اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس میں جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سنگل ٹرانسفرایبل ووٹ ضروری نہیں کہ حکمران جماعت کے خلاف جائے، اتحادی جماعتوں کی اپنی طاقت ہوسکتی ہے، نظام جو بھی اپنایا جائے صوبائی اسمبلیوں میں موجود جماعتوں کی سینیٹ میں نمائندگی ہونی چاہیے۔
چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے صدارتی ریفرنس کی سماعت کی۔ پیپلزپارٹی کے وکیل رضا ربانی نے دلائل دئیے کہ حکومت نے ایسا تاثر دیا جیسے مقدمہ 184/3 کے دائرہ اختیار کا ہے، بل قومی اسمبلی سے پاس ہونے کے بعد سینیٹ مسترد بھی کرسکتا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ووٹ کی رازداری کے پیچھے کیا منطق تھی ؟ سنگل ٹرانسفرایبل ووٹ ضروری نہیں کہ حکمران جماعت کے خلاف جائے، اتحادی جماعتوں کی اپنی طاقت ہوسکتی ہے، نظام جو بھی اپنایا جائے سینیٹ میں صوبائی اسمبلیوں میں موجود جماعتوں کی نمائندگی ہونی چاہیے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اگر کسی جماعت کے صوبائی اسمبلی میں دو ممبر ہوں تو وہ حلیف جماعتوں سے اتحاد قائم کرسکتی ہے، متناسب نمائندگی سے متعلق آگاہ کریں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ متناسب نمائندگی کا لفظ آرٹیکل 59 اور 51 میں موجود ہے۔ رضا ربانی نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کی متناسب نمائندگی قانون سازوں کے ذہن میں تھی، اس نظام کے نیچے بھی تین مختلف نظام موجود ہیں، ہر آرٹیکل میں الگ نظام سے متعلق بتایا گیا ہے۔ رضا ربانی کے دلائل جاری تھے کہ عدالت نے سماعت پیر تک کیلئے ملتوی کر دی۔