لاہور: (مہروز علی خان، محمد وقاص بٹ) مقبوضہ کشمیر میں انتہاپسند بھارتی حکومت ظلم کا ہرہتھکنڈہ آزمانے کے بعد بھی ناکامی سے دوچار ہوئی تو اس نے نت نئے جال بننے شروع کردیے تاکہ کشمیریوں کو پھنسایا جاسکے۔ اب مودی حکومت مقبوضہ وادی کا آبادیاتی تناسب تبدیل کرنے کی مکروہ سازش کررہی ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہمیشہ سے رہی ہے۔برصغیر پر برطانوی دور حکومت میں جب مردم شماری 1901 میں کرائی گئی تھی تو جموں و کشمیر کی آبادی 29 لاکھ 5 ہزار 578 تھی جن میں سے 21لاکھ 54ہزار 695 جو تقریبا 74.16 فیصد ہے، مسلم آبادی تھی جبکہ 6 لاکھ 89 ہزار73 افراد ہندو مذہب سے تعلق رکھتے تھے جو 23.72فیصد بنتا ہے جبکہ 25ہزار 828 سکھ اور 35ہزار 47 بدھ مت سے تعلق رکھتے تھے۔ اسی مردم شماری کے مطابق کشمیر میں مسلم آبادی کا تناسب 93 فیصد تھا۔ اسکے بعد 1911 میں ہونے والی دوسری مردم شماری میں جموں و کشمیر کی آبادی بڑھ کر 31 لاکھ 58 ہزار 126 ہوچکی تھی جس میں سے 75.94 فیصد یعنی 23 لاکھ 98ہزار 320 مسلم نفوس تھے جبکہ 6 لاکھ 96 ہزار 830 افراد یعنی 22.06فیصد ہندو مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ ان میں ایک فیصد سکھ مذہب اور 1.16 فیصد بدھ مت سے تعلق رکھتے تھے۔ برطانوی دور میں ہونے والی ا?خری مردم شماری 1941 میں ہوئی جس میں 39لاکھ 45ہزار جموں و کشمیر کی آبادی ہوچکی تھی جس میں مسلم آبادی کی تعداد 29 لاکھ 97 ہزار تقریبا 75.97 فیصد تھی جبکہ ہندو آبادی 8 لاکھ 8ہزار کل آبادی کا 20.48فیصد تھی۔ اس میں 1.39 فیصد سکھ آبادی شامل تھی۔ 2001 میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی جانب سے کرائے گئے مردم شماری کے اعدادوشمار کے مطابق کل آبادی 1کروڑ 1لاکھ 43 ہزار 700 تھی جس میں 67 لاکھ 93ہزار 240 یعنی 66.97فیصد مسلم آبادی پر مشتمل تھا جبکہ 29.63 فیصد ہندو اور 2.4 فیصد سکھ ، 1.12 فیصد بدھ مت پر مشتمل تھا۔ اس کے برعکس آزاد جموں کشمیر میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق 99 فیصد آبادی مسلم تھی۔
مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی2011 کی آخری مردم شماری کے مطابق آبادی کا 68% حصہ مسلمانوں، 28% ہندوؤں، اور 4% سِکھ اوربدھ مت کے پیروکاروں پر مشتمل ہے۔ یہ اعدادوشمار ہی مودی حکومت کے لیے سیاسی موت کا باعث بنتے نظر آتے ہیں اس لیے بھارت ان اعدادوشمار کو ہر صورت تبدیل کرنے کے در پر ہے۔ اس مقصد کے لیے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے آئندہ مردم شماری 2026ء تک ملتوی بھی کردی ہے۔
آبادیاتی تناسب کی تبدیلی کا مقصد مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنا ہے جس سے کسی بھی ممکنہ رائے شماری کے نتائج کو تبدیل کرنے میں بھارت کو مدد مل سکے گی۔اس حوالے سے جائزہ لیا جائے تو مقبوضہ جموں و کشمیر رقبہ کے لحاظ سے تین حصوں پر مشتمل ہے جس میں 58% رقبہ لَداخ، 26%جموں اور 16%وادی کشمیر کا ہے۔ ریاست کی 55 % آبادی مقبوضہ وادی کشمیر، 43% جموں اور 2% لَداخ میں رہتی ہے۔مقبوضہ کشمیر میں آخری مردم شماری 10 سال قبل ہوئی تھی۔
بھارتی وزیراعظم کی جانب سے آئندہ پانچ سال تک کے لیے مردم شماری کو التواءمیں ڈالنا اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارتی حکومت ہر حال میں وقت حاصل کرنا چاہتی ہے تاکہ آبادیاتی تناسب کو زیادہ سے زیادہ حد تک تبدیل کرکے مقبوضہ کشمیر کے مسلم تشخص کو مسخ کیا جاسکے۔اگرچہ اس عمل کے ذریعے بھارت واضح طور پر جنیوا کنونشن 4 کے آرٹیکل 49 کی خلاف ورزی کررہا ہے مگر اس وقت بھارت کی انتہاپسند حکومت اس درجہ جنونیت کا شکار ہے کہ وہ کسی بھی بین الاقوامی قانون کی پاسداری کے لیے تیار نہیں ہے۔ بھارت کے اس عمل کی بین الاقوامی سطح پر سخت مذمت کی جارہی ہے اور بھارت کو عالمی برادری کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے۔ بھارت کے اس گھناﺅنے منصوبے پر حال ہی برطانوی پارلیمنٹ کے اراکین نے بھی سخت الفاظ میں ناصرف مذمت کی بلکہ اسے مقبوضہ کشمیر میں ممکنہ ریفرنڈم کے نتیجہ پر اثر انداز ہونے کی سازش قرار دیاہے۔
مودی نے آبادیاتی تناسب میں تبدیلی کے منصوبے پر سرگرمی سے دو سال قبل عمل شروع کیا اور مقبوضہ کشمیر میں بیرونی انتہاپسند ہندﺅں کو بسانا شروع کردیا تھا۔ اس مقصد کے لیے آئین میں ترامیم کے ساتھ ساتھ جائیداد کی خریدو فروخت اور ڈومیسائل میں تبدیلی کے قوانین کو بھی تبدیل کردیا گیا۔ڈومیسائل کے قوانین میں تبدیلی کے ساتھ ہی بھارت کی جانب سے 18 لاکھ سے زائد غیر کشمیری انتہاپسند ہندﺅں کو ڈومیسائل دینے کے ساتھ ساتھ 6600 گورکھا کمیونٹی کے ریٹائرڈ فوجیوں کو بھی کشمیر کا ڈومیسائل دے دیا گیا ہےجبکہ مزید ڈومیسائل دینے کا سلسلہ بھی تیزی سے جاری ہے جو بھارت کے مکروہ عزائم سے پردہ اٹھانے کے لیے کافی ہے۔
ڈومیسائل کے نئے قوانین کے تحت اب ڈومیسائل جاری کرنے کا اختیار تحصیلدار کو حاصل ہے۔ اس طریقہ کار کے تحت اب مقبوضہ وادی سے باہر کے رہائشی باآسانی کشمیر کا ڈومیسائل حاصل کرنے کے بعد کشمیری ہوسکتے ہیں۔اب تک 10 ہزار سے زائد مزدور پیشہ غیر کشمیریوں کو بہار سے کشمیر میں منتقل کردیا گیا ہے جبکہ 5 لاکھ کشمیری پنڈتوں کے لیے اسرائیل کی طرز پر علیحدہ کالونیاں بنائی جارہی ہیں۔
آرٹیکل 35 اے کے خاتمے سے سب سے بڑا نقصان یہی ہوا ہے کہ اس قانون کے خاتمے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کو ریاستی تحفظ سے محروم کردیا گیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں جائیداد کی خریدوفروخت کے قوانین میں تبدیلی کے بعد بڑی تعداد میں غیرملکی ، غیرملکی کمپنیاں اور خصوصی طور پر بھارتی فوج کے حاضر و ریٹائرڈ افسران وادی میں جائیداد خرید رہے ہیں۔ اونے پونے داموں جائیداد کی خرید کرنے کے بعد یہ ریلا مقبوضہ کشمیر میں کشمیری کی حیثیت سے آباد ہوجائے گا۔فوجیوں کے لیے جائیداد خریدنے کے لیے شرائط مزید آسان کرنے کے ساتھ ہی صرف بارہ مولا کیمپ میں فوجی کیمپ کے لیے 29 ہزار کنال اراضی خریدنے کے منصوبے پر عمل شروع ہوچکا ہے۔واضح رہے کہ اس سے قبل ہی بھارتی فوج مقبوضہ وادی میں53 ہزار 353 ہیکٹرز اراضی میں قابض ہیں جبکہ بھارتی حکومت کی جانب سے اب مقبوضہ کشمیر میں اپنی فوج کو سینکڑوں ایکڑز پر محیط خصوصی علاقے قائم کرنے کی بھی اجازت دیدی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کنٹرول آف بلڈنگ آپریشن ایکٹ 1988اور جموں وکشمیر ڈویلپمنٹ ایکٹ 1970ئ تبدیل کر کے مسلح افواج اور کنٹونمنٹ بورڈ ز کو تعمیرات کی اجازت دے دی ہے۔اس طرح اسرائیل کی طرز پر پورے مقبوضہ کشمیر کو گیریڑن سٹی بنانے کی سازش کھل کر سامنے آگئی۔
مودی کی سازشیں یہاں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ مقبوضہ کشمیر کی 20 ہزار کنال سونا اگلتی اراضی کوڑیوں کے مول ہتھیا لی گئی ہے جبکہ کشمیریوں کی زمینیں زبردستی چھینی اور نیلام کی جارہی ہیں۔ جموں و کشمیر گلوبل انوسٹرز سمٹ میں 43 کمپنیوں کی 137000 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری دراصل مقبوضہ وادی کی اراضی اور وسائل کے استحصال کا منصوبہ ہے۔بھارتی حکومت 2 لاکھ ایکڑ سے زائد اراضی بیرونی سرمایہ کاروں کیلئے بھی خرید نے جا رہی ہے ان میں 15000 ایکڑ دریاو ¿ں سے ملحقہ اراضی شامل ہے۔24جولائی 2020 کو بھارتی حکومت نے35 مختلف جگہوں پر (488 ہیکٹر / 1205ایکٹر) ریاستی اراضی کو صنعتوں کیلئے منظور کر دی تھی۔
بی جے پی مقبوضہ جموں و کشمیر میں اپنا وزیراعلیٰ لانے کے لیے بڑے پیمانے پر سازشیں کررہی ہے۔ اس حوالے سے مقبوضہ کشمیر میں نئی حدبندیاں کرنے کی بھی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ اس سازشن کے تحت قانون ساز اسمبلی میں تقریبا 7نشستوں کو اضافہ کیا جائیگا۔ بھارتی سازش کے تحت یہ سیٹیں جموں کے بجاءکشمیر کو دئے جانے کا امکان ہے جبکہ اعدادوشمار کے مطابق کشمیر کی آبادی زیادہ ہے اور اگر سیٹوں میں اضافہ ناگزیر ہی ہے تو وہ کشمیر کی سیٹوں میں ہونا چاہئے۔ ماہرین کے مطابق کسی بھی پارٹی کو اسمبلی میں سادہ اکثریت کے لیے 44 نشستیں چاہیے ہوتی ہیں جبکہ کل 83 میں سے 46 نشستیں کشمیر اور 37 جموں کی ہیں۔ بی جے پی سادہ اکثریت کے حصول کے بعد مقبوضہ کشمیر میں اپنے غیر آئینی اقدامات پر مہر تصدیق ثبت کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
بھارتی فوج مقبوضہ جموں و کشمیر میں آبادیاتی تناسب کی تبدیلی میں اہم کردار ادا کررہی ہے۔ مسلم اکثریتی علاقوں میں ظلم و ستم کے ذریعے مسلم خاندانوں سے ان کی ملاک چھینی جارہی ہیں۔ خوف کی فضا قائم کرکے مسلمانوں کو علاقے چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے اور جہاں مسلم نوجوان مزاحمت کی راہ اپناتے ہیں وہاں ان کے گھروں اور املاق کو نذر آتش کردیا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ تمام اقدامات بھارت کی جانب سے آبادیاتی تناسب میں تبدیلی کے لیے کیے جارہے ہیں مگر ان ظالمانہ اقدامات کے باعث میں کشمیریوں میں بھارت کے لیے نفرت کے جذبات میں اضافہ ہورہا ہے اور ان کی تحریک مزید طاقتور ہوتی جارہی ہے۔
پاکستان نے اس مسئلے کو ہر فورم پر اٹھانے کے ساتھ ساتھ واضح طور پر بھارت کو جواب دیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا نہیں بالکہ پاکستان کا حصہ ہے۔ بھارت نے جس طرح ایک غیر آئینی ترمیم کے ذریعے کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کرکے اپنی جغرافیائی حدود میں ضم کیا ہے ، یہ عمل سلامتی کونسل کی جنگ بندی کی قراردادوں کے بھی منافی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ استصواب رائے کے ذریے کیا جائیگا جو اقوام متحدہ کی زیرنگرانی ہوگا۔
خون دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں
بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں اپنے ظلم و ستم پر پردہ ڈالنے کے لیے سب سے پہلے مقبوضہ کشمیر کے سرگرم میڈیا کو قابو کرنے کے لیے ہتھکنڈوں کا آغاز کیا اور ان مظالم کو چھپانے اور بین الاقوامی برادری کو مقبوضہ کشمیر کی اصل صورتحال سے لاعلم رکھنے کے لیے سب سے پہلے قدغن کشمیری میڈیا پر لگائی گئی تھی۔5 اگست 2019 کو مقبوضہ کشمیر پر شب خون مارنے کے بعد بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں صحافیوں کا کریک ڈاﺅن کیا تھا جو دو سال گزرنے کے باوجود آج بھی جاری ہے۔ سری نگر سے تعلق رکھنے والے معروف صحافی ماجد جہانگیر کے مطابق بھارتی حکومت میڈیا کو خاموش کرانے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے۔ اس حوالے سے صحافیوں کی گرفتاریاں، جبری لاپتہ کیا جانا، اغواءاور صحافیوں اور ان کے اہل خانہ کو ہراساں کیا جانا اب معمول بن چکا ہے۔ 5 اگست 2019 سے اب تک مقبوضہ کشمیر کے 700 سے زائد صحافیوںکی گرفتاری و رہائی عمل میں آچکی ہے۔ ان گرفتار ہونے والے صحافیوں میں سے 27 ایسے ہیں کہ جو شعبہ بھارت فوج کے تشدد اور دباﺅ کی وجہ سے اس شعبے کو خیر بار کہہ چکے ہیں۔میڈیا پر مکمل قابو پانے کے لیے دھمکیوں کو سلسلہ انفرادی طور پر صرف صحافیوں کے حوالے سے ہی جاری نہیں رہا بلکہ برقی و اشاعتی میڈیا کے کئی اداروں کو براہ راست یہ دباﺅ برداشت کرنا پڑا۔ اسی دوران مختلف اداروںپر بھارتی فوج اور کشمیری پولیس سے حملے بھی کرائے گئے۔ 4 ایسے ادارے ہیں جو براہ راست بھارتی سکیورٹی فورسز کا ہدف بنے۔ کشمیری صحافیوں کا کہنا ہے کہ بھارتی فورسز نے دباﺅ قبول نہ کرنے والے صحافیوں کو خصوصی طور پر ہدف بنا لیا تھا اسی لیے جب یہ صحافی مقبوضہ کشمیر میں بھارت مخالف مظاہروں کی کوریج کے لیے جاتے تھے تو مظاہرین پر ظلم و تشدد کے دوران بھارتی ادارے صحافیوں کو بھی تشدد کا نشانہ بناتے تھے۔ گزشتہ دو سال کے دوران 57 ایسے صحافی ہیں جنھیں بھارتی فوج نے تشدد کرکے شدید زخمی کیا۔ غیر ملکی خبررساں ایجنسیوں کے دو فوٹو گرافر ایسے ہیں جنھیں بھارتی مظالم کی تصویر کشی کی پاداش میں پیلٹ گن سے نشانہ بنایا گیا جس کی وجہ سے ایک فوٹو گرافر اپنی ایک ایک آنکھ سے محروم ہوگئے۔ کشمیر آبزرور کے مدیر سجاد حیدر کہتے ہیں تحریری طور پر تو کوئی پابندی نہیں ہے لیکن جو دہشت اور خوف کا عالم پیدا کیا گیا ہے اس میں کون لکھ یا بول سکتا ہے۔ ہم نے نوے سے سختیاں اور پابندیاں دیکھی ہیں لیکن پانچ اگست کے بعد ایسا ماحول بنایا گیا ہے کہ صحافی خود پر پابندیاں عائد کرنے لگا ہے کیونکہ وہ خوف کے عالم میں جی رہا ہے۔ پہلے 300 صحافیوں کو آٹھ کمپیوٹر دیے گئے اور ہر رپورٹ سرکاری نظر سے گزرتی رہی۔ ایسے خوف میں حقیقی خبریں عوام تک پہنچانے کی ہمت کون کر سکتا ہے؟۔اس حوالے سے سری نگر کے ایک صحافی طارق میر نے بتایا کہ مقبوضہ کشمیر میں صحافیوں کو خاموش رکھنے کے لیے ان کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات کیے جارہے ہیں۔ ان کو معاشی و روزگار کے حوالے سے دھمکایا جارہاہے۔ ایسی صورتحال میں کشمیری صحافی اپنی اور شعبہ صحافت کی بقاءکی جنگ لڑرہے ہیں۔واضح رہے کہ گزشتہ دو سال میں 31 کشمیری صحافی حق گوئی کے جرم میں غداری کے مقدمات کا سامنا کررہے ہیں جن میں خاتون فوٹوگرافر مسرت زہرا بھی شامل ہیں۔ 127 ایسے ہیں جنھیں پوچھ گچھ کے لیے مقامی تھانوں میں بلایا جاتا ہے ، ان کی حاضری لگتی ہے اور ان میں سے پیشتر کو بدنام زمانہ بھارتی انٹروگیشن سینٹرز میں بھی جانا پڑتا ہے۔ان حالات کے دوران کئی کشمیریوں صحافیوں نے مختلف حیلے بہانوں سے نئی دہلی جانے کی کوششیں کیں اور اس میں کامیاب رہے۔ اسی وجہ سے وہ نئی دہلی کو بیس بناکر وہاں سے بین الاقوامی اداروں کو مقبوضہ کشمیر کی اصل صورتحال سے آگاہ کرتے رہے ہیں۔ اس صورتحال کا جب انٹیلی جنس اداروں کو اندازہ ہوا تو 3 کشمیری صحافیوں کو گرفتار کرلیا گیا جبکہ 11 کوسری نگر واپس بھیج دیا گیا۔
بھارتی حکومت کی جانب سے میڈیا پر تسلط جمانے کی ایک مربوط کوشش دہلی کے صحافیوں کو سری نگر میں تعینات کرکے بھی کی گئی جو بری طرح ناکام ہوگئی۔ اس سازش کے لیے 30 سے زیادہ صحافیوں کو نئی دہلی سے جدید سہولیات کی فراہمی کے بعد سری نگر بھیجا گیا تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں چونکہ مواصلات کا نظام درہم برہم رہتا ہے تو ان درآمد شدہ صحافیوں کو سیٹلائٹ فون فراہم کیے گئے تھے۔ یہ تمام صحافی سارا دن سرکاری عمارتوں میں محصور رہتے تھے اور اپنے قومی نشریاتی اداروں کو مقبوضہ کشمیر میں سب اچھا ہونے کی خبریں ارسال کرتے رہتے تھے۔ ابتدا میں کشمیری صحافیوں نے مقامی انتظامیہ سے سیٹلائٹ فون مانگے تاکہ وہ بھی اپنے قومی و بین الااقوامی اداروں کو صورتحال سے آگاہ کرسکیں تاہم بھارتی حکومت کی ایماء پر مقامی انتظامیہ نے کشمیری صحافیوں کو سیٹلائٹ فون کی سہولت فراہم کرنے سے انکار کردیا۔
جب کشمیری میڈیا نے بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں تمام ہتھکنڈوں کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لی تو گزشتہ سال بھارتی حکومت کی جانب سے ایک نیا ہتھیار میڈیا پالیسی کے نام پر اپنایا گیا تھا۔ 50 صفحات پر مشتمل دستاویز کے مطابق مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو ایکریڈیشن کارڈ کے لیے بھارتی ایجنسیوں اور سکیورٹی سرکل سے کلیئرنس لینی تھی۔بھارتی مظالم دنیا کے سامنے لانے والے صحافی اس پالیسی کی زد میں آئے جبکہ میڈیا مالکان اور ایڈیٹرز کا ماضی کنگھالنے کے نام پر انھیں بلیک میل کرکے حق بات کہنے سے روکنے کی کوشش کی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت پر تنقید کرنے والے صحافیوں کو بے روزگار کرنے کے لیے بھی اداروں پر دباﺅ ڈالنے کا سلسلہ جاری رہا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گزشتہ دو سال کے دوران 113 صحافیوں کو جبری طور پر برطرف کیا گیا۔ اس نئی پالیسی کے تحت حکومت کی جانب سے اخبار، ٹی وی سمیت میڈیا کے ہر فورم پر نگران کمیٹیاں قائم کرکے نگرانی شروع کردی گئی۔ان تمام جبری ہتھکنڈوں کے باوجود جو صحافی حق گوئی سے باز نہ آئے ان پر مقدمات بنا دیئے گئے۔
مقبوضہ کشمیر کے سرکاری میڈیا کی صورتحال یہ ہے کہ اس پر ہمیشہ کشمیری پنڈتوں کی سبقت رہی ہے۔ 1990 میں جب کشمیری پنڈت کشمیر چھوڑ کر چلے گئے تو وہ اس وقت نیوز روم ساتھ لے کے چلے گئے تھے اور کئی برسوں تک دہلی سے کشمیری نیوز بلیٹن نشر ہوا کرتا تھا۔ پرنٹ میڈیا میں مسلمانوں کی بھرتی 1990 کے بعد ہوئی جب پنڈت وادی سے چلے گئے لیکن انہیں آزادی سے کام کرنے کا ایک موقعہ بھی نصیب نہیں ہوا۔ انہیں ہر دور میں ذہنی اور جسمانی عذاب سے گزرنا پڑ رہا ہے۔
بھارت کی مقبوضہ کشمیر پر معاشی حملہ
مقبوضہ جموںو کشمیر بھارتی جارحیت کا سات دہائیوں سے مقابلہ کرنے کے باوجود اپنی معیشت کو خود سنبھال رہا ہے۔ کشمیر میں میوہ جات کی کاشت،دستکاری و قالین بانی کی صنعت ،فروٹ انڈسٹری ، سیاحت اور سیاحت سے وابستہ ہوٹل اور ٹرانسپورٹ کی صنعت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سے منسلک صنعتیں کشمیری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان صنعتوں نے ہمیشہ کشمیریوں کیلئے بھارت کے خلاف جدوجہد میں اہم کردار ادا کیا۔یہی وجہ ہے کہ اس بار بھارت نے جب کشمیریوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپا تو ہندتوا نظریے سے لتھڑی ذہنیت نے سب سے پہلے کشمیری معیشت کو ہدف بنایا تا کہ کشمیریوں کو فاقوں پر مجبور کرکے ان کی قوت مذاحمت کو ختم کیا جاسکے۔
اگست 2019 سے جاری بھارتی فوجی محاصرے کے باعث مقبوضہ جموں و کشمیر کی معیشت مکمل طور پر جمود کا شکار ہوگئی ہے۔ کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے مطابق کشمیر میں بھارتی فوجی محاصرے کے صرف چار ماہ کے اندر کشمیری انڈسٹریز کو 17ہزار878کروڑ روپے (تقریبا 2.4 بلین امریکی ڈالر) کا نقصان اٹھانا پڑا ، جبکہ جون 2021تک میں4 لاکھ 99 ہزار کشمیری بے روزگار بھی ہوئے۔کشمیری قوم کو جنوری سے جولائی 2020 کے دوران مزید 22ہزار کروڑ روپے (تقریبا 2.9 بلین امریکی ڈالر) کانقصان برداشت کرنا پڑا۔یوں اگست 2019 سے جون 2020 کی درمیان کشمیر چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے اندازے کے مطابق بھارت کے غیرقانونی زیر قبضہ مقبوضہ کشمیر کو تقریباً 40ہزار کروڑ روپے (5.3 بلین امریکی ڈالر) کا نقصان ہوا۔اسی طرح بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں جاری دو سالہ طویل لاک ڈاو ¿ن کے باعث مقبوضہ کشمیر کی معیشت کو مجموعی طور پر 1ہزا ر 900ارب روپے سے زائد کا نقصان ہو چکا ہے۔سب سے زیادہ متاثرہ شعبے زراعت اور باغبانی ، تعمیرات ، دستکاری ،مینوفیکچر ، رئیل اسٹیٹ ، ٹرانسپورٹ ، سیاحت ، آئی ٹی اور چھوٹے کاروبار ، بشمول اسٹارٹ اپس ،اور مالی خدمات ہیں۔ جن میں سے زیادہ ترنے آمدنی میں 50 فیصد سے زائد کی کمی دیکھی ہے۔ انڈسٹریز اور ورکرز کرفیو کے باعث ہونے والے معاشی نقصان سے تاہم نکلنے سے قاصر ہیں۔
بھارت کی جانب سے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دیے جانے کے بعد وہاں کی فروٹ انڈسٹرخصوصاً سیب کی پیداوار اور ترسیل شدید متاثر ہوئی جس سے تقریباً 30 لاکھ سے زائد لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔مقبوضہ کشمیر میں سیب کا تجارتی حجم 2 ارب ڈالر پر مشتمل ہے جو وہاں کی معیشت کا 10 فیصد بنتا ہے۔ فوجی محاصرے کے باعث نقل و حمل کی محدود سہولیات کی وجہ سے تقریباً 1 لاکھ 35 ہزار میٹرک ٹن سیب ضائع ہوا۔ کشمیری عوام کے اپنے گھروں میں محصور ہونے کی وجہ سے آدھی سے زائد فصل تو درختوں سے اتار ی ہی نہ جاسکی۔ ہندوستان کی نیشنل زرعی کوآپریٹو مارکیٹنگ فیڈریشن (NAFED) رواں سیزن میں صرف 70.45 کروڑ روپے مالیت کے سیب خریدنے میں کامیاب رہی، جبکہ مقبوضہ کشمیر میں سیب کی سالانہ آمدنی 14ہزار کروڑ روپے ہے۔
گزشتہ سال اگست کے آغاز میں بھارتی قابض سرکار نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کااعلان کرکے کرفیو نافذ کیا تو اس وقت سیاحتی سیزن عروج پر تھا۔ تمام ہوٹل بک ہو چکے تھے مگر بھارتی حکومت نے سیاحوں کو کشمیر چھوڑنے پر مجبور کیا اور یوں سیاحت کا شعبہ بحران سے دو چار ہو گیا اور ہزاروں محنت کش بے روزگار ہو گئے۔سیاحت کی صنعت مقبوضہ کشمیر کے جی ڈی پی میں 8 فیصد حصہ رکھتی ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق2019 کے آخر میں وادی میں سیاحوں کی تعداد میں 71 فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔ جموں کشمیر ٹورزم ڈیپارٹمنٹ کے مطابق سال 2018 میں اگست اور دسمبر کے درمیان 3لاکھ16ہزار سے زائد سیاحوں نے کشمیر وادی کا رخ کیا، البتہ اگست 2019 کے غیر قانونی فوجی محاصرے کے بعد سے یہ تعداد 43ہزارپر آ گئی ہے۔مقبوضہ کشمیر میں سیاحت کیلئے آنے والے افراد میں بیشتر افراد وہ ہیں جن کو بھارتی حکومت کی جانب سے مشروط اجازت دی جاتی ہے۔ مسلسل کرفیو اور معاشی جمود کے باعث 74ہزار500 افراد سیاحت کے شعبے سے بیروزگار ہوئے ہیں۔سیاحتی شعبہ کی تباہ حالی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارتی حکومت نے امرناتھ یاترا بحال کرنے کی منصوبہ بندی کی، جس میں صرف 7ہزار500 یاتریوں کو شامل کیا جائے گا۔ عام طور پر اس یاترا میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگ شامل ہوتے ہیں۔وادی میں اس وقت تقریباً 3000 ہوٹل ہیں اور سبھی خالی پڑے ہیں۔کشمیر کی محکمہ سیاحت کے مطابق بھارتی حکومت کی جانب سے نافذ لاکھ ڈاؤن کے باعث رواں سال کے پہلے چار ماہ میں صرف 17ہزار682 سیاح کشمیر آئے ہیں۔ وادی کا تقریباً تیس فیصد حصہ سیاحت کے شعبے پر بلواسطہ یا بلاواسطہ منحصر ہے۔ ان میں ہوٹل مالکان،ڈل جھیل میں ہاؤس بوٹ مالکان،شکارا والے،گھوڑے اور ٹیکسی والے شامل ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میںانٹرنیٹ سروس معطل ہونے کے باعث تقریباً 5ہزار ٹریول ایجنٹ بیکار بیٹھے ہیں۔ اس سب کے علاوہ سری نگر کی مشہور ڈل جھیل میں تقریباً ایک ہزار شکارے بھی خالی پڑے ہیں۔
کشمیر میں غیرقانونی قابض فوجی محاصرے اور کرفیو کے باعث ٹرانسپورٹ سروس کو شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اگست 2019 سے اب تک کشمیر میں ٹرانسپورٹ پر پابندی ہے، جس کے باعث زراعت کی تیار فصل کی نقل و حرکت نہ ہونے کی وجہ سے ضائع ہو گئی۔ ٹرانسپورٹ سیکٹر سے منسلک افراد یا تو ٹیکسی اور بسیں چلاتے ہیں یا پھر سامان کی ترسیل کرتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کی گاڑیاں قرض پر ہیں۔ نقل و حمل پر پابندی کے باعث وادی میں ادویات، خوراک اور دیگر اشیائے ضرورت کی شدید قلت ہے اور آبادی کا ایک بڑا حصہ متاثر ہوا ہے۔
سنٹر فور مونیٹرنگ انڈین اکانومی (CMIE) کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں بے روزگاری کی شرح 17.9 فیصد ہے۔اس وقت تقریباً ایک چوتھائی تعلیم یافتہ کشمیری نوجوان بے روزگار ہیں۔ فاشسٹ مودی سرکار کے جابرانہ اقدام کے باعث مقبوضہ کشمیر کی بےروز گاری میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ رواں سال کے آغاز تک جنرل ٹریڈ میں 1لاکھ 20 ہزار ،سیاحت میں 74ہزار500،انڈسٹریل سیکٹر میں 70ہزار،سروسز سیکٹر میں 66ہزار، ٹرانسپورٹ میں 60ہزار،کنسٹرکشن میں 20ہزار لوگ بے روزگار ہوئے۔کشمیر چیمبر آف کامرس کے مطابق مجموعی طور پر 4 لاکھ 99 ہزار لوگ بے روزگار ہوئے ہیں۔ کشمیر وادی میں اس وقت تقریباً پانچ لاکھ افراد سرکاری ملازمت کرتے ہیں۔ 5 اگست 2019کو بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت میں تبدیلی کے بعد مارچ 2020 میں بھارت کی طرف سے جاری کردہ متنازعہ”جموں اینڈ کشمیر گرانٹ آف ڈومیسائل سرٹیفیکٹ (پروسیجر) رولز 2020“ جس کے تحت کوئی بھی شخص، جس نے مقبوضہ کشمیر میں 15 سال گزارے ہوں یا بھر 7 سال تک تعلیم حاصل کی ہو ،وہ ڈومیسائل کے اہل ہوں گے۔ جس کے ذریعے وہ سرکاری نوکری جوکہ زراعت کے بعدسب سے زیادہ اہم شعبہ سمجھا جاتا ہے ، کیلئے درخواست دے سکیں گے۔اس سے قبل مقبوضہ کشمیر میں 1952 کے شہریت کا قانون لاگو تھا جس کے تحت سرکاری ملازمت صرف کشمیر کے مستقل رہائشیوں کیلئے مختص تھیں۔
مقبوضہ کشمیر میں جاری جبری لاک ڈاو ¿ن کے دوران انٹرنیٹ سروس کی بندش نے بھی کشمیر میں ہونے والے معاشی نقصانات میں اپنا حصہ ڈا لا ہے۔ وہ تمام کاروبار جن کا دارومدار صرف انٹرنیٹ پر تھا،انٹرنیٹ سروس کی بندش کے باعث مفلوج ہو کر رہ گئے۔ بھارتی حکومت کی جانب سے عالمی دباو ¿ کے باعث 2جی (2G) سروس کی فراہمی کی گئی۔ البتہ، 2جی سروس کی سست رفتاری کے باعث بیشتر کاروباری افراد اپنے گاہکوں سے رابطہ کرنے سے قاصر رہے۔زیادہ تر آئی ٹی سیکٹر سے منسلک افراد کے کلائنٹ بیرون ملک ہوتے ہیں۔ انٹرنیٹ سروس کی منسوخی کے باعث سافٹ ویئر ہاو ¿سز نے کثیر تعداد میں اپنے دفاتر وادی کشمیر سے ختم کر دیئے ہیں۔
کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے مطابق رواں سال کے آغاز تک دستکاری اور قالین کی صنعت سے منسلک تقریباً70ہزار لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔کشمیر چیمبر آف انڈسٹری کا کہنا ہے کہ صرف قالین کی صنعت میں 50ہزار سے زیادہ نوکریاں ختم ہو چکی ہیں۔ عام طور پر قالین کے بیشتر آرڈربیرون ملک سے جولائی سے ستمبر کے دوران آتے ہیں، تاکہ وہ کرسمس تک قالین بنا کر آرڈر مکمل کر سکیں۔ تاہم بھارتی حکومت کی جانب سے نافذ کرفیو اور مواصلاتی رابطے منقطع ہونے کی وجہ سے اس مرتبہ قالین برآمد نہیں کیے جا سکے۔
بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت میں تبدیلی کے بعد مظاہروں سے بچنے کیلئے بھارتی سرکارکی جانب نافذ لاک ڈاو ¿ن نے ایجوکیشن سیکٹر کو بھی براہِ راست متاثر کیا۔ ناصرف یہ بلکہ کورونا وباءاور انٹرنیٹ سروس کی بندش نے بھی مقبوضہ کشمیر میں تعلیم کی فراہمی کو ناممکن بنا دیا۔ جس کے سبب تعلیم سیکٹر کو روازنہ کی بنیاد پر 88لاکھ روپے کا نقصان ہوا، جبکہ 5اگست 2019سے اب تک مقبوضہ کشمیر کا تعلیمی سیکٹر مجموعی طور پر 6ارب42کروڑ روپے کا نقصان اٹھا چکا ہے۔