مزید 2 ارب ڈالر دیئے تھے، اس کی وجہ سے چین کا قرض بڑھ کر 8.33 ارب ڈالر ہو چکا ہے، اس میں سی پیک سے متعلق قرض کے علاوہ تجارتی بنیاد پر دیا گیا قرضہ بھی شامل ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک تشویش ناک صورت حال ہے، اس لیے ان سوالوں کا جواب ضروری ہے کہ اگر یہ قرضے اصلاحات کے نام پر لیے گئے تھے تو کیا اصلاحات کی گئیں ؟ کیا آئی ایم ایف کے پاس اس بات کی جانچ پڑتال کے ذرائع نہیں تھے کہ اس سے اور عالمی بینک سے پاکستان نے جو قرضے لیے تھے وہ کہاں استعمال کیے گئے ؟ یہ بات بھی اہم ہے کہ کیا ماضی کی دونوں حکومتوں نے آئی ایم ایف سے لیے گئے قرضوں کی شرائط کی پابندی کی ؟ اگر ایسا نہیں ہوا تو آئی ایم ایف نے دونوں حکومتوں پر اعتراض کیوں نہیں کیا ؟ انہیں سب اچھا ہے کی سند کیوں عطا کی ؟ ہو سکتا ہے اس کے جواب میں یہ کہا جائے کہ پاکستان کی یہ ذمے داری تھی کہ وہ قرض کی اصل رقم مع سود ادا کرے، ایسی صورت میں یہ سوال کرنا غلط نہ ہو گا کہ وہ ریکارڈ کہاں ہے جس سے معلوم ہو سکے کہ قرضوں کی یہ رقم کہاں خرچ کی گئی؟۔ قرض کی اصل رقم اورسود ادا کرنے کی تفصیلات کہاں ہیں؟۔

بعض متعلقہ افسران نے نشاندہی کی ہے کہ دونوں سابق حکومتوں کے ادوار میں لیے گئے قرضوں اور ان کی واپسی کی تفصیلات کی جانچ پڑتال کی جائے تو بہت سے حقائق سامنے آجائیں گے۔
 

Advertisement