لاہور: (رپورٹ: ذوالفقارعلی مہتو) وزارت ریلوے نے ایکشن لیتے ہوئے 31 اکتوبر کو کراچی سے لاہور آرہی تیزگام میں آتشزدگی سے 70 سے زائد افراد کے جاں بحق اور لگ بھگ 40 زخمی ہونے کی انکوائری محکمے کے 3 ایڈیشنل جنرل منیجرز کی کمیٹی سے دوبارہ 15 دن میں مکمل کرانے کا تحریری حکم جاری کر دیا۔
دوسری طرف دنیا نیوز کی تحقیقات میں یہ دلچسپ اور حیران کن حقیقت کا انکشاف بھی ہوا ہے کہ ریلوے میں حادثات کی انکوائریوں کے لئے مقرر سب سے بڑے افسر فیڈرل گورنمنٹ انسپکٹر برائے ریلوے (ایف جی آئی آر) کی اس عہدے پر وفاقی سیکرٹری وزارت ریلوے کی طرف سے تقرری ہی غیر قانونی ہے اور تیزگام سمیت ان کی انکوائریوں کی قانونی حیثیت پر سنجیدہ قسم کے سوالیہ نشان لگ گئے ہیں۔
تحقیقات میں پتہ چلا ہے کہ اسلام آباد سے سیکرٹری ریلوے بورڈ ارشد سلام خٹک کے دستخط سے جاری کئے گئے خط میں ریلوے کے چیف ایگزیکٹو آفیسر دوست محمد لغاری کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ تیز گام آتشزدگی حادثے کے بارے میں ایف جی آئی آر کی انکوائری کے مفصل جائزے سے انکشاف ہوا ہے کہ حادثے سے متعلق بعض ایسے پہلو ہیں جن کی انتظامی بنیادوں پر اے جی ایمز کی 3 رکنی کمیٹی سے چھان بین اور تجزیہ ضروری ہے جس کے بعد وزارت ریلوے اس سلسلے میں حتمی موقف اختیار کرے گی اور اے جی ایمز کو یہ رپورٹ 15 دن میں مکمل کرنا ہوگی۔
اس سارے معاملے میں ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جس رپورٹ کی دوبارہ انکوائری کا کہا گیا ہے وہ بھی دوست محمد لغاری نے ہی بطور فیڈرل گورنمنٹ انسپکٹر برائے ریلوے (ایف جی آئی آر) تیار کی تھی اور اب انہوں نے اپنی رپورٹ پر خود ہی عدم اعتماد کرتے ہوئے 3 اے جی ایمز کی کمیٹی تشکیل دے کر از سر نو انکوائری کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ایف جی آئی آر کی رپورٹ کو نظام میں حتمی حیثیت حاصل ہے اور یہ پہلی بار ہوا ہے کہ سیکرٹری وزارت ریلوے کی طرف سے انکوائری منظور ہونے کے بعد اس کو ری اوپن کیا گیا ہے۔
دنیا گروپ نے ایف جی آئی آر کی رپورٹ کے بعض ایسے پہلوؤں کی نشاندہی کی تھی جس سے رپورٹ میں موجود فاش غلطیاں سامنے آگئی تھیں جس کے بعد وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید نے دوبارہ انکوائری کا اعلان کیا تھا اور ریلوے انتظامیہ نے ایف جی آئی آر کی رپورٹ کے مطابق قصور وار اور بے گناہ قرار دئیے گئے اہلکاروں کے خلاف ایکشن روک دیا تھا۔ وفاقی انسپکٹر کی اپنی حیثیت اور تقرری کے طریقہ کار بارے انوسٹی گیشن کے دوران انکشاف ہوا کہ ریلوے ایکٹ 1860 کے باب نمبر 2 کے آرٹیکل 4 کے مطابق ایف جی آئی آر ریلوے انتظامیہ کے زیر کنٹرول ہونے کے بجائے براہ راست خودمختار حیثیت کے ساتھ ریلوے میں وفاقی حکومت کے نمائندے یا ریگولیٹر کے طورپرکام کرے گا اوروفاقی حکومت ہی براہ راست کم از کم جنرل منیجر سطح کے ریلوے افسر کو انسپکٹر مقررکرسکتی ہے۔
تحقیقات سے یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کی جانب سے مصطفی امپیکس کیس کے 18 اگست 2016 کو سنائے گئے فیصلے کی دستاویز میں وفاقی حکومت کی جو تعریف و تشریح کی گئی ہے اسکے مطابق وزیراعظم اور وفاقی وزرا پر مشتمل افراد اجتماعی طور پر کابینہ ہیں اور یہ کابینہ تمام افراد مشترکہ طور پر وفاقی حکومت کہلا سکتے ہیں۔ اسی فیصلے میں قرار دیا گیا کہ وزیر اعظم،وفاقی وزیر یا کسی وزارت کا سیکرٹری انفرادی طور پر وفاقی حکومت کے اختیارات استعمال نہیں کرسکتا اور اگر وہ ایسا کرے گا تو آئین کے لحاظ سے یہ فعل ناجائز اور قانون کی نظر میں باطل یا کالعدم ہوگا۔
سپریم کورٹ کی تشریح و تعریف کے بعد وفاقی سیکرٹری ریلوے کی طرف سے مقرر نئے قائم مقام ایف جی آئی آر آصف متین زیدی اور موجودہ سی ای او اور سابق ایف جی آئی آر دوست محمد لغاری کی تقرری اور ان کی انکوائری رپورٹ کی حیثیت پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ ماہر قانون اظہر صدیق نے کہا کوئی وفاقی سیکرٹری خود کو وفاقی حکومت قرار دے کر کوئی اقدام نہیں کرسکتا۔ اس بارے میں وفاقی سیکرٹری ریلوے حبیب الرحمٰن گیلانی سے گفتگو کی گئی تو ان کا کہنا تھا بطور نمائندہ وفاقی حکومت وہ ایف جی آئی آر کا تقرر کرنے کے مجاز ہیں اور یہ پروسیجر کئی برسوں سے لاگو ہے، اس کا تقرر کابینہ کے بجائے سیکرٹری ہی کرتا ہے اور ایف جی آئی آر کی رپورٹس بھی وزارت ریلوے کو ہی پیش کی جاتی ہیں۔ حبیب الرحمٰن نے کہا بعض ملکوں میں ایف جی آئی آر کا تقرر حکومت کرتی ہے لیکن پاکستان میں یہ کام وفاقی سیکرٹری کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔