لندن: (ویب ڈیسک) برطانیہ میں تیزی سے کورونا وائرس پھیل رہا ہے جس کے بعد ملک میں سائنسدان 5 لاکھ رضاکاروں سے حاصل کردہ ڈی این اے نمونوں کا تجزیہ کر کے جاننے کی کوشش کریں گے کہ کورونا وائرس کے مرض میں علامات کی شدت مختلف لوگوں میں مختلف کیوں ہوتی ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق یو کے بائیو بینک نامی اس ادارے میں لوگوں سے ڈی این اے کے نمونوں کے ساتھ ساتھ ان کی صحت کی تفصیلی معلومات بھی حاصل کی گئی ہیں۔ امید کی جا رہی ہے کہ انسانوں میں موجود جینیاتی فرق سے معلوم ہو سکے گا کہ کیوں مکمل طور پر صحتیاب افراد شدید بیمار پڑ سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ دنیا بھر میں اب تک کووِڈ-19 سے 20 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں جبکہ ایک لاکھ 28 ہزار سے زائد کی اس سے موت ہو چکی ہے۔ دنیا بھر میں پانچ لاکھ سے زائد صحتیاب ہوچکے ہیں۔
خبر رساں ادارے کے مطابق دنیا بھر کے 15 ہزار سائنسدانوں کو یو کے بائیو بینک تک رسائی حاصل ہوگی۔ کچھ لوگوں میں کورونا وائرس کی کوئی علامات ظاہر نہیں ہوتیں اور سائنسدان جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ایسے لوگوں کا تناسب کتنا ہے۔ چند لوگوں میں علامات معمولی سے لے کر درمیانی شدت تک کی ہوتی ہیں۔
لیکن ہر پانچ میں سے ایک شخص میں اس مرض کی علامات نہایت شدید ہوتی ہیں اور اعشاریہ پانچ فیصد سے لے کر ایک فیصد کے درمیان لوگ اس مرض سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔
یو کے بائیو بینک میں پانچ لاکھ رضاکاروں کے خون، پیشاب اور تھوک کے نمونے موجود ہیں جن کی صحت کی گزشتہ ایک دہائی کے دوران نگرانی کی جاتی رہی ہے اور اس بینک نے کینسر، سٹروک اور ڈیمینشیا جیسے امراض کے بارے میں ہمارے سوالات کا جواب تلاش کرنے میں ہماری مدد کی ہے اب اس میں کورونا وائرس کے مثبت ٹیسٹوں، ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کا ڈیٹا بھی شامل کیا جائے گا۔
پراجیکٹ کے مرکزی محقق پروفیسر روری کولنز کا کہنا ہے کہ ہم یو کے بائیو بینک میں موجود ڈیٹا کو دیکھ کر ان افراد کے درمیان فرق کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی جینیات میں کیا فرق ہے؟ کیا ان کے جینز میں فرق کا ان کی قوتِ مدافعت سے کوئی تعلق ہے؟ کیا اس کا ان کی مجموعی صحت پر فرق پڑتا ہے؟
انھوں نے کہا کہ یہ ڈیٹا سیٹ نہایت منفرد اور بڑا ہے اور ان کے خیال میں یہ اس مرض کے بارے میں ہماری فہم کو مکمل طور پر بدل کر رکھ سکتا ہے۔