لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت کا احتجاجی مارچ اور دھرنا کس حد تک نتیجہ خیز ہوا اس حوالے سے دو آرا موجود ہیں البتہ مولانا فضل الرحمن نے تحریک انصاف کی حکومت پر دباؤ برقرار رکھنے کیلئے ایک مرتبہ پھر اپوزیشن جماعتوں کی لیڈر شپ کو جمع کر کے ایک نئے لائحہ عمل پر احتجاج کو منظم کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔
جس کے تحت 26 نومبر کو آل پارٹیز کانفرنس بلائی جا رہی ہے۔ لہٰذا اس امر کا جائزہ لینا پڑے گا کہ اپوزیشن کی حکومت سے نجات کیلئے احتجاجی حکمت عملی کارگر ہو پائے گی ؟ اپوزیشن کا ہدف وزیراعظم عمران خان کی حکومت ہے یا ملک کو در پیش اقتصادی ، سیاسی اور عوامی مسائل کا حل؟ اور کیا منتخب حکومت اپوزیشن کی احتجاجی حکمت عملی سے نمٹ پائے گی؟ وہ کونسی وجوہات ہیں جس بنا پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ڈیڈ لاک بر قرار ہے ؟ اور خود وزیراعظم عمران خان بھی اپوزیشن کے حوالے سے لچک دکھانے کی بجائے ایک جارحانہ طرز عمل اختیار کئے ہوئے ہیں اور اگر ملک میں سیاسی استحکام قائم نہیں ہوتا تو کیا اقتصادی و معاشی مسائل کا حل ممکن ہوگا ؟۔
جہاں تک اپوزیشن کی جانب سے حکومت پر دباؤ بڑھانے کے عمل کا سوال ہے تو اس میں بڑا کردار پھر مولانا فضل الرحمن کا ہے جنہوں نے اس بنیاد پر اپنے احتجاجی دھرنے سے واپسی کا عمل شروع کیا تھا کہ نہ وہ اپنی مرضی سے آئے تھے اور نہ اپنی مرضی سے گئے ہیں ۔ اگر کسی نے انہیں کوئی خاص یقین دہانی کروا بھی رکھی ہے تو وہ یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ یہ وعدہ بھی ٹھہراؤ کی صورتحال میں نہیں بلکہ احتجاجی کیفیت طاری رکھنے میں ہی مل سکے گا۔ جہاں تک ملک کی دو اہم سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی حکمت عملی کا سوال ہے تو وہ اپنے احتجاج کو ایک خاص دائرے میں رکھتے ہوئے ہی حکومت پر دباؤ بڑھانے کے حق میں ہیں اور ان کی احتجاجی حکمت عملی، احتجاجی مظاہروں اور بڑے شہروں میں بڑی احتجاجی ریلیوں کے انعقاد تک محدود ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان اور ان کی حکومت جس بری طرح سے معاشی محاذ پر ایکسپوز ہو رہی ہے۔
مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کا طوفان تھمنے کا نام نہیں لے رہا تو ایسی صورتحال میں ہمیں کوئی ایسا عمل یا اقدام نہیں کرنا چاہئے کہ مسائل زدہ عوام کی توجہ حکومتی ناکامیوں اور نا اہلیوں سے ہٹ کر اپوزیشن کے احتجاج کی جانب مرکوز ہو۔ بڑی پارٹیاں ان ہاؤس تبدیلی کے آپشن پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ان ہاؤس تبدیلی کا آپشن بھی تبھی کارگر ہو سکے گا جب انہیں ایوان کے اندر اراکین کی واضح اکثریت کی حمایت حاصل ہو۔ مولانا فضل الرحمن صرف وزیراعظم عمران خان سے ہی نجات نہیں بلکہ اسمبلیوں کو چلتا کرنے اور نئے انتخابات کی جانب بڑھنا چاہتے ہیں، جبکہ سسٹم کے بڑے سٹیک ہولڈرز ابھی اسمبلیوں سے نجات اور نئے انتخابات کے حق میں نہیں لہٰذا اب ہونے والی آل پارٹیز کا نفرنس میں بنیادی نکتہ حکومت پر دباؤ بڑھانا اور اسے دفاعی محاذ پر لانا ہوگا۔ ایک مثبت بات یہ سامنے آ رہی ہے کہ اپوزیشن عمران خان سے نجات تو چاہتی ہے مگر جاری سسٹم کی قیمت پر نہیں۔ پندرہ ماہ کی حکومت میں عوام کے مسائل سلجھنے کی بجائے الجھے ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری، غربت میں اضافہ ہوا ہے۔
ادھر تحریک انصاف کی کور کمیٹی نے بڑا سیاسی فیصلہ تو کوئی نہیں کیا البتہ ان کا زور پنجاب میں انتظامی بنیادوں پر تبدیلی پر رہا جس کا واضح مطلب ہے کہ حالات کی گرمی اب تحریک انصاف اپنی صفوں میں محسوس کر رہی ہے۔ صرف انتظامی بنیادوں پر تبدیلی محض دامن جھاڑنے والی بات ہوگی۔ اصل مدعا تو یہ ہے پنجاب میں جمود کا خاتمہ کیسے ہو ؟ اور اس کیلئے انتظامی سے پہلے سیاسی تبدیلی بہت ضروری ہو چکی ہے اور اس کیلئے ہر سیاسی طالبعلم کی نظر عثمان بزدار کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ کیا پی ٹی آئی اور اس کی اسلام آباد میں بیٹھی قیادت اس بھاری پتھر کو راہ سے ہٹانے کی کوشش کرے گی ؟ یا صرف انتظامی بنیادوں پر اس بوجھ کو چوم کر پھر سے اقتدار کے بت خانے میں سجا دے گی ؟ اس سوال کا جواب جب تک پی ٹی آئی کی کور کمیٹی میں زیر بحث نہیں آتا اور کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا جاتا ، تب تک جتنی مرضی قربانیاں پنجاب میں بھینٹ چڑھا دی جائیں، انتظامی بدنظمی اپنے عروج پر رہے گی۔