وکلا کا احتساب: ابھی یا کبھی نہیں

Last Updated On 14 December,2019 08:33 am

لاہور: (امتیاز گل) پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر وکلا کے حملے کی اطلاع مجھے استنبول میں ملی، اس وقت میں علاقائی سکیورٹی سے متعلق ایک مشاورتی اجلاس میں شریک تھا، اس اجلاس میں پاکستانیوں کے علاوہ برطانوی، افغان اور بھارتی مندوبین بھی شریک تھے، میں نے ان لوگوں کو اس شرمناک واقعہ کے بارے میں بتایا تو سب دم بخود رہ گئے، ان میں سے کوئی بھی اس بات پر یقین کرنے پرتیار نہیں تھا کہ کوئی انسان اس حد تک بھی گرسکتا ہے۔

ایک برطانوی مندوب نے خیال ظاہر کیا کہ یہ خبر جھوٹی ہوسکتی ہے، میں نے کچھ دیر پہلے ہی ٹوئٹر آن کیا تھا کہ یہ خبر ملی، بہر صورت اسی دوران کافی، چائے کا وقفہ ہو گیا اور اجلاس کے شرکا جو اس خبر کو سن کر رنجیدہ ہوگئے تھے، کیفے ٹیریا میں جانے کے لیے اٹھ گئے۔ اس وقت دوپہر شروع ہوئی تھی اور ٹوئٹر پر ان وڈیوز کی بھرمار تھی جن میں غصے سے بے قابو وکلا کو اشتعال انگیز تقریریں کرتے، نعرے لگاتے اور اس کے بعد پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں توڑ پھوڑ اور مارکٹائی کرتے ہوئے دکھایا جا رہا تھا۔

ایک ساتھی برطانوی خاتون نے کہا کہ مجھے تو یہ خبر جھوٹی لگتی ہے، ان کا یہ کہنا غلط نہیں تھا کہ کیوں کہ کسی بھی مہذب معاشرے میں کوئی شخص ہسپتالوں پر پُرتشدد حملے اور توڑ پھوڑ کا تصور بھی نہیں کر سکتا، یوں بھی ہسپتالوں کو جنیوا کنونشن کے تحت یہ تحفظ دیا گیا ہے کہ بدترین تصادم یہاں تک کہ جنگ کے دوران بھی ہسپتالوں کو نشانہ نہیں بنایا جا سکتا، لیکن صد افسوس کہ ہمارے وکلا صاحبان ڈاکٹروں کو دھمکیاں دیتے رہے۔ وکلا کی یہ دھمکیاں واضح طور پر سنی گئیں کہ ‘‘تمہاری موت تمہارے سروں پر آ چکی ہے ، اب تمہارا آخری وقت آ چکا ہے، ہم تمہیں سبق سکھا کر رہیں گے ’’۔
یہ شرمناک مناظر بھی سب نے دیکھے کہ کالا کوٹ پہنے ہوئے وکلا نے نہ صرف یہ کہ ہسپتال پر دھاوا بول دیا بلکہ انہوں نے راستے میں آنے والی ہر چیز کو روند دیا، یہاں تک کہ انہوں نے انتہائی بیمار مریضوں کی چیزوں اور زندگی بچانے والی مشینوں کو بھی تباہ کر دیا اور ڈاکٹروں کو بھی بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ یہ بات بہت زیادہ تکلیف دہ تھی کہ بعض سیاسی قد آور شخصیات نے جن میں رضا ربانی اور حامد خان بھی شامل تھے، ناقابل فہم دلائل دے کر وکلا کی اس حرکت پر ردعمل کو متاثر کرنے کی کوشش کی، ایسے ہی موقف کا اظہار کرنے والوں میں بعض صحافی بھی شامل تھے، ان سب نے ہسپتال پر وکلا کے حملے کا کوئی نہ کوئی جواز تراشنے کی کوشش کی۔

جمعہ کو حامد خان سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کے ساتھ پریس کانفرنس میں جلوہ گر ہوئے۔ انہوں نے وکلا کے خلاف ردعمل کی شدت کو کم کرنے کے لیے معذرت خواہی کا تاثر دیا، لیکن ان کی یہ کوشش بنیادی طور پر غلط تھی، کیوں کہ یہاں مسئلہ یہ نہیں ہے کہ حملے کی ابتدا کس نے کی، اس کے برعکس اصل سوال یہ ہے کہ حملہ آور کون تھے، انہوں نے جو طوفان بدتمیزی برپا کیا اور جس طرح تشدد کیا اس کا ان کے پاس کیا قانونی یا اخلاقی جواز تھا۔ یہ سوال اس لیے بھی اہمیت رکھتا ہے کہ اس واقعہ میں بے گناہوں کی جان بھی گئی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہسپتال پر وکلا کے اس حملے کا قطعی کوئی جواز نہیں تھا، اس لیے ضروری ہے کہ لگی لپٹی رکھے بغیر اس حرکت کی بھرپور مذمت کی جائے، اس میں اگر یا مگر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ وکلا کو ایک یا دو ڈاکٹروں سے کوئی شکایت تھی تب بھی انہیں یہ حق کس نے دیا تھا کہ وہ ایک ذاتی معاملے کا انتقام لینے کے لیے عوامی املاک کو تاراج کریں اور بے گناہ مریضوں کی زندگی سے کھیلیں؟۔

اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارا معاشرہ جس میں سیاست دان، وکلا، ڈاکٹرز اور ریٹائرڈ جنرلز کے علاوہ تاجر بھی شامل ہیں، اخلاقی طور پر کس سطح تک گر گئے ہیں، اگر یہ بات درست نہیں تو پھر ان تمام لوگوں کو وکلا کی اس حرکت کی سنگین الفاظ میں مذمت کرنی چاہیے، یہی نہیں بلکہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کو بھی چاہیے کہ وہ وکلا کے اس وحشیانہ عمل کی مذمت کریں، کیوں کہ یہ وہی لوگ ہیں جنہیں سابق چیف جسٹس ‘‘میرے فوجی’’ قرار دیتے تھے۔ وکلا کی جانب سے ہڑتال کی کال اور پریس کو دی جانے والی دھمکیاں بھی انتہائی باعث شرم ہیں، کیوں کہ بے گناہوں کی ہلاکت کا سبب بننے کے بعد اب ان کی جانب سے پورے معاشرے کو دھمکیاں دینے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر کیوں ؟ کیا وکلا قانون سے بالاتر ہیں ؟ ظاہر ہے کہ اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اسی لیے پاکستان کے تمام اداروں کا فرض ہے کہ وہ کسی بھی امتیاز کے بغیر ان تمام عناصر کے خلاف اقدام کریں جنہوں نے بدترین اخلاقی پستی کا مظاہرہ کیا ہے، یہ کام فوری کرنا ہو گا ورنہ پھر کبھی نہیں ہو سکے گا کیوں کہ اب وکلا اپنے اس قابل مذمت طرز عمل کا جواز ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں، حالانکہ اس کا کوئی جواز ممکن ہی نہیں۔ یہ صورت حال بدترین ہے ، اس کے خاتمے کے لیے پوری استقامت اور ثابت قدمی کے ساتھ اقدامات کرنے ہوں گے۔

اگر ریاستی ادارے اتفاق رائے سے ان عناصر کے خلاف سخت کارروائی نہیں کرتے تو پھر یہ جان لینا چاہیے کہ یہ غلاظت نہ صرف جاری رہے گی بلکہ بڑھ بھی سکتی ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ احساس برتری کے شکار غلط کار وکلا خود کو ہر قانون اور پابندی سے بالاتر سمجھنے لگے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پی آئی سی میں مریضوں کی ہلاکت اور سرکاری املاک کی تباہی کے باوجود متعلقہ وکلا کی جانب سے اب بھی کوئی معقول بات نہیں کی جا رہی ہے۔ ضروری ہے کہ اس موقع پر ہی وکلا کو فیس کی ادائیگی کے نظام کو باقاعدہ بنانے کے لیے طریقہ کار وضع کیا جائے۔ یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو قانون کی بالادستی پر شہریوں کا اعتماد تیزی سے ختم ہوتا جائے گا، اسی لیے ہم بار بار انتباہ کر رہے ہیں کہ یہ کام ابھی کیا جائے ورنہ شاید پھر کبھی نہ ہو سکے۔ اب ہم سب بالخصو ص سپریم کورٹ کے سامنے ایک بڑا سوال ہے۔ سوال یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ نے 27 اکتوبر کی رولنگ میں دہشت گردی کی جو نئی تعریف متعین کی ہے کیا اس کے تحت عدلیہ پی آئی سی سانحے کے ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی کرے گی؟۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے مطابق مذہبی، نظریاتی یا سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت منظم انداز میں طاقت کا استعمال بھی دہشت گردی ہے۔ اگر منصوبہ بندی کے تحت لوگوں کو خوف زدہ کر دیا جائے، یہ عمل اگر انسانی جان اور املاک کے لیے خطرہ بن جائے تو یہ بھی دہشت گردی ہے۔ اسی طرح منظم انداز میں صحافیوں، تاجروں ، سوشل سیکٹر ، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں یا عام شہریوں پر طاقت استعمال کر کے حملہ کرنا بھی دہشت گردی ہے، لہٰذا یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ یہ حکومت، عدلیہ اور سکیورٹی اداروں کے لیے آزمائش کا ایک مرحلہ ہے۔ جو اقدامات تجویز کیے گئے ہیں ان پر عمل درآمد کے حوالے سے جان لینا چاہیے کہ یہ ‘‘ابھی یا پھر کبھی نہیں ’’ کی صورت حال ہے۔
 

Advertisement