چانکیہ کون تھا ؟ تضادات سے بھرپور فلسفی کی شہرت اب بھی قائم ہے

Published On 31 May,2021 09:17 pm

لاہور: (سپیشل فیچر) قدیم ہندوستان کا فلسفی، ماہر معاشیات، مدبر اور موریہ سلطنت کے قیام میں اہم ترین کردار ادا کرنے والا اچاریہ چانکیہ 350 سال قبل مسیح ایک برہمن خاندان میں پیدا ہوا تھا۔

اس کی جائے پیدائش کے بارے میں مختلف آرا پیش کی جاتی ہیں۔ اس نے ایک کتاب   ارتھ شاستر‘‘ تخلیق کی اور یہ کتاب آج بھی بڑی شہرت کی حامل ہے۔ اس نے اپنی کتاب میں سیاسیات اور معاشیات کے اصول بیان کیے، اس کے علاوہ چانکیہ نے حکومت کرنے کے اصولوں پر بحث کی ہے۔

اس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ ایک طرف تو اخلاقیات اور انسانیت کا درس دیتا تھا لیکن حکومت کرنے کے حوالے سے اس کے افکار تباہ کن تھے۔ اس نے چندر گپت موریا کو ہندوستان کا بادشاہ بنوانے میں اپنی ذہانت کا بھرپور مظاہرہ کیا۔

وہ چندرگپت کا وزیراعظم اور مشیر بھی تھا۔ چانکیہ نے چندرگپت موریا کو طاقتور نندہ خاندان کا تختہ الٹنے کیلئے قیمتی مشورے دئیے۔ وہ ایک شاندار حکمت کار تھا اور جنگی چالیں چلنے میں بھی مہارت رکھتا تھا۔

اس نے ٹیکسلا (اب پاکستان) سے تعلیم حاصل کی۔ اسے کوتلیا اور وشنوگپتا بھی کہا جاتا تھا۔ بہت پڑھا لکھا آدمی تھا اور اسے کئی علوم پر عبور حاصل تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ یونانی اور فارسی زبان کے بارے میں بھی بہت کچھ جانتا تھا۔

تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ ٹیکسلا میں سیاست اور معاشیات کے استاد (اچاریہ) کی حیثیت سے کام کرنے لگا۔ چانکیہ کی کتاب   ارتھ شاستر‘‘ بہت مشہور ہوئی اور ابھی تک اپنی مقبولیت برقرار رکھے ہوئے ہے۔

قدیم   ارتھ شاستر‘‘کے مصنف کی شناخت کوتلیا کے حوالے سے ہوتی ہے جو چانکیہ کے قبیلے کا نام تھا۔ سنسکرت کی ادبی روایات کے متعلق چانکیہ کا اصل نام وشنوگپتا تھا۔

چندرگپت موریا سے پہلے نندہ خاندان کی حکومت تھی۔ کہا جاتا ہے کہ نندہ خاندان حکمران بننے سے پہلے ڈکیتوں کا گروہ تھا۔ چانکیہ 3 ویدوں کا ماہر تھا، اس کے علاوہ وہ ماہر سیاسیات بھی تھا۔   ارتھ شاستر‘‘ کا مطلب سیاسیات کی سائنس ہے جسے ہم آج کل انگریزی میں پولیٹیکل سائنس کہتے ہیں۔

اچاریہ چانکیہ کے دانت کتوں کی طرح تھے۔ اس کی ماں اس سے بہت خوفزدہ تھی کہ کہیں وہ اسے کاٹ نہ کھائے۔ کتے جیسے دانت رکھنے والے کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ بادشاہ بنے گا۔ چانکیہ کی ماں کو یہ خدشہ بھی تھا کہ بادشاہ بننے کے بعد کہیں اس کا بیٹا اسے نظر انداز کرنا شروع نہ کر دے۔

اپنی ماں کے خدشات ختم کرنے کیلئے چانکیہ نے اپنے دانت توڑ ڈالے۔ چانکیہ ایک بدصورت آدمی تھا اور پھر اپنے ٹوٹے ہوئے دانتوں کی وجہ سے اس کی شکل اور بھی بھدی ہو گئی۔ ایک دن بادشاہ دھانا نندہ نے برہمنوں کیلئے خیرات تقسیم کرنے کی ایک تقریب منعقد کی۔ چانکیہ بھی اس تقریب میں گیا۔ بادشاہ کو چانکیہ کی وضع قطع سے سخت کوفت ہوئی۔ اس نے چانکیہ کو تقریب سے باہر نکالنے کا حکم دیا۔

چانکیہ چراغ پا ہو گیا اور اس نے بادشاہ کو برا بھلا کہا۔ نندہ نے اس کی گرفتاری کا حکم دیا لیکن چانکیہ کسی طرح وہاں سے بھاگ نکلا۔ اس کے بعد چانکیہ نے فیصلہ کر لیا کہ وہ بادشاہ دھانا نندہ سے اپنی توہین کا انتقام لے گا۔

اس نے نندہ کے بیٹے پباتا کو دوست بنا لیا۔ دراصل یہ اس کی ایک چال تھی۔ اس نے بڑی ہوشیاری سے نندہ کے بیٹے کو یہ ترغیب دی کہ وہ اپنے باپ کا تختہ الٹ دے اور اقتدار کے سنگھا سن پر خود متمکن ہو جائے۔

اس کے بعد چانکیہ نندہ کے محل سے فرار ہو گیا۔ ہوس اقتدار بھی کیا عجیب چیز ہے انسان سب رشتے بھول جاتا ہے۔ دوسروں پر غلبے کی آرزو انسانی جبلت کا حصہ ہے لیکن اس بات کو ذہن میں رکھیے کہ ہر انسان دوسروں پر غلبے کا آرزومند نہیں ہوتا۔ بہرحال پباتا اپنی خواہش کے بدن کو تکمیل کا لباس نہ پہنا سکا۔ پھر چانکیہ نے فوج بنائی اور چندرگپت کے ساتھ مل کر دھانا نندہ کی سلطنت پر حملہ کر دیا لیکن انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

چانکیہ اور چندرگپت موریا نے نئی فوج بنائی جس نے سرحد کے قریب گائوں فتح کرنا شروع کر دئیے۔ آہستہ آہستہ چانکیہ اور چندرگپت نے سلطنت کے دارالحکومت تپالی پترا کی طرف پیش قدمی شروع کر دی جہاں انہوں نے بادشاہ دھانا نندہ کو موت کی وادی میں اتار دیا۔ چانکیہ نے ایک ماہی گیر کو حکم دیا کہ وہ اس جگہ کوتلاش کرے جہاں دھانا نندہ نے خزانہ چھپا کے رکھا ہوا تھا۔ جونہی ماہی گیر نے خزانے کا پتا بتایا‘ چانکیہ نے اسے فوری طور پر ہلاک کر دیا۔ چانکیہ نے چندرگپت کی بادشاہت کا اعلان کر دیا اور ایک شخص اتاپا کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ سلطنت کے باغیوں اور ڈکیتوں کو موت کے گھاٹ اتاردے۔ چانکیہ کو معلوم ہو چکا تھا کہ وہ   کنگ میکر‘‘ کی حیثیت سے شہرت حاصل کر چکا ہے اور اسے اس حقیقت کا ادراک بھی ہو چکا تھا کہ وہ حکومت کرنے کے اصولوں سے بھی کماحقہ واقف ہے۔ وہ کسی وقت کسی بھی سلطنت کو تباہ بھی کر سکتا تھا اور ایک نئی سلطنت قائم کر سکتا تھا اور یہ سلطنت پہلی سلطنت سے بڑی بھی ہوتی تھی اور دولت مند بھی۔

انسانی تاریخ میں وہ واحد آدمی ہے جسے   گورو‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ اپنی بے پناہ ذہانت اور عزم مصمم کی وجہ سے وہ ہر جگہ کامیاب ہوا۔ جہاں تک اخلاقیات کا تعلق ہے تو سیاست میں وہ کسی اخلاقی اصول کو نہیں مانتا تھا۔ وہ اقتدار کی سیاست میں سب کچھ جائز سمجھتا تھا اور اس حوالے سے وہ سفاکیت کا بھی قائل تھا۔ وہ حکومت حاصل کرنے اور پھر اسے کامیابی سے چلانے کیلئے جھوٹ‘ مکاری اور منافقت کو جائز سمجھتا تھا۔

دوسری طرف ذرا اس کے تضادات ملاحظہ کریں۔ وہ سب کیلئے مساوات چاہتا تھا۔ شہریوں کا تحفظ اس کے نزدیک سب سے اہم تھا زرعی نظام کی بھرپور حمایت کرتا تھا کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ کسی بھی ریاست کیلئے یہ ضروری ہے ۔ وہ تحفظ نسواں کو بھی بڑی اہمیت دیتا تھا اس لیے اس نے عورتوں کے استحصال کے تمام راستے بند کر دئیے۔ وہ زبردست سماجی شعور رکھتا تھاا ور سماجی اخلاقیات کا بھی بہت بڑا علمبردار تھا لیکن جہاں اسے کشت اقتدار کی کھیتیاں نظر آتی تھیں وہاں وہ ان کو انسانی لہو سے سیراب کرنے سے گریز نہیں کرتا تھا۔ کمال کی بات ہے کیا تضادات تھے اس شخص کے۔

اچاریہ چانکیہ ٹیکس عائد کرنے کے معاملے میں بھی زبردست تجاویز دیتا تھا۔ وہ ایک چالاک‘ مدبر اور بے رحم منتظم تھا۔ اپنی تحریروں میں اس نے ڈپلومیسی‘ ریاستی ڈھانچوں‘ اخلاقیات اور سیاست پر تفصیل سے لکھا۔ وہ سیاست کا ایسا سائنسدان تھا جس نے ایک قابل انتظامیہ کی بنیاد رکھی ایک ایسے معاشرے کی تشکیل دی جہاں سب کو مساوی مواقع حاصل تھے۔ وہ ایک شاندار ماہر معاشیات بھی تھا جس کی پالیسیوں سے ملک خود کفیل ہو گیا۔ وہ ایک ایسا سفارتکار تھا جس نے دوسرے ممالک سے مذاکرات کے ذریعے اچھے تعلقات قائم کئے۔ اتنے اوصاف رکھنے والا شخص ایک کامیاب جنگی حکمت کار (War Strategiest) بھی تھا۔ اس نے اندرونی لڑائیوں اور خلفشار پرقابو پایا اور ایک وسیع سلطنت کو مستحکم کیا۔

چانکیہ کی کتابوں میں   ارتھ شاستر‘‘ اور   چانکیہ نیتی‘‘ شامل ہیں۔ چانکیہ کے کئی مشہور اقوال ہیں جن میں سے کچھ ذیل میں درج کئے جا رہے ہیں۔

دوسروں کی غلطیوں سے سیکھو، تم اپنی صرف خوبیوں کی بدولت زندہ نہیں رہ سکتے۔

اپنے راز کسی کو نہ بتاؤ ورنہ تباہ ہو جائو گے۔

کسی بھی شخص کو بہت زیادہ دیانتدار نہیں ہونا چاہیے۔ سیدھے کھڑے ہوئے درختوں کو پہلے کاٹا جاتا ہے اسی طرح دیانتدار افراد کو بھی پہلے ناکارہ کیا جاتا ہے۔

انسان اپنی پیدائش سے نہیں اپنے کارناموں سے عظیم بنتا ہے۔

تعلیم بہترین دوست ہے۔ ایک تعلیم یافتہ شخص کی ہر جگہ عزت کی جاتی ہے۔ تعلیم خوبصورتی اور جوانی کو شکست دے دیتی ہے۔

اس کے ایک قول کو تو عالمگیر شہرت حاصل ہے کہ   ایک بدمعاش بیٹا سارے کنبے کو تباہ کر دیتا ہے‘‘۔

16ویں صدی کے اٹلی کے مفکر میکاولی کا فلسفہ بھی چانکیہ کے خیالات کا آئینہ دار ہے۔ میکاولی نے بھی حکومت کرنے کے جو اصول بتائے ہیں وہ چانکیہ سے متاثر ہو کر ہی وضع کئے گئے ہیں۔ اس لیے میکاولی کو جدید دور کا چانکیہ کہا جاتا ہے۔ اس کی مشہور کتاب   دی پرنس‘‘ میں وہ سب کچھ مل جاتا ہے جو چانکیہ نے کئی سو سال پہلے کہا تھا۔

چانکیہ کی موت آج تک ایک معمہ ہے۔ ایک روایت کے مطابق اسے ملکہ ہیلینا نے زہر دیدیا تھا۔ دوسری کہانی کے مطابق اسے بادشاہ بندوسار کے وزیر سباندھو نے زندہ جلا ڈالا تھا۔ اس کی موت 283 قبل مسیح میں ہوئی۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ چانکیہ اور سکندراعظم ہمعصر تھے لیکن دونوں کی کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔

تحریر: عبدالحفیظ ظفر
 

Advertisement