لاہور: (دنیا نیوز) لاہور موٹر وے پر انسانیت سوز واقعہ، پولیس تیسرے روز بھی خاتون سے زیادتی کے ملزمان کو نہ پکڑ سکی۔ پولیس کی 20 ٹیمیں تحقیقات میں مصروف ہیں، 15 مشتبہ افراد کو گرفتار کرلیا گیا، ڈی این اے کیلئے نمونے فرانزک کیلئے بھجوا دیئے گئے، علاقے کی جیو فینسنگ مکمل کرلی گئی۔
پولیس کی جانب سے ملزمان کو تلاش کرنے کی سر توڑ کوششیں جاری ہیں۔ پولیس نے جائے وقوعہ کے اطراف میں موجود کارخانوں اور فیکٹری ملازمین کے کوائف اکھٹے کرنا شروع کر دیئے ہیں، کیمروں سے سی سی ٹی وی فوٹیج بھی حاصل کرلی گئی۔
موٹروے پر خاتون کے ساتھ زیادتی کے واقعہ کی تحقیقات میں روایتی اور جدید دونوں طریقہ تفتیش کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ کھوجیوں کی مدد سے جائے وقوعہ کے اطراف 5 کلو میٹر کا علاقہ چیک کر کے مشتبہ پوائنٹس مارک کر لئے گئے۔ کھوجیوں کی نشاندہی سمیت مختلف شواہد پر 7 مشتبہ افراد محمد کاشف، عابد لاہور، سلمان، عبدالرحمن، حیدر سلطان، ابوبکر، اصغر علی کو حراست میں لیا گیا، مشتبہ افراد کے ڈی این اے ٹیسٹ کروائے گئے ہیں جن کی رپورٹ کا انتظار ہے۔
آئی جی پنجاب کی تشکیل کردہ اعلیٰ سطحی سپیشل انویسٹی گیشن ٹیم تفتیش کے معاملات کے ہر پہلو کو باریک بینی سے دیکھ رہی ہے۔ ایف آئی آر میں نامزد ملزمان سے ملتے جلتے حلیہ جات کے حامل 15 مشتبہ افراد کی پروفائلنگ کی گئی ہے۔ تین مختلف مقامات سے جیو فینسنگ کیلئے موبائل کمپنیوں کے حاصل کردہ ڈیٹا کا تجزیہ کیا جا رہا ہے۔ لوکل کیمرہ جات سے مشتبہ افراد کو ویڈیو ریکارڈنگ حاصل کر کے شناخت کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔
ادھر پنجاب حکومت نے اعلیٰ سطح کمیٹی تشکیل دی جس کے سربراہ وزیر قانون راجہ بشارت ہوں گے۔ کمیٹی میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ مومن آغا، ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ، ڈی آئی جی انویسٹی گیشن پنجاب اور ڈی جی فرانزک سائنس ایجنسی شامل ہیں۔ کمیٹی تین روز میں تحقیقات کر کے رپورٹ وزیراعلی پنجاب کو پیش کرے گی۔
آئی جی پنجاب کا کہنا ہے درندہ صفت ملزمان کو جلد از جلد گرفتار کر کے قانون کے کٹہرے میں پیش کیا جائے گا، متاثرہ خاتون اور اس کے اہل خانہ کو انصاف کی فراہمی کیلئے پولیس ٹیمیں شب و روز متحرک ہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا ہے کہ موٹروے پر خاتون سے زیادتی کیس پر پیشرفت کا ذاتی طور پر جائزہ لے رہا ہوں، انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب کو ملزمان کو جلد قانون کی گرفت میں لانے کیلئے ہدایات دی ہیں، ملزمان کا سراغ لگانے کیلئے سائنٹفک اور جدید انداز سے تحقیقات آگے بڑھ رہی ہیں۔
عثمان بزدار کا کہنا تھا کہ ملزمان نے انتہائی گھناؤنے فعل کا ارتکاب کیا ہے، ایسے اندوہناک واقعہ کے ذمہ دار قانون کے مطابق عبرتناک سزا کے مستحق ہیں، خاتون کے ساتھ ظلم کرنے والوں کو سخت سزا بھگتنا ہوگی، متاثرہ خاتون کو انصاف کی فراہمی یقینی بنائیں گے، اس کیس میں ہر صورت انصاف ہوگا۔
وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب اور داخلہ شہزاد اکبر نے لاہور میں موٹروے پر بچوں کے سامنے خاتون کیساتھ ہونیوالی زیادتی کے واقعے کو انتظامیہ کی نااہلی قرار دے دیا۔ انہوں نے کہا کہ ذمہ داروں کو کسی صورت معاف نہیں کیا جا سکتا۔
خاتون سے اجتماعی زیادتی کے واقعہ پر سی سی پی او لاہور کا بیان ٹویٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔ شہریوں نے سوشل میڈیا پر عمر شیخ کو ہٹانے کی مہم چلا دی۔ ایک خاتون نے لکھا سی سی پی او سے جان چھڑائیں ورنہ ان کے ہوتے کسی خاتون کو انصاف نہیں مل سکتا۔
ایک صارف نے لکھا، ایسے ہوتے ہیں بیسٹ ؟ اس کا سی نہیں ایف گریڈ ہونا چاہیے تھا۔ کسی کا کہنا تھا اگر ایک پولیس افسر ایسے بیان دے سکتا ہے تو اندازہ کریں خواتین کے ساتھ پولیس سٹیشنز میں کیا سلوک ہوتا ہوگا۔
سی سی پی اوعمر شیخ نے بیان میں کہا تھا کہ خاتون رات کو اکیلی موٹر وے پر کیوں گئی، جی ٹی روڈ سے گھر چلی جاتی، اس طرف سے ہی جانا تھا تو کم از کم پٹرول ہی چیک کرلیتیں۔ انہوں نے جلد کیس حل کرنے کا دعویٰ کر دیا۔ لاہور کے پولیس چیف نے سوشل میڈیا پر اپنے بیان میں وضاحت بھی دی، عمر شیخ نے خاتون کے بعد معاشرے کو واقعے کا ذمہ دار ٹھہرا دیا۔
خیال رہے زیادتی کا واقعہ گجرپورہ رنگ روڈ پر پیش آیا تھا۔ خاتون اپنے بچوں کے ہمراہ گاڑی پر لاہور سے گوجرانوالہ جا رہی تھی کہ راستے میں پٹرول ختم ہونے پر گاڑی رنگ روڈ پر رو ک لی۔ خاتون ثنا پریشانی میں گاڑی سے باہر نکلی اور مدد کیلئے فون کرنے میں مصروف تھی کہ 2 ڈاکو پہنچ گئے۔
ڈاکوؤں نے خاتون پر تشدد کیا اور پھر زبردستی قریبی کرول جنگل میں لے گئے اور بچوں کے سامنے خاتون کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا، ڈاکو ایک لاکھ روپے نقدی، طلائی زیورات و دیگر اشیا بھی لوٹ کر فرار ہوگئے۔ پولیس تھانہ گجرپورہ نے 2 نامعلوم ملزموں کیخلاف مقدمہ درج کر لیا۔