لاہور: (تجزیہ : سلمان غنی) پاکستان نے بڑے پیمانے پر مالی اور جانی قربانیوں کے بعد دہشت گردی اور انتہا پسندی کا بہت حد تک قلع قمع کیا ہے، اب معاشرے کے پڑھے لکھے طبقات میں عدم برداشت کے رجحان نے پورے معاشرے کو پریشان کر کے رکھ دیا ہے اور لوگ ایک دوسرے سے یہ استفسار کرتے نظر آ رہے ہیں کہ لاہور میں وکلا اور ڈاکٹرز کے درمیان تنازعہ کی اصل وجوہات کیا ہیں ؟ اور وہ کونسے عوامل ہیں جو دل کے ہسپتال پر وکلا کی جانب سے حملے کا باعث بنے اور 4 افراد جاں بحق ہو گئے۔ ایک جانب یہ قانون کی عملداری کا سوال ہے تو دوسری جانب بڑا سوال یہ پیدا ہو گیا ہے کہ معاشرے کے دو اہم طبقات جن کا انسانیت کے حوالے سے، آئین و قانون کی بالادستی کے حوالے سے کردار رہا ہے، آخر کیونکر وہ قانون کو ہاتھ میں لینے پر مجبور ہوئے اور لاہور کے سب سے حساس ہسپتال پر حملہ کر کے دنیا بھر میں پاکستان کو جگ ہنسائی کا ذریعہ بنا ڈالا۔
آج ہم بطور قوم ایک ایسے معاشرے کی تلاش میں ہیں جو مہذب بھی ہو ، ذمہ دار بھی اور ہمیں اپنی ملی اقدار و روایات کا بھی ادراک ہو۔ پر تشدد اور انتہا پسندی پر مبنی واقعات براہ راست ہماری داخلی اور خارجی سطحوں پر اثر انداز ہوتے ہیں جس سے ملک و قوم کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ ہم جو خود کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کہتے ہیں اور پاکستان کے مقاصد کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ ہم ایک مملکت کے ذریعہ ایسی تجربہ گاہ قائم کرنا چاہتے تھے جو دنیا کیلئے مثالی ہو اور ہم اپنی روایات اور اقدار پر قائم رہتے ہوئے ملک کو ترقی کی بلندی پر پہنچا سکیں، لیکن ہم یہ کہاں آ کھڑے ہوئے ہیں کہ آئے روز کوئی ایسا واقعہ ہو جاتا ہے جو بحیثیت قوم سب کیلئے بدنامی، پریشانی کا باعث ہوتا ہے اور دنیا ہمیں منفی انداز میں اجاگر کر کے تنقیدی سوالات بھی اٹھاتی ہے۔ آخر یہ سب کچھ ہمارے معاشرے میں کیونکر ہوا ؟ ہم اتنے انتہا پسند اور شدت پسند کیونکر واقع ہوئے ؟ افسوس یہ ہے کہ ہم ان رجحانات کا تجزیہ کرکے اپنا قبلہ درست کرنے سے عاری ہیں۔
اس وقت ہمارے سامنے سب سے بنیادی سوال عدم برداشت کا بڑھتا رجحان ہے۔ اس کی وجوہات تلاش کی جائیں تو واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ قانون کی حکمرانی کا تصور مکمل طور پر دھندلا ہو چکا ہے اور گڈ گورننس کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے میں بہت دیر ہے، گڈ گورننس کے نہ ہونے کی وجہ سے حکومت کے تمام ادارے اپنی سروس ڈلیوری میں ناکام ہو چکے ہیں اور اس حقیقت کا تعلق ہماری تمام جمہوری اور آمرانہ دورِ حکومتوں سے ہے ۔ جب سروس ڈلیوری نہیں ہوگی تو پھر پہلے سے موجود مسائل اور محرومیاں مزید بڑھیں گی تو پھر اس کا لا محالہ نتیجہ کیا نکلنا ہے ؟ ظاہر ہے لوگ اور یونینز اور عام شہریوں کے جتھے اور لشکر اپنا حق اور اپنا نقطئہ نظر منوانے کیلئے قانون کو ہاتھ میں لیں گے۔
پی آئی سی پر حملے کے وقت پولیس کا رویہ ہمیں یاد دلا رہا ہے کہ اب اس معاملے میں بہت کچھ پُلوں کے نیچے سے بہہ چکا ہے۔ قانون کی حکمرانی کا نہ ہونا، محرومیوں کا مزید بڑھتے رہنا شدت پسندی کا بڑا سبب بن رہا ہے ۔ لوگ ریاست سے مایوس ہو کر اپنے فیصلے خود کرنے نکل کھڑے ہوتے ہیں جو ہمیں وکلا کے احتجاج اور پی آئی سی پر حملے میں نظر آیا۔ لوگ ریاست کو بھول کر اپنے اپنے مسیحا خود بنا لیتے ہیں اور سیاسی ادارے ان عوامی جتھوں کے آگے یرغمال بن جاتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں گڈ گورننس کا کوئی بھی تصور کامیاب نہیں ہو سکتا۔ پہلے اچھا طرزِ حکمرانی دینا پڑے گا پھر ریاست کی رٹ بحال ہوگی پھر قانون کا احترام اور حکمرانی قائم ہوگی۔ کیونکہ اس کا تصور حقوق اور فرائض کی اپنی اپنی ادائیگی کے بعد وجود میں آتا ہے ۔ ریاست کے ذمے شہریوں کے کچھ حقوق ہیں، یہ کچھ لو اور کچھ دو کا سودا ہے اور یکطرفہ طور پر نہ تو حکومت سروس ڈلیوری کر سکتی ہے اور نہ ہی شہری تمام محرومیوں کے باوجود اچھے شہری بن سکتے ہیں۔