اسلام آباد: (دنیا نیوز) مقبوضہ کشمیر میں مسلم آبادی کا تناسب بدلنے کے بھارتی ہتھکنڈے، مودی سرکار نے آبادی تناسب بدلنے کے لیے مردم شماری ملتوی کر دی۔
بی جے پی کی سرکار نے ہندوتوا نظریہ کے تحت مقبوضہ کشمیر میں آبادی تناسب اپنے حق میں کرنے کے لیے اس سال ہونے والی مردم شماری 2026 تک ملتوی کروا دی۔ دس سال قبل 2011 کی مردم شماری کے مطابق آبادی کا 68 فیصد حصہ مسلمانوں کا تھا جبکہ 28 فیصد ہندوؤں اور 4 فیصد سِکھ اور بُدھ مت کے پیرو کار تھے۔ 5 اگست 2019 کے بعد صرف ایک سال میں کشمیری معیشت کو 5.3 بلین ڈالر کا نقصان پہنچا۔
نئے ڈومیسائل قانون کے تحت ساڑھے 18 لاکھ سے زائد لوگوں کو کشمیر کا ڈومیسائل دے دیا گیا۔ ان میں گورکھا کمیونٹی کے 6600 ریٹائرڈ فوجیوں بھی شامل ہیں، 10 ہزار سے زائد مزدوروں کو بِہار سے کشمیر میں بسایا جائے گا جبکہ چار، پانچ لاکھ کشمیری پنڈتوں کیلئے اسرائیل کی طرز پر الگ کالونیاں بنائی جا رہی ہیں۔
کنٹرول آف بلڈنگ آپریشن ایکٹ 1988ء اور جموں و کشمیر ڈویلپمنٹ ایکٹ 1970 تبدیل کر دیا گیا۔ اقدام کا مقصد افواج اور کنٹونمنٹ بورڈ ز کو تعمیرات کی کُھلی ڈھیل دینا ہے۔ مودی سرکار نے 20 ہزار کنال زمین ہندو سرمایہ داروں، 2 لاکھ ایکڑ سے زائد اراضی بیرونی سرمایہ کاروں جبکہ سیکیورٹی فورسز کیلئے خصوصی سرٹیفیکیٹ شرط ختم کر کے بارہمولا میں فوجی کیمپ کے لیے 129 کنال اراضی دے دی۔
بھارتی افواج پہلے ہی کشمیر میں 53 ہزار 353 ہیکٹرز اراضی پر قابض ہیں۔ حلقہ بندیوں کی توڑ پھوڑ بھی شروع کر دی گئی۔ منصوبے کے تحت قانون ساز اسمبلی کی 7 سیٹیں بڑھائی جائیں گی۔ یہ سیٹیں کشمیر کی بجائے جموں کو دی جائیں گی، حالانکہ کشمیر کی آبادی زیادہ ہے، نئی حلقہ بندی کے بعد انتخابی ڈھونگ سے سادہ اکثریت حاصل کی جائے گی۔ رمبان، کشتوار، ڈوڈا، سوفیان، انتناگ اور کُلگم کے اضلاع شامل نیا ڈویژن بنایا جا رہا ہے۔