لاہور: (دنیا نیوز) سینئر تجزیہ کار ایاز امیر نے کہا کہ ہم انسانوں نے نظام قدرت کا توازن بگاڑا تو کورونا وائرس کی وبا آئی ہے، ہم ہسپتالوں پر توجہ دے رہے ہیں لیکن صفائی کے نظام پر توجہ نہیں دے رہے، پابندیاں ہوں لیکن عمومی رویوں میں تبدیلی نہ آئے تو یہ افسوسناک ہے۔
پروگرام تھنک ٹینک میں میزبان سیدہ عائشہ ناز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا پنجاب حکومت کو باغ جناح میں گندے پانی کا ڈرین بنانے کے فیصلے پر نظرثانی کرنی چاہئے، عوام کو راستہ دکھانا حکومت کا کام ہے، سختی دکھانی پڑے تو دکھانی چاہئے، اسلام آباد جیسے شہر میں صفائی کا نظام نہیں، ہمیں صفائی کو بہتر کرنا ہوگا، شادیوں میں سادگی، فوتگی میں اضافی روایات کا خاتمہ کرنا ہوگا، ٹرانسپورٹ کم ہوئی ہے اسے مستقل طور پر کم کرنا ہوگا۔
روزنامہ دنیا کے ایگزیکٹو گروپ ایڈیٹر سلمان غنی نے کہا کہ سانحات اور حادثات سے لوگ سیکھتے ہیں، مختلف ممالک میں ری ایکشن آرہا ہے، پاکستان میں فلاحی تنظیموں نے کام کیا ہے، کچھ لوگوں نے ضرورت کے مطابق راشن لیا، کچھ نے زیادہ لے کر سٹور کرلیا ہے، پنجاب حکومت نے سٹور کھولنے کا اچھا فیصلہ کیا ہے ساتھ موثر لاک ڈاؤن کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے، ہم نے دباؤ کا سامنا کرلیا ہے، یہ وقت بھی گزر جائے گا۔ جہاں سسٹم موجود ہے وہ معیشت بھی بحال کرلیں گے اور اپنے پاؤں پر دوبارہ کھڑے ہو جائیں گے، ہمارے پاس تو سسٹم ہی نہیں ہے، ہماری حکومتیں بیٹھی نہیں کچھ نہ کچھ کام کر رہی ہیں۔
ماہر سیاسیات ڈاکٹر حسن عسکری نے کہا کہ اس کا کیا ثبوت ہے کہ لاک ڈاؤن نہ کیا جائے تو مرض کم ہو جائے گا، اگر سخت کر دیا جائے تو اس کا کیا ثبوت ہے کہ کیس کم ہو جائیں گے، اس وقت وثوق کے ساتھ کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا، لاک ڈائون کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، معیشت اور کورونا کو روکنے میں توازن قائم کرنا پڑے گا، عید کے موقع پر کاروبار کھولنے پڑیں گے، حکومت اور تاجروں کو مل بیٹھ کر فیصلے کرنا ہوں گے، کورونا نے ثابت کر دیا کہ بڑے بڑے پراجیکٹ بنا کر ہم گلیمر دکھا سکتے ہیں لیکن انسانوں کو بچانے کیلئے استعمال نہیں کرسکتے۔
اسلام آباد سے دنیا نیوز کے بیوروچیف خاور گھمن نے کہا کہ 9 مئی کے بعد حالات مختلف ہوں گے، پاکستان جیسے ملک میں مکمل لاک ڈاؤن نہیں کیا جاسکتا، لاک ڈاؤن کو زیادہ دیر نہیں رکھا جاسکتا، عوام کے رویوں میں تبدیلی قیادت لاتی ہے، بلاول بھٹو، مریم نواز اس وقت نوجوانوں کو موٹیویٹ کرسکتے تھے، بلاول تو کچھ بول رہے ہیں لیکن مریم خاموش ہیں، لیڈران کو آگے آنا پڑے گا، لوگوں کو سمجھانا پڑے گا۔