لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) دنیا بھر میں کورونا وائرس کی یلغار اور اس کے اثرات نے بڑے بڑے ملکوں اور ان کی حکومتوں اور حکمرانوں کو پریشان کر رکھا ہے، اگر کورونا کی وجہ سے کوئی ایک چیز یا عمل سرے سے غائب نظر آ رہا ہے تو وہ سیاست ہے جس کا باب فی الحال بند نظر آ رہا ہے، حکومتیں اپنی عوام اور معیشت بچانے کیلئے پریشان نظر آ رہی ہیں۔ دوسری جانب پاکستان میں اس جان لیوا وبا کے باوجود الزام تراشی اور کورونا پر سیاست کا ایسا عمل جاری ہے جس نے خوفزدہ عوام کو اور زیادہ پریشان کر رکھا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے اس عمل کا نقصان کسے ہوگا اور فائدہ کس کا ہوگا ؟۔
چاہئے تو یہ تھا کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں مل کر اس جان لیوا وبا کے خلاف قومی لائحہ عمل کا تعین کرتیں۔ اس امر کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ آخر کون کورونا پر سیاست کا مرتکب ہو رہا ہے ۔ کیا اس پر سیاست کا کوئی جواز تھا اور وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے ذمہ دارانہ طرزعمل کے بعد کیا ان کی جماعتوں اور حکومتوں کے ذمہ داران کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی ضروری تھی اور اس کے کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ سیاستدانوں نے تاریخ سے سبق حاصل نہیں کیا اور دنیا میں کورونا کی وجہ سے آنے والی مصیبت سے بھی ان کی آنکھیں نہیں کھلیں۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ دیکھیں تو کسی بھی قدرتی آفت، ناگہانی واقعات یا بڑے بحرانوں کی صورت میں ہمیشہ حکومت اور اپوزیشن متفقہ حکمت عملی کا تعین کر کے اپنا کردار ادا کرتی نظر آتی رہی ہیں، اس کا بڑا مقصد یہی ہوتا تھا قوم اور ملک کے وسیع تر مفاد میں سرگرم ہوا جائے اور کوئی ایسا عمل اختیار نہ کیا جائے جو مشکل کی اس گھڑی میں انتشار، خلفشار کا باعث ہو اور عوام یہ سوچنے پر مجبور نہ ہوں کہ سیاستدان اور حکمرانوں کو ذمہ داری کا احساس نہیں۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ وزیراعظم عمران خان اپوزیشن کو ساتھ لے کر کورونا سے نبردآزما ہوتے۔ خود پیپلز پارٹی کے لیڈر بلاول بھٹو اور مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف، امیر جماعت اسلامی سراج الحق، مولانا فضل الرحمن اور دیگر قائدین بھی ان کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھاتے اور حکومت کے ساتھ تعاون کی بات کرتے نظر آئے مگر حکومت نے اس کا فائدہ اٹھانے کے بجائے سولو پرواز کی حکمت عملی اختیار کی۔
سندھ حکومت کے کورونا کے خلاف بروقت اقدامات سے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کا قد بڑھا اور ان کی اور ان کی حکومت کی پذیرائی ہونے لگی جو یقیناً مرکز کیلئے ہضم کرنا مشکل تھی۔ وزیراعلیٰ سندھ اپنی پریس کانفرنس میں وزیراعظم کا ذکر احترام سے کرتے اور ان کے فیصلوں کی تائید کرتے دکھائی دئیے مگر سوال یہ ہے اگر وزیراعظم نے اپنے وزرا کو سندھ حکومت کو ٹارگٹ کرنے کیلئے نہیں کہا اور وزیراعلیٰ سندھ کے ترجمان یا دیگر ذمہ دار وفاقی حکومت پر برستے دکھائی دے رہے ہیں تو کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ اگر حکومتیں مل کر چل رہی ہیں، فیصلوں پر اتفاق بھی ہے تو پھر الزام تراشی اور ایک دوسرے کو کوسنے اور کورونا پر ایک دوسرے کی کارکردگی کو ٹارگٹ کرنے کا کیا جواز ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے وفاقی حکومت میں کوئی عنصر سندھ حکومت کی کارکردگی کو ہضم نہیں کر پا رہا لہٰذا بعض وزرا کو اس حوالہ سے سگنل دیا گیا ہے۔
اچھا ہوتا وزیراعظم عمران خان قومی لیڈر کے طور پر آگے آتے اور کورونا جیسی وبا سے نمٹنے کیلئے قومی لائحہ عمل طے کرواتے اور سب مل کر اس کے خلاف نبردآزما ہوتے لیکن مراد علی شاہ اور ان کی حکومت کو ٹارگٹ کرنے کے عمل سے ظاہر ہو رہا ہے وفاق اپنی کارکردگی کو سندھ کے مقابلے پر لے آیا ہے۔ اگر وفاقی وزرا وزیراعلیٰ مراد علی شاہ پر الزامات عائد کریں گے تو جواباً ٹارگٹ وزیراعظم عمران خان ہوں گے اور یہ عمل اچھا نہیں ہوگا۔ اب بھی وقت ہے وفاقی حکومت آگے بڑھے وزیراعظم عمران خان اپنا دل اور بڑا کریں اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی پالیسی اختیار کریں تو نہ صرف اس موذی وبا کا مقابلہ ممکن ہے بلکہ اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے سلگتے مسائل خصوصاً بھوک، بے روزگاری اور غربت کا مقابلہ بھی کیا جا سکتا ہے اور اس سے اہل سیاست کی عزت بھی بڑھے گی اور وزیراعظم کی لیڈرشپ کو بھی کریڈٹ جائے گا۔ تاریخ بتاتی ہے بڑے بحران کسی بھی سیاستدان کو اپنی حکمت عملی کی بنا پر بڑا لیڈر بننے میں مدد دیتے ہیں یہی وہ مرحلہ ہے جس کا فائدہ عمران خان کو اٹھانا چاہئے لیکن اس کیلئے انہیں وفاقی وزرا کو شٹ اپ کال دینا ہوگی۔