کراچی: (دنیا نیوز) لاہور سے کراچی جانیوالی خصوصی پرواز پی کے 8303 منزل پر نہ پہنچ سکی، پی آئی اے کا طیارہ ائیر بس اے 320 لینڈنگ سے ایک منٹ قبل ائیر پورٹ کے قریب آبادی پر گر کر تباہ ہوگیا۔ طیارے میں عملے سمیت 99 افراد سوار تھے جاں بحق ہونے والے 97 کی لاشیں نکال لی گئی ہیں، 2 مسافر معجزانہ طور پر بچ گئے۔
پی آئی اے جہاز کی تباہی کی تحقیقات کیلئے ائیر کموڈور عثمان غنی کی سربراہی میں کمیٹی قائم کر دی گئی۔ بتایا گیا ہے پی آئی اے کے طیارے ائیر بس اے 320 نے دوپہر ایک بج کر 10 منٹ پر لاہور ائیر پورٹ سے اڑان بھری، اس میں 91 مسافر اور عملے کے 8 ارکان سوار تھے، 2 بج کر 37 منٹ پر کراچی ائیر پورٹ کے رن وے سے متصل آبادی ماڈل کالونی کے علاقے جناح گارڈن میں طیارہ گر کر تباہ ہوگیا اور وہاں آگ لگ گئی۔
طیارہ گرنے سے کئی مکانات کو بھی نقصان پہنچا جبکہ کچھ لوگ ملبے تلے بھی دب گئے۔ تباہ شدہ تیارے کے بلیک باکس کا اہم حصہ کوئیک ایکسِس ریکارڈر مل گیا ہے۔ حادثے کے فوری بعد پاک فوج ، رینجرز اہلکار، ریسکیو حکام اور مقامی لوگ امدادی کارروائیوں کیلئے پہنچے، جائے حادثے کے اطراف کے علاقے سیل کر دئیے۔ بتایا گیا ہے بدقسمت پرواز لینڈنگ سے چند منٹ قبل تک بالکل درست تھی لینڈنگ کے وقت طیارے کے کیپٹن نے کنٹرول ٹاور کو اطلاع دی کہ طیارے کے لینڈنگ گیئر نہیں کھل رہے۔ جس پر طیارے کو ایک چکر لگانے کا کہا گیا تاکہ اس دوران لینڈنگ گیئر کا مسئلہ حل کیا جاسکے۔ تاہم طیارہ گر کر تباہ ہوگیا جس کے باعث طیارے میں آگ لگ گئی بدقسمت طیارے کے ساتھ ساتھ مکانات اور گاڑیوں میں بھی آگ لگ گئی۔
حادثے کا شکار پرواز عید کی مناسبت سے خصوصی طور پر چلائی گئی تھی۔ سول ایوی ایشن ذرائع کے مطابق طیارے کا 2 بج کر 37 منٹ پر ائیر کنٹرول ریڈار سے رابطہ منقطع ہوا اور بعد ازاں کپتان سجاد گل نے ائیر کنٹرول ٹاور کو طیارے کے لینڈنگ گیئر میں خرابی سے آگاہ کیا۔ طیارے میں کل 91 مسافر سوار تھے، مسافروں میں 51 مرد، 31 خواتین اور 9 بچے شامل تھے۔ محکمہ صحت سندھ نے بتایا 48 لاشیں جناح ہسپتال اور 32 لاشیں سول ہسپتال لائی گئی ہیں۔
جناح ہسپتال میں لائی گئی لاشوں میں سے 12 افراد کی شناخت ہوگئی جن میں محمد طاہر ولد مبین، فریحہ رسول دختر غلام رسول، فریال بیگم زوجہ اسعد اللہ، سیدہ صائمہ عمران زوجہ سید عمران حسن، کیپٹن فلائٹ سجاد، فرحان ولد عبدالکبیر، دلشاد احمد ولد مبین، سید محمد احمد ولد سید جمال احمد، ندا دختر عرفان اللہ ، عمار راشد ولد راشد محمود، شہناز پروین زوجہ امان اللہ اور شعیب رضا ولد شریف رضا شامل ہیں۔
ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل عمر احمد بخاری نے جائے حادثہ کا فضائی دورہ کیا اور ریسکیو آپریشن کی فضائی نگرانی کی۔ طیارہ حادثہ کے بعد جائے وقوع کے اطراف کے علاقے کو مکمل سیل کر دیا گیا، اس دوران وہاں لوگ اپنے پیاروں کی تلاش میں جانا چاہ رہے تھے جنہیں روک دیا گیا جبکہ میڈیا کے نمائندوں کو بھی ایک مخصوص مقام سے آگے نہیں جانے دیا گیا، اس دوران رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے اور وہاں موجود خواتین اور بچوں نے زارو قطار رونا شروع کر دیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کوئیک ایکسِس ریکارڈر امدادی کارکن کو ملا جسے سول ایوی ایشن حکام کے حوالے کر دیا گیا۔ کوئیک ایکسِس ریکارڈر میں ائیر ٹریفک کے علاوہ کاک پٹ کی گفتگو کا ریکارڈ ہوتا ہے۔ طیارے کو اڑانے والے دو پائلٹ اور عملے کے نام سامنے آگئے، بد قسمت طیارے کو کیپٹن سجاد گل اور فرسٹ آفیسر عثمان اعظم اڑا رہے تھے۔ عملے کے ارکان میں فرید احمد چودھری، عبدالقیوم اشرف، ملک عرفان رفیق، مدیحہ ارم، آمنہ عرفان اور اسما شہزادی شامل تھے۔
حادثے کا شکار طیارے کے پائلٹ اور معاون پائلٹ کا تعلق جنوبی پنجاب کے شہروں بہاولپور اور اوچ شریف سے تھا۔ پائلٹ سجاد گل بہاولپور کا رہائشی تھا جبکہ معان پائلٹ ملک عرفان رفیق گھلو کا تعلق اوچ شریف کے علاقے موضع اسماعیل سے تھا، معاون پائلٹ عرفان گھلو 2007 میں پی آئی اے میں بطور پائلٹ بھرتی ہوا، دونوں پائلٹ پی آئی اے میں نوکری حاصل کرنے کے بعد کراچی شفٹ ہوگئے تھے۔ عرفان رفیق گھلو شہید کے حادثہ کی اطلاع ملتے ہی والدہ پر غشی کے دورے، قریبی رشتہ دار اور اہل علاقہ سوگوار ہوگئے۔ تباہ ہونے والے بد قسمت طیارے میں سینئر صحافی انصار نقوی، پنجاب حکومت کے افسر خالد شیر دل اور معروف ماڈل زارا عابد بھی سوار تھیں۔
پی آئی اے نے ایمرجنسی رسپانس آپریشن شروع کر دیا۔ کراچی ائیرپورٹ پر طیارے میں سوار مسافروں کے اہلخانہ کو داخلے کی اجازت دے دی گئی جبکہ پی آئی اے کے ایمرجنسی رسپانس ڈیسک کی جانب سے متاثرہ خاندانوں سے تفصیلات لینے کا عمل جاری ہے۔ طیارے کی تباہی کے بعد علامہ اقبال ائیر پورٹ لاہور پر ایمرجنسی نافذ کرنے کے علاوہ کراچی جانے والی پروازیں منسوخ کر دی گئیں۔ طیارے میں سوار مسافروں کے عزیز و اقارب پی آئی اے دفاتر میں رابطے کر کے اپنے پیاروں کے حوالے سے معلومات حاصل کرتے رہے۔ بعض مسافروں کے عزیز و اقارب دھاڑیں مارکر روتے اور اپنے پیاروں کی سلامتی کی دعائیں کرتے رہے۔
طیارہ حادثہ کی تحقیقات کے لئے حکومت پاکستان نے تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی۔ چار رکنی تحقیقاتی ٹیم کی سربراہی ائیرکموڈور عثمان غنی کریں گے، ائیر کموڈور عثمان غنی سیفٹی انویسٹی گیشن بورڈ کے سربراہ ہیں۔ ونگ کمانڈر ملک محمد عمران، گروپ کیپٹن توقیر اور جوائنٹ ڈائریکٹر اے ٹی سی ناصر مجید ٹیم میں شامل کئے گئے ہیں۔ کمیٹی نے تمام ریکارڈ حاصل کرلیا، کمیٹی فوری طور پر حکومت کو ابتدائی رپورٹ پیش کرے گی۔ حادثے کی جامع رپورٹ ایک ماہ کے اندر مکمل کر کے دی جائے گی۔ کیبنٹ سیکرٹریٹ ایوی ایشن ڈویژن نے نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔