اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے کے صدارتی ریفرنس میں جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے ہوئے کہا کہ کسی جماعت کو کم نشستیں ملیں تو ذمہ دار الیکشن کمیشن ہوگا، جس کی جتنی سیٹیں بنتی ہیں اتنی ملنی چاہئیں۔
سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے کے صدارتی ریفرنس کی سماعت ہوئی۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ عدالت میں پیش ہوئے۔ وکیل الیکشن کمیشن نے موقف اپنایا کہ ووٹوں کو خفیہ رکھنے کا مطلب ہے کہ ہمیشہ خفیہ ہی رہیں گے، کاسٹ کیے گئے ووٹ کبھی کسی کو دکھائے نہیں جاسکتے۔ جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ووٹ ہمیشہ کے لیے خفیہ نہیں رہ سکتا، قیامت تک ووٹ خفیہ رہنا آئین میں ہے نہ عدالتی فیصلوں میں۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ سینیٹ انتخابات آرٹیکل 226 کے تحت ہوتے ہیں، خفیہ ووٹنگ میں ووٹ کی تصاویر بنانا جرم ہے۔ جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا قومی اسمبلی انتخابات کیلئے فری ووٹ کی اصطلاح استعمال ہوئی، سینیٹ انتخابات کیلئے فری ووٹ کی اصطلاح کو شعوری طور پر ہٹایا گیا۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ کرپشن کے خاتمے کیلئے الیکشن کمیشن ڈالے گئے ووٹوں کا جائزہ لے سکتا ہے، کوئی جماعت تناسب سے زیادہ سیٹیں لے تو الیکشن کمیشن کیا کرے گا ؟ ووٹ فروخت کرنے سے متناسب نمائندگی کے اصول کی دھجیاں اڑیں گی، کوئی جماعت تناسب سے ہٹ کر سیٹیں جیت لے تو سسٹم تباہ ہو جائے گا۔