اسلام آباد: (دنیا نیوز) پاناما کیس کے بعد براڈ شیٹ معاملے نے پاکستانی سیاست میں ایک بار پھر ہلچل مچائی ہوئی ہے۔ غیر ملکی فرم کو اربوں روپے کیساتھ جرمانے کی بھی ادائیگی کی گئی لیکن حاصل کچھ نہیں ہوا، الٹا سابق اور موجودہ حکومت دونوں کٹہرے میں کھڑی ہو گئی ہیں۔
سال 2000ء پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کا راج تھا۔ نیب اور برطانوی اثاثہ جات ریکوری فرم براڈ شیٹ کے درمیان سابق وزائے اعظم نواز شریف، بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف زرداری سمیت 200 پاکستانیوں کے غیر ملکی اثاثوں کی چھان بین کے لیے معاہدہ ہوا۔
معاہدے میں طے پایا کہ بیرون ملک سے برآمد ہونے والی رقم کا 20 فیصد حصہ براڈ شیٹ کو دیا جائے گا۔ تاہم 2003ء میں حکومت پاکستان کی طرف سے معاہدہ ختم کر دیا گیا۔ یکطرفہ معاہدہ ختم کرنے پر براڈ شیٹ نے لندن کی عدالت میں پاکستان کے خلاف ہرجانے کا دعوی دائر کر دیا۔
حکومت پاکستان اور نیب اس معاہدے کی بدولت کسی بھی سیاستدان کے غیر ملکی اثاثے تو حاصل نہ کر سکے، مگر براڈ شیٹ 2017ء میں مقدمہ جیت گئی۔
برطانوی عدالت نے حکومت پاکستان کو حکم دیا کہ براڈ شیٹ کو ساڑھے 4 ارب روپے سے زائد کا جرمانہ ادا کیا جائے۔ حکومت پاکستان نے فیصلے کے خلاف اپیل کی جسے 2019ء میں مسترد کرتے ہوئے فیصلہ برقرار رکھا گیا۔
فیصلے کی روشنی میں دسمبر 2020ء میں آف شور فرم براڈ شیٹ کو لندن ہائی کمیشن پاکستان کے اکاؤنٹ سے ساڑھے 4 ارب روپے سے زائد جرمانے کی ادائیگی کی گئی۔
اس رقم کے علاوہ کروڑوں روپے غیر ملکی وکلا کو فیس کی مد میں بھی ادا کیے گئے۔ یہ خبر سامنے آتے ہی ایک بونچھال آگیا اور اپوزیشن نے حکومت کو نشانے پر رکھ لیا۔
اس کہانی میں نیا موڑ اس وقت آیا جب براڈ شیٹ کے سربراہ کاوے مساوی نے اپنے ایک میڈیا انٹرویو میں یہ انکشاف کیا کہ نیب تحقیقات کے دوران سابق وزیراعظم نواز شریف کے نمائندے نے انہیں رشوت کی پیشکش کی جبکہ تحریک انصاف حکومت کے مشیر داخلہ اور احتساب شہزاد اکبر پر بھی بڑا الزام عائد کر دیا۔
براڈ شیٹ کے سی ای او نے کہا کہ شہزاد اکبر کے ساتھ آنے والے شخص نے بھی ان سے کہا کہ اگر حکومت پاکستان اس معاہدے کو برقرار رکھتی ہے تو براڈ شیٹ اپنے 20 فیصد حصے میں سے انہیں کیا دے گی؟
براڈ شیٹ کیساتھ متنازعہ معاہدے، قومی خزانے کو نقصان پہنچنے اور پھر سیاسی الزامات کے بعد حکومت نے انکوائری کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا۔
کمیٹی کا سربراہ سپریم کورٹ کے سابق جج، جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید کو بنایا گیا ہے۔ تاہم اپوزیشن نے ان کی تقرری کو مسترد کر دیا ہے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ شیخ عظمت سعید 2003ء میں نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل رہے، لہذا معاہدے کے بارے میں ان سے پوچھا جانا چاہیے نہ کہ انہیں کمیٹی کا سر براہ بنایا جائے۔۔۔
براڈ شیٹ کے ساتھ ہونے والے معاہدے سے اب تک حاصل تو کچھ نہ ہوا، البتہ قومی خزانے سے اربوں روپے کی ادائیگی کیساتھ سیاسی شخصیات اور ملک کی جگ ہنسائی ضرور ہوئی۔