لاہور: (خصوصی ایڈیشن) بھارت نے جب کشمیریوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپا تو ہندتوا نظریے سے لتھڑی ذہنیت نے سب سے پہلے کشمیری معیشت کو ہدف بنایا تا کہ کشمیریوں کو فاقوں پر مجبور کرکے ان کی قوت مزاحمت کو ختم کیا جا سکے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر بھارتی جارحیت کا سات دہائیوں سے مقابلہ کرنے کے باوجود اپنی معیشت کو خود سنبھال رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں میوہ جات کی کاشت،دستکاری و قالین بانی کی صنعت ،فروٹ انڈسٹری ، سیاحت اور سیاحت سے وابستہ ہوٹل اور ٹرانسپورٹ کی صنعت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سے منسلک صنعتیں کشمیری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان صنعتوں نے ہمیشہ کشمیریوں کیلئے بھارت کے خلاف جدوجہد میں اہم کردار ادا کیا۔
اگست 2019 سے جاری بھارتی فوجی محاصرے کے باعث مقبوضہ جموں و کشمیر کی معیشت مکمل طور پر جمود کا شکار ہوگئی ہے۔ کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے مطابق کشمیر میں بھارتی فوجی محاصرے کے صرف چار ماہ کے اندر کشمیری انڈسٹریز کو 396ارب روپے (تقریبا 2.4 بلین امریکی ڈالر) کا نقصان اٹھانا پڑا ، جبکہ اس دوران وادی میں4 لاکھ 99 ہزار کشمیری بے روزگار بھی ہوئے۔کشمیری قوم کو جنوری سے جولائی 2020 کے دوران مزید 479ارب روپے (تقریبا 2.9 بلین امریکی ڈالر) کانقصان برداشت کرنا پڑا۔یوں اگست 2019 سے جون 2020 کی درمیان کشمیر چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے اندازے کے مطابق بھارت کے غیرقانونی زیر قبضہ مقبوضہ کشمیر کو تقریباً 875ارب روپے (5.3 بلین امریکی ڈالر) کا نقصان ہوا۔سب سے زیادہ متاثرہ شعبے زراعت اور باغبانی ، تعمیرات ، دستکاری ،مینوفیکچر ، رئیل اسٹیٹ ، ٹرانسپورٹ ، سیاحت ، آئی ٹی اور چھوٹے کاروبار ، بشمول اسٹارٹ اپس ،اور مالی خدمات ہیں۔ جن میں سے زیادہ ترنے آمدنی میں 50 فیصد سے زائد کی کمی دیکھی ہے۔ انڈسٹریز اور ورکرز کرفیو کے باعث ہونے والے معاشی نقصان سے تاہم نکلنے سے قاصر ہیں۔کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے مطابق اگر یہ صورتحال اکتوبر تک جاری رہی تو اس کے بہت سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔
فروٹ انڈسٹری
بھارت کی جانب سے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دیے جانے کے بعد وہاں کی فروٹ انڈسٹرخصوصاً سیب کی پیداوار اور ترسیل شدید متاثر ہوئی جس سے تقریباً 30 لاکھ سے زائد لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔مقبوضہ کشمیر میں سیب کا تجارتی حجم 2 ارب ڈالر ہے جو وہاں کی معیشت کا 10 فیصد بنتا ہے۔ فوجی محاصرے کے باعث نقل و حمل کی محدود سہولیات کی وجہ سے تقریباً 1 لاکھ 35 ہزار میٹرک ٹن سیب ضائع ہوا۔ کشمیری عوام کے اپنے گھروں میں محصور ہونے کی وجہ سے آدھی سے زائد فصل تو درختوں سے اتار ی ہی نہ جا سکی۔ ہندوستان کی نیشنل زرعی کوآپریٹو مارکیٹنگ فیڈریشن (NAFED) صرف 155کروڑ روپے مالیت کے سیب خریدنے میں کامیاب رہی، جبکہ مقبوضہ کشمیر میں سیب کی سالانہ آمدنی 31 ہزار کروڑ روپے ہے۔
سیاحت
گزشتہ سال اگست کے آغاز میں بھارتی قابض سرکار نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کااعلان کرکے کرفیو نافذ کیا تو اس وقت سیاحتی سیزن عروج پر تھا۔ تمام ہوٹل بک ہو چکے تھے مگر بھارتی حکومت نے سیاحوں کو کشمیر چھوڑنے پر مجبور کیا اور یوں سیاحت کا شعبہ بحران سے دو چار ہو گیا اور ہزاروں محنت کش بے روزگار ہو گئے۔سیاحت کی صنعت مقبوضہ کشمیر کے جی ڈی پی میں 8 فیصد حصہ رکھتی ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق2019 کے آخر میں وادی میں سیاحوں کی تعداد میں 71 فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔ جموں کشمیر ٹورزم ڈیپارٹمنٹ کے مطابق سال 2018 میں اگست اور دسمبر کے درمیان 3لاکھ16ہزار سے زائد سیاحوں نے کشمیر وادی کا رخ کیا، البتہ اگست 2019 کے غیر قانونی فوجی محاصرے کے بعد سے یہ تعداد 43ہزارپر آ گئی ہے۔مقبوضہ کشمیر میں سیاحت کیلئے آنے والے افراد میں بیشتر افراد وہ ہیں جن کو بھارتی حکومت کی جانب سے مشروط اجازت دی جاتی ہے۔ مسلسل کرفیو اور معاشی جمود کے باعث 74ہزار500 افراد سیاحت کے شعبے سے بیروزگار ہوئے ہیں۔سیاحتی شعبہ کی تباہ حالی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارتی حکومت نے امرناتھ یاترا بحال کرنے کی منصوبہ بندی کی، جس میں صرف 7ہزار500 یاتریوں کو شامل کیا جائے گا۔ عام طور پر اس یاترا میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگ شامل ہوتے ہیں۔وادی میں اس وقت تقریباً 3000 ہوٹل ہیں اور سبھی خالی پڑے ہیں۔کشمیر کی محکمہ سیاحت کے مطابق رواں سال کے پہلے چار ماہ میں صرف 17ہزار682 سیاح مقبوضہ کشمیر آئے ہیں۔ وادی کا تقریباً تیس فیصد حصہ سیاحت کے شعبے پر بلواسطہ یا بلاواسطہ منحصر ہے۔ ان میں ہوٹل مالکان،ڈل جھیل میں ہاؤس بوٹ مالکان،شکارا والے،گھوڑے اور ٹیکسی والے شامل ہیں۔ساتھ ہی انٹرنیٹ سروس معطل ہونے کے باعث تقریباً 5ہزار ٹریول ایجنٹ بیکار بیٹھے ہیں۔ سری نگر کی مشہور ڈل جھیل میں تقریباً ایک ہزار شکارے بھی خالی پڑے ہیں۔
ٹرنسپورٹ کی بندش
کشمیر میں غیرقانونی قابض فوجی محاصرے اور کرفیو کے باعث ٹرانسپورٹ سروس کو شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اگست 2019 سے اب تک کشمیر میں ٹرانسپورٹ پر مکمل پابندی ہے، جس کے باعث زراعت کی تیار فصل کی نقل و حرکت نہ ہونے کی وجہ سے ضائع ہو گئی۔ ٹرانسپورٹ سیکٹر سے منسلک افراد یا تو ٹیکسی اور بسیں چلاتے ہیں یا پھر سامان کی ترسیل کرتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کی گاڑیاں قرض پر ہیں۔ نقل و حمل پر پابندی کے باعث وادی میں ادویات، خوراک اور دیگر اشیائے ضرورت کی شدید قلت ہے اور آبادی کا ایک بڑا حصہ متاثر ہوا ہے۔
بے روزگاری میں اضافہ
جولائی 2020 میں سنٹر فور مونیٹرنگ انڈین اکانومی (CMIE) کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں بے روزگاری کی شرح 17.9 فیصد تھی۔اس وقت تقریباً ایک چوتھائی تعلیم یافتہ کشمیری نوجوان بے روزگار ہیں۔ فاشسٹ مودی سرکار کے جابرانہ اقدام کے باعث مقبوضہ کشمیر کی بیروز گاری میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ رواں سال کے آغاز تک جنرل ٹریڈ میں 1لاکھ 20 ہزار ،سیاحت میں 74ہزار500،انڈسٹریل سیکٹر میں 70ہزار،سروسز سیکٹر میں 66ہزار، ٹرانسپورٹ میں 60ہزار،کنسٹرکشن میں 20ہزار لوگ بے روزگار ہوئے۔کشمیر چیمبر آف کامرس کے مطابق مجموعی طور پر 4 لاکھ 99 ہزار لوگ بے روزگار ہوئے ہیں۔ کشمیر وادی میں اس وقت تقریباً پانچ لاکھ افراد سرکاری ملازمت کرتے ہیں۔ مارچ 2020 میں بھارت کی طرف سے جاری کردہ متنازعہ’’جموں اینڈ کشمیر گرانٹ آف ڈومیسائل سرٹیفیکٹ (پروسیجر) رولز 2020‘‘ جس کے تحت کوئی بھی شخص، جس نے مقبوضہ کشمیر میں 15 سال گزارے ہوں یا بھر 7 سال تک تعلیم حاصل کی ہو ،وہ ڈومیسائل کے اہل ہوں گے۔ جس کے ذریعے وہ سرکاری نوکری جوکہ زراعت کے بعدسب سے زیادہ اہم شعبہ سمجھا جاتا ہے ، کیلئے درخواست دے سکیں گے۔اس سے قبل مقبوضہ کشمیر میں 1952 کے شہریت کا قانون لاگو تھا جس کے تحت سرکاری ملازمتیں صرف مقبوضہ کشمیر کے مستقل رہائشیوں کیلئے مخصوص تھیں۔
آئی ٹی اور ای کامرس پر منحصر صنعتیں
جبری لاک ڈاؤن کے دوران انٹرنیٹ سروس کی بندش نے بھی کشمیر میں ہونے والے معاشی نقصانات میں اپنا حصہ ڈا لا ہے۔ وہ تمام کاروبار جن کا دارومدار صرف انٹرنیٹ پر تھا،انٹرنیٹ سروس کی بندش کے باعث مفلوج ہو کر رہ گئے۔ بھارتی حکومت کی جانب سے عالمی دباؤ کے باعث 2جی (2G) سروس کی فراہمی کی گئی۔ البتہ، 2جی سروس کی سست رفتاری کے باعث بیشتر کاروباری افراد اپنے گاہکوں سے رابطہ کرنے سے قاصر رہے۔زیادہ تر آئی ٹی سیکٹر سے منسلک افراد کے کلائنٹ بیرون ملک ہوتے ہیں۔ انٹرنیٹ سروس کی منسوخی کے باعث سافٹ ویئر ہاؤسز نے کثیر تعداد میں اپنے دفاتر وادی کشمیر سے ختم کر دیئے ہیں۔
دستکاری اور قالین کی صنعت
کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے مطابق رواں سال کے آغاز تک دستکاری اور قالین کی صنعت سے منسلک تقریباً70ہزار لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔کشمیر چیمبر آف انڈسٹری کا کہنا ہے کہ صرف قالین کی صنعت میں 50ہزار سے زیادہ نوکریاں ختم ہو چکی ہیں۔ عام طور پر قالین کے بیشتر آرڈربیرون ملک سے جولائی سے ستمبر کے دوران آتے ہیں، تاکہ وہ کرسمس تک قالین بنا کر آرڈر مکمل کر سکیں۔ تاہم بھارتی حکومت کی جانب سے نافذ کرفیو اور مواصلاتی رابطے منقطع ہونے کی وجہ سے اس مرتبہ قالین برآمد نہیں کیے جا سکے۔