اسلام آباد: (اے پی پی) آزاد جموں وکشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ تنازع کشمیر پر بھارت اور پاکستان کے درمیان ایٹمی جنگ محض اندیشہ اور خدشہ نہیں بلکہ نظر آنے والی حقیقت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا نے آگے بڑھ کر یہ تنازع حل نہ کیا تو ناصرف جنوبی ایشیا بلکہ پوری دنیا کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی ظلم واستبداد اور دہلی کے حکمرانوں کے ذہن میں جنگی ضبط دونوں ملکوں کو ہر گزرتے لمحے کے ساتھ جنگ کے قریب لے جا رہا ہے۔
انسانی حقوق کے عالمی دن کے حوالے سے برطانیہ کی پارلیمنٹ کے رکن اور لیبرفرینڈز آف کشمیر اینڈریو گوائن کے ساتھ ویڈیولنک کے ذریعے ورچوئل انٹریکشن میں صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور لائن آف کنٹرول پر بڑھتی ہوئی بھارتی جارحیت سے خطہ میں صورتحال تیزی سے بگڑ رہی ہے جس کا خطہ اور پوری دنیا کے امن و سلامتی پر گہرے منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔
انہوں نے برطانیہ سے اپیل کی کہ وہ سلامتی کونسل کے ایک اہم رکن کی حیثیت سے آگے بڑھے اور مسئلہ کشمیر کے پر امن سیاسی و سفاتی حل کی راہ ہموار کرے۔ صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ سلامتی کونسل پر دنیا میں امن و سلامتی قائم رکھنے کی ذمہ داری ہے اور اسے یہ اختیار ہے کہ وہ بھارت کی مخالفت کے باوجود مداخلت کر کے تنازع کشمیر کو حل کرنے کے لئے ریفرنڈم سمیت کوئی بھی قدم اٹھا سکتی ہے۔
بھارتی پارلیمنٹ میں قائم کل جماعتی پارلیمانی کشمیر گروپ کے بعد اب لیبر فرینڈز آف کشمیر اور کنزرویٹیو فرینڈز آف کشمیر کے قیام کو نہایت خوش آئند قرار دیتے ہوئے صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ برطانوی پارلیمنٹ میں ہمارے دوستوں اور کشمیریوں کے جائز اور منصفانہ حق خود ارادیت کی حمایت کرنے والے اراکین پارلیمنٹ کے ہم نہایت شکر گزار ہیں جنہوں نے تنازع کشمیر کے حوالے سے برطانیہ اور یورپ میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے نئے دروازے کھولے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حل میں سلامتی کونسل کی اس لیے بھی بنیادی ذمہ داری ہے کہ کشمیر کے دونوں حصوں میں اقوام متحدہ کے امن فوجی دستے پہلے ہی تعینات ہیں۔
تنازع کشمیر کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ 1947ء میں تقسیم ہند کے منصوبے کے مطابق مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر کے عوام نے جب پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی تو بھارت نے ریاست پر فوجی قبضہ جما لیا اور اس مسئلے کے حتمی حل کے لیے وہ خود اسے اقوام متحدہ میں لے گیا جہاں 1948ء سے 1957ء تک سلامتی کونسل نے اس مسئلہ کے حل کے لیے نصف درجن سے زیادہ قرار دادیں منظور کر کے رائے شماری کے ذریعے اس تنازع کو حل کرنے کی تجویز دی جو پاکستان نے قبول کر لی اور بھارت آج بھی اس کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور جموں وکشمیر کے عوام پر امن سیاسی و سفاتی ذرائع سے تنازع کشمیر کا حل چاہتے ہیں جبکہ بھارت فوجی طاقت سے اس مسئلہ کو حل کرنا چاہتا ہے جو دونوں ملکوں کو ایک بار پھر جنگ کی طرف لے جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل دنیا میں امن وسلامتی کو لاحق بڑے خطرات سے نظریں موندھ کر بنیادی اور ثانوی مسائل کے حل کرنے میں مصروف نظر آتی ہے اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بد ترین پامالیوں پر اس کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی نظر آتی۔ ایسا لگتا ہے دوسری جنگ عظیم کے بعد جو عالمی نظام وجود میں آیا تھا جس میں عالمی امن و سلامتی اور دنیا بھر کے انسانوں کے حقوق کی ضمانت فراہم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کا ادارہ وجود میں آیا تھا لیکن کشمیر کے معاملہ میں ہمیں اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کا دھرا معیار واضح نظر آتا ہے۔