لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دوسری بار کشمیر پر ثالثی کی بات کی ہے اور کہا ہے وہ کشمیر ایشو پر پاکستان اور بھارت کے درمیان کردار ادا کر سکتے ہیں اس کے ساتھ انہوں نے وزیراعظم عمران خان سے اپنے تعلق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہم پاکستان کے اتنے قریب نہیں تھے جتنے اب ہیں۔ دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے بھی امریکا پر زور دیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل میں اپنا کردار ادا کرے۔
اس امر کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ کیا واقعتاً امریکی صدر مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش پر سنجیدہ ہیں اور کیا بھارت امریکی ثالثی کو قبول کرے گا۔ کیا امریکا کے ثالثی کردار اور اس کا فیصلہ دونوں فریقوں پر تسلیم کرنا لازم ہوگا اور کیا ہم اس کیلئے تیار ہوں گے۔ بھارت اب تک امریکی ثالثی کیوں قبول کرنے کو تیار نہیں۔ اگر علاقائی صورتحال میں بڑے ایشو کی بات کی جائے تو اس وقت افغانستان میں امن اور مسئلہ کشمیر کا حل وہ سلگتے مسائل ہیں جن کے حل ہوئے بغیر جنوبی ایشیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔
افغان ایشو کے حوالہ سے ہماری لیڈرشپ کا کہنا ہے کہ افغان ایشو پر پاکستان اور امریکہ ایک پیج پر کھڑے ہیں تو پھر ہمیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ افغانستان میں امریکی فوج کے انخلا اور افغانستان امن عمل کو آگے بڑھانے میں پاکستان نے بنیادی کردار ادا کیا ہے اور امریکا اور طالبان کو ایک میز پر لا بٹھایا ہے۔ اگر افغانستان ایشو پر امریکہ اور پاکستان ایک پیج پر ہیں تو کشمیر ایشو پر کیوں نہیں حالانکہ کشمیر کی بین الاقوامی حیثیت خود اقوام متحدہ کی قراردادوں کی وجہ سے ہے۔ ایک وقت تھا کہ امریکی صدر اوباما جنوبی ایشیا کا بڑا مسئلہ کشمیر کو قرار دیتے تھے لیکن ان کے بعد امریکی صدر ٹرمپ نے برسر اقتدار آنے کے بعد اپنا وزن بھارت کے پلڑے میں ڈالا اور خصوصاً افغان ایشو کے حوالہ سے ساری گڑبڑ کا ذمہ دار پاکستان کو گردانتے نظر آئے لیکن بعدازاں انہیں حالات و واقعات سے پتہ چلا کہ پاکستان جو کہتا آیا ہے کہ افغان مسئلے کا حل طاقت اور قوت سے نہیں صرف سیاسی حل سے ہے پھر وہ اس طرف متوجہ ہوئے اور افغان ایشو کے حل کیلئے انہوں نے پاکستان کی تجویز سے اتفاق کیا اور آج پاکستان امن عمل آگے بڑھانے کیلئے سرگرم عمل ہے۔ وہاں اگر کوئی رکاوٹ ہے تو خود ان کی اپنی کٹھ پتلی اشرف غنی انتظامیہ اور بھارت ہے جو کسی طور پر بھی یہاں پاکستان کا مثبت کردار ہضم کرنے کیلئے تیار نہیں۔
لہٰذا دیکھنا یہ ہے اب جبکہ پاکستان امریکا پر زور دے رہا ہے کہ وہ کشمیر کے مسئلہ کے حل کیلئے اپنا کردار ادا کرے اور صدر ٹرمپ کی ثالثی بھی ماننے کو تیار ہے تو پہلے یہ دیکھا جائے کہ بھارت ثالثی قبول کرنے کیلئے کیونکر تیار نہیں اور وہ اسے کیونکر اپنا اندرونی مسئلہ قرار دے رہا ہے اس لئے کہ اس کا اس حوالہ سے کوئی سیاسی پس منظر نہیں۔ ٹرمپ اس لئے ثالثی کی بات کرتے نظر آ رہے ہیں کیونکہ کشمیر کے اندر ظلم تشدد اور بربریت کے ساتھ انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں پر خود امریکا اور اہم ممالک میں بھی ردعمل ظاہر کیا جا رہا ہے، اس دباؤ سے نکلنے کیلئے وہ ثالثی کی بات کرتے نظر آتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں زندگی محال ہو چکی ہے جس کے نتیجہ میں وہ انسانی المیہ جنم لے چکا جس کا ذکر وزیراعظم عمران خان نے جنرل اسمبلی اور بعدازاں بین الاقوامی فورم اور اب صدر ٹرمپ سے ملاقات میں کیا ہے مگر امریکا اور اس کے صدر کو یہاں ہر طرح کے انسانی حقوق کی پامالی اور انسانیت کی انتہا درجہ کی تذلیل کے باوجود بھارتی درندگی کے خلاف ایک حرف مذمت زبان پر لانے کی توفیق نہیں ہوئی اور ہم امریکی صدر سے کس کردار اور مسئلہ کے مخلصانہ حل کی توقع لگائے بیٹھے ہیں۔
معاملہ کا ایک لحاظ سے اطمینان بخش پہلو یہ ہے کہ خود نریندر مودی سرکار ہی اس ثالثی کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ اگر پاکستان اور بھارت اس کیلئے تیار بھی ہو جائیں تو ثالثی قبول کرنے کے بعد فریقین کیلئے لازم ہو جاتا ہے کہ وہ ثالث کا فیصلہ قبول کریں اور اگر جناب صدر ٹرمپ ایسا کوئی فیصلہ صادر کر دیں جیسا کہ انہوں نے اس سے قبل فلسطین کے حوالہ سے تھوپا تھا تو پھر ہم کہاں کھڑے ہوں گے اور کشمیریوں کا مستقبل کیا ہوگا۔ مسئلہ کشمیر پر امریکی صدر کی ثالثی کے بارے میں تو پہلے روز سے ہی پاکستان کے سنجیدہ حلقے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے آ رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں امریکا کی علاقائی ترجیح کسی سے ڈھکی چھپی نہیں لہٰذا امریکی صدر کی ثالثی کے بخار سے نکل کر امریکا اور عالمی قوتوں پر یہ زور دینا چاہیے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حقیقت پسندانہ حل پر آئیں۔ حکومت پاکستان کو صدر ٹرمپ کی محبت میں گرفتار ہونے کے بجائے کشمیر کے حوالہ سے سنجیدہ طرز عمل اپنانا چاہیے۔