لاہور: (خصوصی رپورٹ: محمد حسن رضا، رانا محمد علی سے) پنجاب کی 37 جیلوں میں مبینہ بھتہ خوری، لوٹ مار اور کرپشن کا میگا سکینڈل بے نقاب، موبائل فون کے استعمال، ملاقاتوں، گھریلو کھانے اور منشیات کی مبینہ سپلائی کے الگ الگ ریٹ غیر اعلانیہ طور پر مقرر ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
ذرائع کے مطابق پنجاب کی جیلوں سے مبینہ طور پر ماہانہ 5 کروڑ 10 لاکھ روپے سے زائد کی رشوت اور بھتہ جمع کر کے وارڈن، اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ایگزیکٹیو، سپرنٹنڈنٹ سے لیکر سینئر افسروں تک مبینہ طور پر تقسیم کئے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ اس میں مبینہ طور پر آئی جی جیل خانہ جات شاہد بیگ مرزا، متعدد جیلوں کے سپرنٹنڈنٹ، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ اور دیگر ملازمین ملوث بتائے گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق موبائل فون کے روزانہ ایک گھنٹہ استعمال اور ساتھ وائی فائی ڈیوائس کی فراہمی کا ریٹ 5 ہزار سے 10 ہزار مقرر کیا گیا ہے، اس دوران جیمرز کام نہیں کرتے۔
قانون کے مطابق کسی قیدی سے ہفتے میں ایک بار ملاقات کی جاسکتی ہے مگر جیلوں میں اس سے ہٹ کر جب بھی کسی قیدی سے ملنا ہو تو اس کا 20 ہزار روپے تک ریٹ مقرر ہے جبکہ روزانہ ملاقات کروانے کے لئے ہفتہ وار ٹھیکہ کیا جاتا ہے جس میں کھانا بھی آتا ہے اور کسی قیدی کے عزیز روزانہ آفس وقت یا آفس سے ہٹ کر کسی وقت بھی ملاقات کر سکتے ہیں جس کا ریٹ پانچ لاکھ سے لیکر دس لاکھ روپے تک مقرر ہے۔ یہ سہولیات نیب کے قیدیوں، سزائے موت، منشیات اور قتل کے قیدیوں کو حاصل ہیں۔ ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ کوٹ لکھپت جیل لاہور، اڈیالہ جیل راولپنڈی، شیخوپورہ، سرگودھا، ساہیوال، ملتان، اوکاڑا اور دیگر جیلوں میں ماہانہ بنیاد پر رقم جمع کر کے تقسیم کی جاتی ہے جبکہ یہ پیسے محکمہ داخلہ میں اہم عہدوں سے تبدیل ہو کر وزیراعلیٰ آفس میں تعینات ہونے والے اعلیٰ افسر وں کو پہنچائے جاتے رہے ہیں۔ موجودہ حکومت کے آنے کے بعد فی الوقت معاملات کو روکا گیا لیکن اب دوبارہ پھر معاملات اسی معمول سے جاری ہیں۔
ذرائع سے ملنے والی معلومات اور جیلوں میں روزنامہ دنیا کی ٹیم کی خفیہ تحقیقات کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ کوٹ لکھپت جیل میں مختلف نام رکھ کر یہ کام کیا جاتا ہے وہاں ذیشان عرف مانجھا، اکبر چھما، سرمد، بشیرا، مدثر معروف، حکیم اللہ، نعیم یاسر اور دیگر افراد جیلوں میں معاملات چلاتے ہیں ان کے اصل نام کچھ اور ہیں جو کارڈ پر درج ہیں۔ بعض جیلوں میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ایگزیکٹیو کے عہدے کا ریٹ الگ سے مختص ہے جس کے لئے بڑے پیمانے پر ڈیل کی جاتی رہی ہے، بعض جیلوں میں یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ ذرائع بتاتے ہیں اسپیشل برانچ کے اہلکار بھی جیل حکام سے مبینہ ملی بھگت کر کے اعلیٰ حکام کو سب اچھا کی رپورٹ دیتے ہیں اور اصل حقائق کو چھپایا جا رہا ہے۔
یہ بھی معلوم ہوا ہے جیلوں میں آرام دہ کمروں، بیرکس کے دروازے ساری رات کھلے رہنے کے بھی پیسے مقرر ہیں۔ گھریلو کھانا فراہمی کا ریٹ ماہانہ 50 ہزار تا ایک لاکھ روپے ہے، منشیات کے عادی قیدیوں کو ان کی منشا کے مطابق منشیات فراہمی کا ریٹ بھی مختص ہے اس کیلئے ایک مخصوص قیدی کی ذمہ داری لگائی جاتی ہے جو ماہانہ 10 سے 12 بیرکس سے پیسے جمع کر کے دیتا ہے۔ اگر کوئی قیدی اعلی افسر کو شکایت کرے تو الٹا اس کے خلاف ہی ایکشن لیا جاتا ہے۔ کرپشن کے معاملات میں آئی جی تک تمام افسر ملوث پائے گئے ہیں، ہر ماہ افسروں کے گھریلو اخراجات کی ذمہ داری پوری کرنے کیلئے جیلوں میں مختلف افسروں اور ملازمین کی ڈیوٹی لگائی جاتی ہے جن سے کیش کی صورت میں وصولیاں کی جاتی ہیں۔ محکمہ جیل خانہ جات میں گروپ کے کچھ افراد ایسے بھی موجود ہیں جو اس قسم کے معاملے کو اپنی منشا کے مطابق انکوائری میں تبدیل کرتے ہیں اگر کچھ غلط ثابت ہو جائے تو انکوائری اور سزاؤں کا ریکارڈ فائل سے ہی غائب یا مکمل ختم کر دیتے ہیں لیکن اس حوالے سے محکمہ داخلہ کو مکمل لاعلم رکھا جاتا ہے۔
سابق ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ نے اس حوالے سے مختلف ذرائع سے ملنے والی معلومات کا نوٹس لیتے ہوئے جب اپنے طور پر خفیہ انکوائری شروع کی تو معلوم ہوا مبینہ دھندے میں متعدد شخصیات اور افسر بھی ملوث ہیں جنہوں نے کرپشن بے نقاب ہونے سے بچانے کیلئے سی سی ٹی وی کیمروں کی ریکارڈنگ ڈیلیٹ، کیمرے تبدیل یا بند کرنے کیلئے مہارت رکھنے والے افراد کو ذمہ داریاں دے رکھی ہیں۔ ایک جیل کے سینئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا جب تبادلہ ہی پیسے دیکر کرواتے ہیں تو پھر کمانا بھی ہے اور بہت سے افسروں کو ماہانہ خرچہ بھی فراہم کرنا ہوتا ہے، اب نئے ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ تعینات ہوئے ہیں ہوسکتا ہے ان کے علم میں یہ بات آئے تو وہ بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کریں۔
ذرائع کے مطابق لاہور، قصور، سرگودھا، کوٹ لکھپت، اڈیالہ، ملتان، فیصل آباد، بہاولپور، شیخوپورہ، میانوالی، ساہیوال جیلوں میں تعیناتیاں بھی اعلی افسروں کی مرضی سے ہوتی ہیں۔ جیل وزٹ کے دوران قیدی سے ملنے آنیوالے ممتازنے بتایا جب پیسے دیتے تھے تو ہمارے بڑے بھائی سے ملنے بھی دیا جاتا تھا اور سب معاملات بہتر تھے لیکن جب سے پیسے بند کئے ہیں تو ملنے نہیں دیا جاتا۔ ممتاز نے بتایا نچلا سٹاف پچاس یا سو روپے میں بک جاتا تھا لیکن بڑے افسروں کے نخرے ہوتے ہیں اور ہمیں بڑی رقم دینا پڑتی، یہ پیسے لینے کے بھی طریقے ہیں ایسی جگہ پر رشوت لی جاتی جہاں پر نہ تو موبائل فون جاتا ہے نہ ہی کیمرے ہوتے ہیں پیسے لے کر پرچی پر لکھ لیتے ہیں اور پھر بتا دیا جاتا ہے اوپر سے فون آگیا ان کو آنے دیا جائے اس دوران منشیات سمیت کچھ بھی ساتھ لیکر ملاقات کیلئے جاسکتے ہیں۔
تحقیقات کے دوران یہ بھی انکشاف ہوا کہ کوٹ لکھپت جیل کے 25 سالہ قیدی ظہیر نے درخواست دی جس میں انکشاف کیا اس کی ذمہ داری لگائی گئی ہے کہ وہ چھوٹے قیدیوں سے ماہانہ اکٹھا کرے۔ قیدیوں سے ماہانہ پہلے 3 لاکھ پھر بڑھا کر 6 لاکھ روپے جمع کر کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ظہیر ورک کو دئیے جاتے تھے جو ایگزیکٹو ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ سے لیکر اعلیٰ افسروں تک تقسیم ہوتے تھے پھر اچانک قیدیوں کو حکم ملا ماہانہ ریٹ بڑھ چکا ہے اب 10 لاکھ روپے ریٹ رکھ دیا گیا ہے، انکار کرنے پر انتقامی کارروائی کرتے ہوئے بہاولپور جیل منتقل کر دیا گیا۔
تحقیقات کے دوران معلوم ہوا بعض قیدیوں کے اہلخانہ کی جانب سے متعدد رخواستیں جیل کے اعلیٰ حکام کو دی جاتی ہیں لیکن وہ درخواست لیکر بغیر کوئی نمبر دئیے پھاڑ دیتے ہیں اور کوئی ایکشن ہی نہیں لیا جاتا۔ اس حوالے سے متعدد سپرنٹنڈنٹ، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹوں سمیت انتظامی افسروں سے موقف لینے کی کوشش کی گئی لیکن وہ اس پر بات کرنے سے ہی کتراتے رہے۔ آئی جی جیل خانہ جات مرزا شاہد سلیم نے اپنا موقف دیتے ہوئے کہا الزامات غلط ہیں اور وہ اس پر کسی قسم کی مزید بات نہیں کرنا چاہتے۔ محکمہ داخلہ پنجاب کے حکام نے کہا ان کے علم میں ایسا کچھ نہیں ہے لیکن جیلوں میں جہاں پر بھی کوئی غیر قانونی بات ہوگی تو فوری ایکشن لیں گے، اس حوالے سے جو معاملہ ہمارے علم میں لایا گیا ہے اس کی الگ سے خفیہ اداروں سے تحقیقات کروائی جائیں گی اور ایکشن لیا جائے گا۔