اسلام آباد: (تانیہ ایدروس) پاکستان سے گئے مجھے 20 سال ہوگئے، ملک کے لئے کچھ کرنا چاہتی تھی، ایم آئی ٹی میں پاکستان پر آئی ٹی کے حوالے سے ریسرچ کی، جب یہ حکومت آئی تو مجھے محسوس ہوا کہ اپنے ملک جا کر کچھ کرنا چاہیے۔ میں نے محسوس کیا کہ اس حکومت کو عام پاکستانی کے مستقبل کی پروا ہے، پچھلے چھ ماہ سے لوگ مجھ سے پوچھتے آئے ہیں کہ میرا ایجنڈا کیا ہے، یہ بھی پوچھا گیا کہ کس سے سیاسی تعلق ہے، مختصر بتاؤں کہ میرا کسی سے سیاسی تعلق نہیں نہ ہی کسی سے رشتہ داری ہے، میرا بس ایک ہی ایجنڈا ہے کہ پاکستان کی ترقی دیکھنی ہے اور باہر زیادہ تر پاکستانیوں کی یہی خواہش ہے کہ پاکستان کی ترقی کیلئے کچھ کریں۔
میں پاکستان کیسے پہنچی، کسی نے وزیر اعظم کو ای میل کی کہ آپ ڈیجٹیل منصوبے پر کام کرنا چاہتے ہیں تو مجھ سے بات کریں، یہ 6 ماہ پہلے کی بات ہے، مجھے علم بھی نہیں تھا، وزیر اعظم نے یہ ای میل اپنی ریفارم ٹیم کو بھیجی، اس ٹیم نے مجھ سے رابطہ کیا، چھ ما ہ تک رابطے میں رہے، میرا جہانگیر ترین سے رابطہ ہوا، میں نے ان کو اپنے آئیڈیاز بتائے، وزیر اعظم عمران خان اور جہانگیر ترین سے اہم رابطے ہوئے، میں آئی ٹی منسٹر سے ملی، صدر سے ملی، وزیر اعظم سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھے کہا کہ یہاں مسائل کی فہرست لمبی ہے لیکن آپ نے گھبرانا نہیں، حکومت نے ڈیجیٹلائزیشن کے انقلابی منصوبے سے آگاہ کیا۔
وزیر اعظم عمران خان کا ویژن ہے کہ ڈیجیٹل اور ٹیکنالوجی کی طرف جائیں، اس وقت پاکستان کے 10 کروڑ سے زائد نوجوان 25 سال سے کم عمر کے ہیں، جو آئندہ 20 سال میں ریٹائر ہونگے تو ایک ریٹائر ہونیوالے بندے کی جگہ تین پاکستانی لیں گے، یہ تین پاکستانیوں کو پتا ہوگا کہ ٹیکنالوجی زندگی کا حصہ ہے، ہماری مڈل کلاس بہت مضبوط ہے، ہر شعبے میں نئی کمپنیاں بنانے، سرمایہ کاری کے مواقع موجود ہیں، وہ ٹرانسپورٹ ہو یا دیگر شعبے۔ پاکستان کی 7 کروڑ آبادی انٹرنیٹ استعمال کر رہی ہے، پاکستان سے باہر پاکستانی جو آئی ٹی کمپنیاں کھولے ہوئے ہیں، وہ پاکستان آنے کیلئے تیار ہیں۔
حکومت کا کام سادہ سا ہے کہ انہوں نے ہمیں انوویشن ماحول فراہم کرنا ہے، منصوبے کے تحت 5 اہم مرحلوں پر کام تیز کیا جائے گا، عوام کی انٹرنیٹ تک رسائی اور روابط کو فروغ دیا جائے گا۔ انٹر نیٹ کی رسائی ہر پاکستانی کا بنیادی حق ہے، ہم جو کہتے آئے ہیں روٹی کپڑا اور مکان۔ اب روٹی، کپڑا اور مکان کے ساتھ انٹر نیٹ شامل کرنا ضروری ہوگیا ہے، ملک میں ڈیجیٹل انفرا سٹرکچر قائم کیا جائے گا تاکہ کام تیز اور بہتر ہو، مثال کے طور پر سیاچن میں بیٹھے ایک فوجی کو ہفتہ میں ایک بار گھر والوں سے رابطے اور بات کرنے کا موقع ملتا ہے، اسے اعتماد ہونا چاہیے کہ وہ جہاں بھی ہو، اس کا اپنے خاندان سے خاص رابطہ ہوسکے۔ ڈیجیٹل انفرا سٹرکچر بنانا حکومت کا کام ہے، پاکستان میں ڈیجیٹلائزیشن کے شعبے میں انقلاب لایا جا سکتا ہے۔
ہمارے پاس ایک قومی اثاثہ ہے نادرا، ہم نے پورے ملک میں شہریوں کی شناخت کو ڈیجیٹل کیا ہوا ہے، سب کے فنگر پرنٹس موجود ہیں، ہمیں اپنا ڈیجیٹل انفرا سڑکچر مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، مثال کے طور پر میرا ڈرائیور کراچی میں ہوتا ہے، اسے رحیم یار خان پیسے بھیجنے کیلئے 2000 روپے پر 150 روپے فیس دینا پڑتی ہے، اگر ڈیجیٹل انفرا سڑکچر بہتر ہو تو یہی پیسے فری میں بھیجے جاسکتے ہیں اور اس کی فیس کے پیسے بچوں کی تعلیم پر خرچ کئے جاسکتے ہیں۔ تیسری چیز ای گورنمنٹ ہے ، جس سے حکومتی فیصلوں کو پیپرلیس بنایا جائے گا، عوام کو چھوٹی چیزوں کے لئے لائن میں کھڑا کر دیا جاتا ہے، فنگر پرنٹس کے باوجود لائن میں کھڑا رکھنے کا جواز نہیں، شہری کی شناخت کو ڈیجیٹل طریقے سے استعمال کیا جائے گا۔ ہر حکومت ایک وعدے کے تحت آتی ہے، اس حکومت کا بھی اپنی قوم سے وعدہ ہے کہ شفافیت لائی جائے گی، ای گورنمنٹ سے شفافیت لائی جاسکتی ہے، حکومت 3 کھرب روپے پروکیورمنٹ پر خرچ کرتی ہے، ان کو بچایا جاسکتا ہے۔
چوتھی چیز ڈیجیٹل سکلنگ سے نوجوانوں کو معیاری سکلز ملیں گی، اگر ہمیں علم کو معیشت کی طرف منتقل کرنا ہے تو ہمیں سائنس و ٹیکنالوجی کو نچلے درجے سے شروع کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں چھوٹے بچوں کو تیار کرنے کیلئے ٹیکنالوجی کو کامن پلیس پر مہیا کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں ایک ارفع کریم نہیں ہزاروں ارفع کریم کی ضرورت ہے۔ پانچویں چیز انٹر پینیور شپ ہے، کاروبار کے لئے بینکنگ نظام، سرمایہ کاروں کو سازگار ماحول دیں گے۔ تاکہ لوگ آکر آسانی سے اپنی کمپنیاں کھولیں۔ اپنے بینک اکاؤنٹس کھول سکیں، ہمارے 10 کروڑ نوجوانوں کیلئے نوکریاں کہاں سے آئیں گی، یہی وہ شعبہ ہے جہاں سے ان کو روزگار ملے گا۔ اس حوالے سے پاکستان اس وقت اس مقام پر ہے، جس پر 7 سال پہلے انڈونیشیا تھا۔ پچھلے 10 سال کے دوران انڈونیشیا میں 5 ارب ڈالرز پلس کمپنیاں آئی ٹی کے شعبے میں بنی ہیں، انہوں نے مجموعی طور پر ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کیا۔ اگر ہم نے آئی ٹی ماحول دوست فراہم نہ کیا تو اگلے پانچ سال میں اتنی کمپنیاں نہیں بنا سکیں گے، ہم نے تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کام کرنا ہے۔
وزیر اعظم نے ہمارے ساتھ وعدہ کیا ہے کہ میں اس شعبے کو ذاتی طور پر دیکھوں گا، اس سے ان کی ترجیحات کا پتا چلتا ہے، یہ کسی ایک بندے، ادارے، صوبے کی بات نہیں، جب تک سب مل کر نہیں چلیں گے تو ہم اس ملک کو ترقی کی راہ پر نہیں ڈال سکتے، انقلاب لانے کیلئے سب کو ساتھ مل کر چلنا ہوگا، اگر آپ کے پاس آئیڈیاز ہیں تو برائے مہربانی اس تک پہنچیں۔ سوال یہ نہیں پوچھنا چاہیے کہ پاکستان میں ہوسکتا ہے یا نہیں ہوسکتا ؟ سوال یہ ہونا چاہیے کہ ہم اسے کتنی جلدی شروع کرسکتے ہیں۔