لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) پوری دنیا میں کورونا وائرس کے متاثرین کی تیزی سے بڑھ رہی ہے اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی مریضوں کی تعداد میں اضافے کی رفتا ر بڑھنی شروع ہوگئی جس نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے مسلسل یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس وقت کورونا کا دباؤ اتنا زیادہ نہیں تاہم وہ یہ انتباہ بھی کر رہے ہیں کہ اپریل کے آخر میں اس حوالے سے بننے والی صورتحال پر ہمارے ہسپتالوں پر بہت دباؤ ہوگا کورونا کے خلاف قوم بن کر لڑنا ہے جبکہ دوسری طرف وہ 14 اپریل کو لاک ڈاؤن میں نرمی کا بھی کہہ رہے ہیں دونوں باتیں آپس میں کوئی میل کھاتی نظر نہیں آ رہیں۔
اس امر کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ایسا کیوں ہے ؟ کیونکہ حکومت عدالت عظمیٰ میں جمع کروائی جانے والی رپورٹ میں یہ کہہ چکی ہے کہ 25 اپریل تک کورونا کے متاثرین کی تعداد 50 ہزار تک ہو سکتی ہے۔ ضرورت تو اس امر کی ہے کہ حکومت کورونا، اس کے اثرات اور پھیلاؤ کو روکنے کی تدبیر اور اقدامات کرے تا کہ ملک کے اندر مزید ہنگامی اور ہیجانی کیفیت طاری نہ ہو کیونکہ دنیا بھر سے آنے والی رپورٹس یہ ظاہر کرتی ہیں ایک جگہ جب کورونا کے متاثرین کا پتہ چلتا ہے تو پھر اس کے پھیلاؤ پر قابو پانا مشکل ہوتا ہے۔ یقینا حکومت یہ محسوس کرتی ہے لاک ڈاؤن کے نتیجہ میں معاشی و تجارتی سرگرمیوں کی بندش کے براہ راست اثرات عام آدمی پر آتے ہیں اس کیلئے جہاں ایک طرف روٹی دال کا مسئلہ ابھرا ہے تو دوسری طرف اس نے روزگار کے مسائل پیدا کر دیئے ہیں۔
بنیادی بات جو سوچنے کی ہے کہ جب حکومت یہ سمجھ رہی ہے کہ آنے والے دنوں میں کورونا کنٹرول نہیں ہوگا بلکہ اس کے متاثرین بڑھیں گے تو پھر پہلی ترجیح تو اس وبا کا سدباب ہے، ایسا نہ ہو کہ حکومت اپنے اوپر آنے والے دباؤ کے باعث کاروبار کو کھولنا شروع کرے اور بعد ازاں یہ سارا عمل کورونا کو آئوٹ آف کنٹرول کر دے۔ خدانخواستہ اگر واقعتاً کورونا آپے سے باہر ہوتا ہے تو پھر اس کی پکڑائی کیسے ہوگی کیا ہمارے ہسپتالوں میں مناسب بندوبست کر لئے گئے ہیں، کیا ڈاکٹرز، نرسز اور طبی عملہ کو بھی آنے والے اس دباؤ کے حوالے سے ذہنی طور پر تیار کیا جا چکا ہے ؟ ان کے حفاظتی بندوبست مکمل ہیں ؟ کیونکہ اس حوالے سے وزیراعظم کی ٹاسک فوس برائے سائنس کے سربراہ ڈاکٹر عطاء الرحمن مسلسل یہ کہہ رہے ہیں ہمارے ہاں کورونا متاثرین کی تعداد کہیں زیادہ ہے مگر ٹیسٹ کی محدود صلاحیت کی وجہ سے ان تک پہنچا نہیں جا رہا۔
ملک میں مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد خطرہ کی گھنٹی ہے جس سے نمٹنے کیلئے ہمارا بندوبست پورا نہیں۔ لاہور کے بڑے ہسپتالوں کو ابھی تک جو فنڈز حکومت کی جانب سے فراہم کئے جا رہے ہیں وہ بجٹ میں محض فنڈز کا بقیہ حصہ ہی ہے اور انہیں ہدایات یہ ہیں کہ اب انہیں فنڈز کو کسی اور مد یا خریداری میں استعمال کرنے کے بجائے صرف کورونا کیلئے مختص کریں۔ جہاں تک حفاظتی سامان کا تعلق ہے تو لاہور کے بڑے ہسپتال ایک دوسرے سے مدد مانگتے نظر آ رہے ہیں۔ دوسری طرف شاہراہوں پر ٹریفک کا دباؤ جو چند روز قبل نہ ہونے کے برابر تھا اب یہ بڑھتا جا رہا ہے لوگوں کے ہجوم بھی دیکھنے میں آ رہے ہیں اور بڑی نہیں تو چھوٹی مارکیٹس کھلنا شروع ہوگئی ہیں، لگتا یوں ہے لوگوں نے از خود ہی کچھ فیصلے کر لئے ہیں۔
ماہرین اور ڈاکٹرز کہتے نظر آ ہے ہیں کاروباری سرگرمیوں کی بحالی کے اعلان کہیں ہمیں اس طرف نہ لے جائے جس صورتحال سے دنیا کے بڑے ممالک خصوصاً امریکہ، سپین، اٹلی، برطانیہ دو چار ہیں۔ فی الحال احتیاطی تدابیر کے تحت سماجی میل جول اور کاروباری سرگرمیوں سے باز رہیں۔ خدانخواستہ یہاں مغرب والی صورتحال طاری ہوتی ہے تو کیا ہم اسے سنبھالنے کے متحمل ہو سکیں گے ؟ نہیں ہو سکیں گے کیونکہ ہماری معیشت اس حال میں نہیں ہے اور نہ ہی کورونا کے حوالے سے ہمارے اقدامات میں اتنی جان ہے کہ ہم غیر معمولی صورتحال کے سامنے ٹھہر سکیں۔