لاہور: (دنیا نیوز) میزبان 'دنیا کامران خان کے ساتھ' کے مطابق وفاق میں وزیر اعظم عمران خان کی حکومت میں استحکام کے معاملات اس انداز سے نظر نہیں آرہے جیسا کہ ان کی خواہش ہوگی، حکومت پر اعتماد کم ہوتا نظر آرہا ہے۔ حکومت کے اپنے لوگ بھی مطمئن دکھائی نہیں دیتے، اتحادی نالاں نظر آتے ہیں۔ اسی طرح اس وقت مہنگائی کا طوفان ہے ، پی ٹی آئی حکومت ڈلیور نہیں کررہی ۔غریب اور متوسط طبقے کے لوگ حکومت سے نالاں نظر آتے ہیں۔
علاوہ ازیں پنجاب جو کہ اہم صوبہ ہے، وہاں پی ٹی آئی کی گرفت سب سے زیادہ ڈھیلی ہوئی ہے اور وزیر اعلیٰ بزدار کچھ نہیں کر پا رہے۔ تحریک انصاف کی بساط کھسک رہی ہے۔ مسلم لیگ ق کے شدید تحفظات سامنے آئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق وزیر اعلیٰ کے پاس شاید اتنے اختیارات نہیں ہیں جتنے چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کو حاصل ہیں، دوسری طرف وزیر اعظم کے قریبی اتحادی شیخ رشید کہتے ہیں کہ پنجاب میں لوگ حکمت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں اور انہیں اس حوالے سے خود تحفظات ہیں۔
اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما جہانگیر ترین نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا حکومتی اتحادی پہلے بھی ہمارے ساتھ تھے، اب بھی ہیں۔ مسلم لیگ ق میں بے چینی صحیح ہے، ق لیگ کے ساتھ کئی مسائل ایسے ہیں جو حل نہیں ہوسکے۔ ان سے رابطے میں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس (جی ڈی اے ) کے تمام مسائل کو حل کر دیا ہے، چند تحفظات پر اتحادی جماعت کیساتھ بات چیت کریں گے۔ اسی طرح بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی مینگل) کے ایسے مطالبات پر پیش رفت ہوئی ہے جن پر پہلے کچھ نہ ہوسکا، ان کیساتھ بھی اب کوئی ایشو نہیں ہے۔
جہانگیر خان ترین کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت میں کمزوریاں موجود ہیں تا ہم زراعت سمیت بہت سے اچھے کام ہو رہے ہیں، صوبے میں گورننس کافی جگہ بہتر ہے، 6 سے 8 ماہ میں پنجاب میں نمایاں تبدیلی نظر آئے گی۔ صوبے میں کامیاب نہ ہوئے تو حالات بہت ہی مشکل ہو جائیں گے۔ جہانگیر ترین نے کہا کہ مہنگائی ایک بہت بڑا ایشو ہے، سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ تھوک اور پرچون قیمتوں میں بہت فرق ہے، اگر منڈی میں ٹماٹر 60 روپے کا فروخت ہو رہا ہے تو پرچون میں 100 روپے کا بک رہا ہوتا ہے، اس سلسلے میں پنجاب اور پختونخوا میں پرائس کنٹرول کا نظام بنایا گیا ہے، سابق حکومت نے مہنگے پراجیکٹ لگائے تھے اور دو سال تک بجلی اور گیس کی قیمتوں کو روکے رکھا ہمیں توازن پیدا کرنے کے لئے یکدم قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑا جس سے یہ بنیادی مسئلہ ہوا ہے۔ ہم درست راستے پر چل رہے ہیں ماضی کی حکومتوں نے چیزوں کو خراب کیا تھا ان کو ٹھیک کرنا آسان نہیں تھا۔ آج زرمبادلہ ذخائر 12 ارب ڈالر ہوگئے ہیں روپیہ کی حالت مستحکم ہے۔