لاہور: (سپیشل فیچر) حضرت عقبہ ابن نافعؓ کی فتوحات افریقہ سے یورپ تک پھیل گئیں، جب حضرت عقبہ ابن نافعؓ نے افریقی ممالک میں فتوحات کیں تو ان کی شہادت کے بعد سب کچھ پرانی ڈگر پر آگیا۔ اندلس میں بھی یہی کچھ ہوا جہاں حضرت عقبہ بن نافعؓ کی شہادت کے بعد فتوحات کا اثر ختم ہو گیا۔
آپؓ کی شہادت کے بعد جانشینوں کو اپنے اقتدار کی کشمکش سے ہی فرصت نہ ملی، دوسرے ممالک کی جانب کیا دیکھتے۔ ان کے نزدیک یہی بات اہم تھی کہ افریقہ میں ہی اقتدار ورسوخ برقرار رہ جائے کیونکہ کچھ افریقی ممالک ان کے طرز زندگی کو دل سے اپنا چکے تھے۔
دوسری جانب بربری ہمہ وقت کسی طوفان کی طرح مسائل در مسائل پیدا کرتے رہے، ان کے حملے رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ حسان ابن نعمان جب افریقہ کے گورنر (والی) مقرر ہو کر پہنچے تو ان دنوں وہاں ایک عورت مذہب کے سہارے ان سب پر حاکم تھی۔
یہ عورت مسلمانوں سے بار بار ٹکرانے کے لئے افواج کو منظم کرتی رہی۔ مسلمانوں کا وقت دفاعی حکمت عملی میں بھی صرف ہونے لگا۔ مسلمانوں کو اس جنگ میں شکست ہوئی۔
حسان ابن نعمان علاقے سے پوری طرح واقف نہ تھے۔ جنگی حکمت عملی کی کمزوری اور بربریوں کی کھلم کھلا مخالفت نے آپ کی فوجوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ انہیں خلیفہ وقت عبدالمالک سے کمک طلب کرنا پڑی۔ مدد کے آتے ہی مسلمانوں نے اس عورت کی سلطنت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، پورے خطے پر چھا گئے، تب عورت کا جنگی جنون خاک میں مل گیا۔
مسلمانوں نے اس ظالم عورت سے خطے کو نجات دلا دی اور بربریوں کو بھی ان کے جبر کی سزا دی۔ اس جنگ میں عورت کے مارے جانے سے بربریوں کی قیادت بحران کا شکار ہو گئی۔
حسان بن نعمان نے جنگی حکمت عملی کو نئے سرے سے ترتیب دیتے ہوئے دیرپا حکومت کے قیام کے لئے بربریوں اور رومیوں کی طاقت کو منتشر کرنے کا حکم دیا۔
آپ کی افواج دیر تک جنگلات وغیرہ میں ڈھونڈتی، کئی علاقوں میں ان کا پیچھا کرتی رہی۔ عربی عسکریوں کو حکم تھا کہ رومی اور بربری افواج جہاں نظر آئیں انہیں منتشر کر دیا جائے اور اگر جنگ پر آمادہ ہوں تو شکست دیئے بغیر میدان خالی نہ کیا جائے۔ اس حکمت عملی سے مسلمانوں کو افریقہ میں قدم جمانے کا موقع مل گیا۔
82ء کا واقعہ ہے، افریقہ پر مسلمانوں کو طویل عرصے تک اقتدار قائم رکھنے کا موقع ملا۔ 82ء میں ہی عبدالعزیز بن مروان نے عامل (حاکم) مصر حسان کو معزول کر دیا۔
معزولی کی کوئی خاص وجہ نظر نہیں آئی۔ البتہ ان کی جگہ موسیٰ بن نصیر کو بھیجا گیا ۔وہ عبدالعزیز کے دست راست سمجھے جاتے تھے۔ موسیٰ بن نصیر نے بھی کوئی کمزوری دکھانے کی بجائے اچھے سے حکومت کی اور قدم جما لئے۔
اسلامی ریاست کو پوری طرح منظم کرنا شروع کیا۔ کمانڈر موسیٰ نے افریقہ میں 3 عسکری مہمات بھیج کر امن وامان قائم کر دیا۔ قبائل قابو میں آ گئے۔ افریقہ سے فارغ ہو کر مسلمانوں نے یورپ کی جانب نگاہ کی۔
حضرت عقبہ ابن نافعؓ نے یورپ کو فتح کرنے کے بعد کئی علاقے خالی کر دیئے تھے لیکن موسیٰ بن نصیر نے مستقل قیام کا بندو بست کیا۔ بربریوں کی بربریت ختم کرنے کے لئے تبلیغ پہلے سے ہی جاری تھی۔
انہوں نے بربریوں کو دینی تعلیم سے روشناس کرانے کے لئے ان پر 17 علمائے کرام مقرر فرمائے۔ ان کے دور میں ملکی انتظام اور تبلیغ اسلام پہلو بہ پہلو چلتے رہے۔ وہ دونوں میں سے کسی کام سے بھی غافل نہ ہوئے۔
اسی دوران طارق ابن زیاد کو والی طنجہ مقرر کر دیا گیا۔ طارقکی فتوحات کا سلسلہ 83 ھ سے 92 ھ تک جاری رہا۔ موسیٰ بن نصیر کا سبہ (یا سبا) کے قلعے سے تعلق قائم ہوا۔
یہ حقیقت میں مشرقی رومی سلطنت کے زیر قبضہ ایک علاقہ تھا، مگر اس کا نظم و نسق شہنشاہ سپین کے مقرر کردہ گورنر جولین دیکھ رہے تھے۔
سبہ کے گورنر جولین نے ملکی دستور کے مطابق اپنی بیٹی کو راڈرک شاہ سپین کے دربار میں تعلیم وتربیت کے لئے بھیج دیا تھا، مگر شاہی دربار میں اس کی بیٹی کے ساتھ ناروا سلوک پر گورنر جولین برہم ہوا اور شاہ سپین سے بدلہ لینے کی ٹھان لی۔
جولین بدلہ لینے کی تراکیب سوچتا رہا۔ یہ واقعہ نہاں رکھ کر اندلس کی حقیقی تاریخ کو مسخ کیا جا رہا ہے۔ کمانڈر موسیٰ سبہ تک تو پہنچ گئے تھے۔ موسیٰ بن نصیر نے آگے جانے سے پس وپیش کی لیکن گورنر سبہ جولین بادشاہ کو سزا دلوانے پر بضد تھے اور چاہتے تھے۔ یہ کام مسلمانوں کے ہاتھوں انجام پائے۔ ان کے زور دینے پر کمانڈر موسیٰ نے خلیفہ ولید سے اجازت طلب فرمائی جو مل گئی۔
خلیفہ ولید نے طارق ابن زیاد (گورنر طنجہ) کو 12 ہزار سپاہیوں کے ساتھ اندلس روانہ کیا۔ شہنشاہ سپین راڈرک ان دنوں بغاوت کو ٹھنڈا کرنے سپین کے شمال میں مقیم تھا۔ وہیں اسے حملے کی اطلاع ملی۔
متوقع حملے کی خبر ملتے ہی وہ بغاوت سے منہ موڑ کر جنوب کی جانب روانہ ہو جہاں سے طارق بن زیاد کا قافلہ آ رہا تھا۔ جنوب میں ہی اس نے تمام دیگر علاقوں سے افواج طلب کر لیں لیکن دوسری جانب طارق ابن زیاد تھے۔ اس 3 روزہ جنگ میں طارق ابن زیادکو دا ئمی فتح ملی۔ شہنشاہ راڈرک مارا گیا۔ مسلمان اس وسیع و عریض علاقے کے تن تنہا وارث بن گئے۔
92ھ میں قرطبہ، مالقہ، غرناطہ، مرسیہ اور طلیطلہ پر بھی اسلامی پرچم لہرا دیاگیا۔ موخر الذکر شہر کے شمال میں ان کو مائدہ سلیمان ملا تھا۔ طارق ابن زیاد کو موسیٰ بن نصیر نے حکم دیا کہ ان کی آمد تک فتوحات کا سلسلہ روک دیا جائے، یعنی پیش قدمی نہ کی جائے۔ لیکن طارق ابن زیاد آگے پیش قدمی کرتے رہے جس پر موسیٰ نصیر برہم ہوئے، لیکن آگے بڑھنے کا فیصہ تاریخی طور پر درست تھا اس سے مسلمانوں کو دفاع کے لئے گہرائی مل گئی تھی۔
موسیٰ بن نصیر بھی 94ء سے 95 ھ تک جنگوں میں مصروف رہے۔ مقامی قبائل سے الجھنا پڑا، راستے میں رکاوٹ بننے والی ہر فوج اور قبیلے کو پسپا کیا۔ کمانڈر موسیٰ نے دعویٰ کیا کہ ان کی فوج کو کبھی شکست نہیں ہوئی، مورخین نے بھی اس دعوے کو جھٹلانے سے گریز کیا ہے۔
یہ اعزاز کم ہی سپہ سالاروں کے نصیب میں لکھا تھا۔ چنانچہ ایک مورخ لکھتا ہے کہ کمانڈر موسیٰ فتوحات کی لہر میں بہتے ہوئے افریقیہ کے مستقر لوطون تک پہنچ گئے۔
مسلمانوں کی فتح سے قرقوشتہ، جبال، بنبلونہ، صخرہ اور جلیقیہ کے علاقے بچے تھے۔ اپنے مستقر سے دور ہٹنے کی وجہ سے افواج نے انہیں واپسی کا مشورہ دیا جو موسیٰ بن نصیر نے مان لیا۔ کمانڈر موسیٰ کی بڑی فتوحات میں قرمونہ، شبیلیہ، ماردہ اور لبلہ کے علاقے زیادہ اہم ہیں۔