اسٹیبلشمنٹ کا کردار فیصلہ کن بنانے کے ذمہ دار سیاستدان

Last Updated On 06 July,2020 09:00 am

لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) دنیا بھر میں جمہوریت اور جمہوری تجربہ اس لئے کامیابیوں سے ہمکنار ہوتا گیا کہ وہاں کی جمہوری حکومتیں جوابدہی کے خوف سے اپنے عوام کو ڈیلیور کرتی نظر آتی ہیں اور ان کی تمام تر پالیسیوں کا محور عام آدمی، اس کی حالت زار اور اس کی زندگیوں میں اطمینان ہوتا ہے اور حقیقی معنوں میں وہاں عوام کی طاقت کو عوام کی فلاح و بہبود اور ملک میں استحکام کیلئے بروئے کار لایا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہاں گڈ گورننس کے ساتھ ساتھ اقتصادی، سیاسی و انتظامی استحکام نظر آتا ہے، وہاں کی جمہوریت میں اپوزیشن حکومت کو غیر مستحکم کرنے اور اسے ہر ایشو پر ٹارگٹ بنانے کی بجائے اسکی کارکردگی کو جواز بنا کر مسائل کی نشاندہی کے ساتھ اپنی تجاویز و سفارشات پیش کرتی ہے اور پھر انتخابات کے مرحلہ پر وہاں انتخابی مہم میں شخصیات محور بننے کی بجائے ایشوز پر پالیسیوں کو دیکھ کر ووٹ کا استعمال ہوتا ہے لیکن جمہوری جدوجہد کے نتیجہ میں وجود میں آنے والے پاکستان میں جمہوری تجربہ کیونکر کارگر نہیں ہو پاتا۔

خود کو جمہوری کہلانے والے سیاستدان جمہوری و سیاسی طرز عمل کیونکر اختیار نہیں کرتے۔ حکومتی طاقت کے نتیجہ میں خاندان اور اشرافیہ تو پھلتے پھولتے ہیں مگر عوام مسائل کی آگ میں جلتے نظر آتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے ؟ اور بنیادی سوال یہی ہے کہ پاکستان میں حکومت اور ادارے عوامی فلاح کیلئے ایک پیج پر کیوں نہیں ؟ ہمارا بڑا المیہ بھی یہ ہے کہ یہاں دائروں کا سفر کب ختم ہوگا۔ مذکورہ صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو اس کی بڑی وجہ ہمارے ہاں سیاسی لیڈر شپ کی اہلیت اور سیاسی جماعتوں کا جمہوری نہ ہونا ہے اور یہاں جماعتوں کو ذاتی اور خاندانی جاگیر کے طور پر چلانے کا فائدہ خود لیڈر شپ کو تو ہوتا ہے مگر یہ جماعتیں عوام میں پذیرائی نہیں پاسکتیں جس کی وجہ سے جو بھی جماعت حکومت میں آئی بظاہر تو وہ عوام کی تائید و حمایت کے دعوے کرتی نظر آتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کا اقتدار میں آنا کسی سیاسی بندوبست کا نتیجہ ہوتا ہے لہٰذا پہلے روز سے ہی اپوزیشن اس کی ساکھ پر دھاندلی کے الزامات لگاتی ہوئی میدان میں آ نکلتی ہے اور پھر سیاسی قوتیں اپنی ساری تگ و دو عوام کے اعتماد پر پورا اترنے کیلئے بروئے کار لانے اور متبادل پروگرام پیش کرنے کی بجائے حکومت کو گرانے پر لگا دیتی ہیں اور اس کیلئے وہ جائز، ناجائز سے بھی گریز نہیں کرتیں جس کے نتیجہ میں ملک میں سیاست اور جمہوریت کمزور سے کمزور تر ہوتی جاتی ہے۔

یہی بنیادی المیہ پاکستان کو آگے لیجانے میں بڑی رکاوٹ ثابت ہوتا ہے یہ سلسلہ آج سے نہیں، نوے کی دہائی سے شروع ہے اور آج تک جاری ہے ۔ جہاں تک اسٹیبلشمنٹ کے کردار کا تعلق ہے تو جمہوری ریاستوں میں اس کا اپنا ایک کردار رہا ہے جو ریاست کے مفادات کو یقینی بنانے کا ہوتا ہے اور وہ اس کیلئے سرگرم رہتی ہے مگر پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو فیصلہ کن سطح پر لانے کے ذمہ دار سیاستدان ہیں جو اپنی سیاسی طاقت کو جمہور کیلئے بروئے کار لانے کی بجائے اپنے سیاسی و ذاتی مفادات کیلئے استعمال کرتے ہیں، وہ سیاسی لحاظ سے جتنا کمزور ہوتے جاتے ہیں اتنا ہی ان کا انحصار اسٹیبلشمنٹ پر ہو جاتا ہے اور پھر جب حالات بند گلی پر پہنچتے ہیں اور سیاسی قوتیں ڈائیلاگ کی بجائے ڈیڈ لاک سے دو چار ہوتی ہیں تو پھر فیصلے کا اختیار انکے پاس چلا جاتا ہے لہٰذا یہ نتیجہ تو آج نوشتہ دیوار ہے کہ جمہوریت کی اصل طاقت کو جمہوری فلاح و بہبود کیلئے بروئے کار نہ لانے کے ذمہ دار سیاستدان ہیں۔ آج جب ملکی معیشت، گورننس کے معاملات اور احتساب کے عمل پر توجہ ڈالی جاتی ہے تو اس میں اس نہج پر آنے میں بڑا کردار سیاستدانوں اور حکمرانوں کا ہی ہے لیکن وہ اپنی غلطیوں سے سیکھنے کو تیار نہیں۔

وقت آ گیا ہے کہ حکمرانوں اور سیاستدانوں کو اپنے اپنے طرز عمل کا جائزہ لینا پڑے گا۔ حکمرانوں کو سوچنا ہوگا کہ ان کے آنے سے ملکی معیشت بحال ہوئی، گورننس کا عمل یقینی بنا، عوام کیلئے ریلیف کا بندوبست ہوا، نوجوانوں کیلئے روزگار کے مواقع فراہم ہوئے ؟ انصاف کی فراہمی کا عمل یقینی بنا ؟ اور اقتصادی و سیاسی استحکام کیلئے ان کی کاوشیں کیا ہیں ؟ دوسری جانب اپوزیشن کو بھی دیکھنا ہوگا کہ ان کا طرز عمل کیا واقعتاً عوام کے احساسات و جذبات کی ترجمانی ، متبادل حکومت کے طور پر اپنے کردار اور حکومت کی پالیسیوں میں بہتری کیلئے تجاویز فراہم کرنے کا ہے یا وہ اس نتیجہ پر پہنچ چکے ہیں کہ اس حکومت کو ہٹانا اور گرانا ہے خواہ اس کے نتیجہ میں سسٹم کیلئے ہی خطرات پیدا ہو جائیں اور وہ یہ بھی مت بھولیں کہ ایسا نہ ہو کہ ایک دوسرے کو گرانیکا عمل خود مائنس ون کی بجائے مائنس آل کا باعث ہو، یہ قوم و ملک کی بد قسمتی ہوگی اور اس کے ذمہ دار سیاستدان ہی قرار پائیں گے۔