یوم استحصال کشمیر:وادی پرخوں سے اٹھے گا دھواں کب تک

Published On 05 August,2021 10:34 pm

لاہور: (طارق حبیب)مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی داستان اتنی ہی پرانی جتنی خود اس خودساختہ جمہوری ریاست کی تاریخ۔ پوری دنیا بھارت کے ان مظالم کی گواہ ہے اور ان مظالم پر سراپا احتجاج بھی رہتی ہے۔ گرچہ مظالم کی یہ تاریخ سات دہائیوں پر مشتمل ہے مگر اس میں ایک خونیں موڑ اس وقت آیا جب بھارت نے5 اگست 2019 کو مقبوضہ کشمیر کی خودمختاری پر شب خون مارا اور آرٹیکل 370 اور35 اے کا خاتمہ کردیا۔ ان آرٹیکل کے خاتمے کے ذریعے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کردیا تھا جس کے تحت کشمیریوں کا اپنا علیحدہ آئین، علیحدہ پرچم اور تمام قانونی و آئینی معاملات میں علیحدہ نقطہ نظر رکھنے کی کم از کم آئینی طور پر ہی سہی، مکمل آزادی تھی۔

اس آرٹیکل کے خاتمے کے ساتھ کشمیریوں کے بنیادی حقوق جو بھارت ایک طویل عرصے سے سلب کیے ہوئے ہے ، قانونی و آئینی طور پر بھی ختم کردئے گئے تھے۔بھارت نے ان ارٹیکل کو ختم کرکے کشمیر پر اپنے تسلط کو مضبوط کرنے کی کوشش کی تھی مگر ہوا اس کے برعکس۔ ان آرٹیکل کے خاتمے نے کشمیریوں میں ایک نیا ولولہ اور ان کی تحریک آزادی میں ایک نئی روح پھونک دیا۔ ان آرٹیکلز کو ختم ہوئے دو سال ہوچکے ہیں۔ تاہم کشمیریوں نے ان دوسالوں میں جہاں بھارتی فوج نے ظلم و درندگی کی انتہا کردی وہیں کشمریوں نے بھارتی حکومت کو ایک دن بھی سکون کا سانس نہیں لینے دیا۔ بھارتی فوج نے آرٹیکلز کے خاتمے پر مقبوضہ کشمیر کے باسیوں کے ردعمل کو دبانے کے لیے مقبوضہ وادی کو ایک جیل خانے میں تبدیل کردیا۔ بنیادی ضروریات زندگی سے بھی محروم کردیا گیا۔ گلی گلی گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور دھماکے معمول بن گئے۔ مگر کشمیری استقامت کا پہاڑ بنے رہے۔ ان مظالم نے دنیا کو ایسے ایسے مناظر دکھائے کہ ہر زی روح کانپ اٹھی۔ منگولوں کی درندگی ، عیسائی آرتھوڈوکس کی حیوانیت، ہٹلر کی خونخواری اور اسرائیل کی شیطانیت کا اگر کہیں ملاپ دیکھنا ہو تو مقبوضہ کشمیر میں دیکھا جاسکتا ہےجو مسلسل بڑھتا جارہا ہے۔ گزشتہ دو سال میں خصوصی طور پر مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کو ایک ایسے خطے میں بدل دیا ہے جہاں کوئی گھرانہ ایسا نہیں ہے جس نے بھارتی فوجیوں کی درندگی کا نشانہ بننے والے اپنے کسی پیارے کو دفن نہ کیا ہو۔

مقبوضہ کشمیر کے باسی جب ایک جانب بھارتی فوج کے مظالم کا سامنے کررہے تھے ایسے ہی موقع پر کورونا کی وباءنے بھی وادی کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ بھارتی فوج کی درندگی کی انتہا یہ ہے کہ وہ کشمیریوں کو طبی امداد کے لیے اسپتالوں سے جانے سے بھی روک رہی ہے اور بدستور محاصرے میں لے رکھا ہے۔ دنیا میں کورونا وائرس نے تباہی مچائی تو کئی ممالک کو چند دنوں یا ہفتوں کے لیے اپنے مختلف شہروں میں لاک ڈاﺅن لگانا پڑ ا تھااور عالمی سطح پر بھی مختلف ممالک دنیا سے کٹ رہے تھے۔ اس دوران ان ممالک کی جانب سے معیشت کی تباہی، عوام کی بدحالی کی رپوٹس منظر عام پر اتی رہیں مگر مقبوضہ کشمیر میں محصور کشمیری گزشتہ دو سال سے غیر اعلانیہ لاک ڈاﺅن سے گزررہے ہیں اور بھارت نے اس خطے میں بلیک آﺅٹ کررکھا ہے جس کی وجہ سے دنیا کشمیر کی اصل صورتحال سے آگاہ نہیں ہوپارہی۔صرف دو سال میں بھارت میں سینکڑوں نوجوانوں کو شہیداور ہزاروں کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ اشیائے خوردونوش کی قلت کے باعث بھوک اور فاقوں کے حالات پیدا ہوچکے ہیں۔ کشمیری یہ سب کچھ برداشت کرتے ہوئے عالمی برادری کو جگانے کے لیے اپنی مزاحمت سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔جب بھارت نے آرٹیکل 370 منسوخ کیا تو کشمیری عوام سمندر کی طرح گلیوں محلوں ،سڑکوں چوراہوں پر جمع ہوکر فیصلے کے خلاف مظاہرے شروع کردیے۔ بھارت نے اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے لاک ڈاﺅن کا اعلان کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو لگا دیا۔بھارت فوجی طاقت کے ذریعے کشمیریوں کا احتجاج سے روکنے کی کوششیں کررہا تھا مگر اس میں ناکام رہا۔ کشمیری کسی شہر میں بھی بھارتی فوج کو خاطر میں نہیں لارہے تھے۔ بھارتی حکومت کی جانب سے فوری طور پر مقبوضہ کشمیر میں مواصلات کا نظام بند کردیا گیا ،، ٹرانسپورٹ، مکمل طور پر روک دی گئی۔ کاروبار زندگی ختم کردیا گیا۔ غرض یہ کہ کشمیریوں کو گھروں میں محصور کرکے گلیوں میں فوجی اہلکار تعینات کردئے گئے۔بھارت کی جانب سے کشمیریوں پر مسلط کیے گئے اس لاک ڈاﺅن میں انٹرنیٹ سروسز کی معطلی کے ذریعے بیرونی دنیا سے کشمیریوں کا رابطہ ختم کردیا گیا تھا۔ کشمیری کی دائیں اور بائیں بازو کی مقامی قیادت کو گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیاتھا۔ ان اقدامات کی وجہ سے اشیائے خردونوش کی قلت پیدا ہوگئی، اسپتالوں میں مریضوں کو ادویات کی قلت کے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں کی عدم دستیابی کا بھی سامنا کرناپڑرہا تھا۔ مظاہرین کو روکنے کے لیے بغیر کسی روک ٹوک کے گولیاں برسائی جارہی تھیں جس سے جانی نقصان بڑھتا گیا۔


5اگست 2019 سے اب تک 421 کشمیریوں کو شہید کیا جاچکا ہے جبکہ 61 نوجوانوں کو دوران حراست شہید کیا گیااور 3903 نوجوانوں کو زخمی کیا گیا۔ اعدادوشمار کے مطابق بھارت کی جانب سے اس دو سال لاک ڈاﺅن کے دوران61 بچوں کو یتیم 23 خواتین کو بیوہ کردیا گیا۔آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد مظاہروں کے دوران تقریبا15 ہزار096 نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا۔ اس عرصے میں 490 نوجوانوں کے جسموں پر پیلٹ گنز سے چھلنی ہونے کے نشانات موجود ہیں جبکہ 151 نوجوان پیلٹ گنز کے چھرے لگنے سے دونوں آنکھوں سے جبکہ 21 نوجوان ایک آنکھ سے محروم ہوگئے۔ان دو سالوں میں بھارتی فوج نے جعلی مقابلوں میں اب تک سینکڑوں نوجوانوں کو شہید کردیا ہے۔ ان میں سے 4جنوری 2021کو سری نگر میں کالج کے طالبعلموں 19 سالہ زبیر احمد لون ، 16 سالہ اطہر مشتاق وانی اور 18 سالہ اعجاز مقبول کو بھارتی فوج نے کشمیری مجاہدین کا ساتھی قرار دیتے ہوئے شہید کردیا تھا تاہم بعد میں شہداءکے والدین نے مظاہرہ کیا اور بتایا کہ ان تینوں نوجوانوں کو بھارتی فوج نے گھروں سے اٹھایا تھا۔ بعدازاں انھیں سری نگر میں جعلی مقابلے میں شہید کردیا۔ اس واقعہ سے دس روز قبل 24دسمبر 2020 کو بھی ایک بھارتی فوجی کیپٹن پر الزام ثابت ہوا تھا کہ اس نے جولائی 2020 میں جعلی مقابلے میں تین کشمیری مزدوروں کو شہید کردیا تھا۔ ان واقعات نے جلتی پہ تیل کا کام کیا اور بپھری ہوئی کشمیری عوام کو جوالا مکھی بنا دیا۔ دوسری جانب بھارت نے عوامی ردعمل سے بچنے کے لیے مقبوضہ کشمیر میں غیر ملکیوں کی آمد پر پابندی عائد کرنے کےساتھ ساتھ گزشتہ دو سال سے بیشتر کشمیریوں کے بیرون ملک سفر بھی ممنوع قرار دے رکھا جبکہ مقبوضہ وادی کی 751 اہم شخصیات کی غیرملکی میڈیا سے باتچیت پر بھی پابندی عائد کی ہوئی ہے۔ بھارتی اقدامات کے باعث جہاں کشمیری معیشت کو تقریبا 4ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے وہیں اب تک 3 لاکھ سے زائد کشمیری بے روزگار ہوچکے ہیں۔ مواصلاتی نظام کی بندش سے کشمیری طلباءکے دو قیمتی تعلیمی سال ضائع ہوچکے ہیں۔


اس صورتحال میں ایک جانب تو بھارت عالمی براردی کو خاطر میں لائے بغیر مظالم کی انتہا کررہا تھا تو دوسری جانب اقوام متحدہ جیسے ادارے خاموشی اختیار کیے ہوئے تھے۔ بھارت کا ان عالمی اداروں کے حوالے سے ردعمل بھی خاصہ مایوس کن بلکہ ان اداروں کی توہین کے مترادف تھا۔ کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر ولکان بوزکر کے بیان پر بھارت نےسخت توہین آمیز انداز اختیار کیا تھا۔ولکان بوزکر نے کہا تھا کہ پاکستان کا فرض ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں زور شور سے اٹھاے۔ انہوں نے بھارت سے یہ بھی کہا تھا کہ وہ متنازعہ خطہ کشمیر کے حوالے سے یکطرفہ طور پر کسی بھی اقدام سے گریز کریں۔ اس بیان پربھارت کے ترجمان وزارت خارجہ اندم بگچی نے انتہائی توہین آمیز انداز اختیار کیا اور کہا کہ کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر ولکان بوزکر کے بیانات ناقابل قبول اور غیر ضروری ہیں۔


دوسری جانب مقبوضہ وادی کو کورونا کی وباءنے بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے مگر کشمیریوں کو طبی سہولیات تک پہنچنے کی اجازت نہیں ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق بھارت میں کنفرم کورونا کیسز کی تعداد5لاکھ 21ہزار 725ہے جبکہ اس وباءسے 7331اموات ہوچکی ہیں۔ بھارتی میڈیا کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی کورونا کے حوالے سے جو صورتحال بتائی جاتی ہے اس میں اعدادوشمار میں تحریف کی جاتی ہے تاکہ عالمی برادری کی تنقید سے بچا جاسکے۔


ان حالات کا مقبوضہ کشمیر کے نوجوانوں پر اتنا گہرا اثر ہوا ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان مسلح جدوجہد کی طرف تیزی سے راغب ہورہے ہیں۔ مقامی صحافیوں کے مطابق گزشتہ دو سالوں کے اعدادوشمار دیکھے جائیں تو 31ایسے نوجوان طالبعلم تھے جو ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کرچکے تھے اور اب وہ مسلح جدوجہد کا حصہ بن چکے ہیں جبکہ مختلف بھارت سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں تعلیم حاصل کرنے والے 73ایسے طالبعلم ہیں جن کے متعلق اطلاعات ملی ہیں کہ وہ واپس آکر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم دیکھنے کے بعد مسلح جدوجہد میں شامل ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ کالج کی سطح پر بھی نوجوانوں میں غصہ اور نفرت بڑھی اور تقریبا 113طالبعلموں کے حوالے سے تفصیلات ملی ہیں کہ وہ مسلح تحریک کا حصہ بن چکے ہیں۔ کشمیری صحافیوں کے مطابق نوجوان طالبعلموں کے مسلح جدوجہد میں شمولیت اختیار کرنے سے ایک نقصان یہ ہوا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کو جعلی مقابلوں کا جواز ہاتھ آگیا ہے اور وہ 15سے 30سالہ نوجوانوں کو دہشت گرد یا دہشت گردوں کے ساتھی و سہولت کار قرار دیکر جعلی مقابلوں میں ماررہے ہیں۔ گزشتہ دو سالوں کے دوران ایسے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔


حقائق یہ ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی جدوجہد جاری ہے اور بدستور شدت اختیار کرتی جارہی ہے جس کی وجہ سے بھارت کی نیندیں حرام ہوچکی ہیں اور مودی حکومت کو اب نئی سازشیں کرنی پڑرہی ہیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے 24فروری 2021 کو نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر کا دورہ کیا تو وادی میں یوم سیاہ منا کر کشمیریوں نے جمہوری کی دعویدار ریاست کے وزیراعظم کے چہرے پر کالک مل دی۔مودی کے دورے سے قبل ہی بھارتی فوج نے حریت کانفرنس کے تمام رہنماﺅں کو گھروں پر نظر بند کردیا تھا جبکہ عوام کو بھی گھروں پر مقید کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ تاہم عوام نے یوم سیاہ منایا اور ہڑتال کرکے دنیا کو باور کرادیاکہ بھارتی حکومت کی کیا اوقات ہے۔ رواں سال جولائی میں نریندرمودی نے بھارتی حامی کشمیری سیاسی رہنماﺅں کو نئی دہلی بلوا کر ان سے ملاقات کی اور انھیں ہدایت کی تھی کہ وہ کشمیر کے آئندہ انتخابات میں حصہ لیں۔ان رہنماﺅں کو یہ ہدایت بھی کی ہے کہ وہ کشمیری عوام کو نارملائز کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔


کشمیری عوام کسی بھارتی کٹھ پتلی کی بات سننے کو تیار نہیں ہیں۔ ان کی جدوجہد پہلے سے زیادہ شدید ہوگئی ہے جس کا ثبوت بھارتی میڈیا ہے جو ہرزہ سرائی کررہا ہے کہ کشمیری میں بھارت مخالف مظاہرے بدستور شدت اختیار کرہے ہیں تو دوسری جانب مسلح مذاحمت میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

آرٹیکل 370 کیا تھا؟
جموں و کشمیر کے راجہ ہری سنگھ کے ساتھ ساز باز کرکے بھارت نے ریاست کو مشروط طور پر اپنے ساتھ ملا لیا تھا اور اس وقت راجہ کو یقین دلایا تھا کہ جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ حاصل ہوگا۔ اس یقین دہانی کو آئینی بنانے اور کشمیریوں کے گرد جال کو مزید مضبوط کرنے کے لیے بھارتی آئین میں آرٹیکل 370 شامل کی گئی تھی۔ آرٹیکل 370 کو 17 اکتوبر 1949 کو ہندستان کے آئین میں شامل کیا گیا تھا۔
اس آرٹیکل کے مطابق؛
• جموں و کشمیر کو خصوصی ریاست کی حیثیت دی گئی۔

• جموں و کشمیر کو اپنا ایک الگ آئین بنانے اور ہندستانی آئین (آرٹیکل 1 اور آرٹیکل 370 کو چھوڑ کر) کو نافذ نہ کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

• جموں و کشمیر کے بارے میں پارلیامنٹ کے قانونی اختیارات کو پابند کرتا ہے۔

• ریاست کشمیر دفاعی،مالیاتی،مواصلاتی اور خارجہ امور کو چھوڑ کے کسی اور معاملے میں وفاقی حکومت ،مرکزی پارلیمان اور ریاستی حکومت کی توثیق و منظوری کے بغیر کشمیر میں بھارتی قوانین کا نفاذ نہیں کیا جا سکے گا۔

• شہریت ، جائداد کی ملکیت ، اور جموں و کشمیر کے باشندوں کے بنیادی حقوق کا قانون باقی ہندوستان میں مقیم باشندوں سے مختلف ہے۔ جس کے تحت دیگر ریاستوں کے شہری جموں و کشمیر میں جائیداد نہیں خرید سکتے ہیں۔

• مرکز کو مقبوضہ کشمیر میں مالی ایمرجنسی کا اعلان کرنے کا اختیار نہیں ہے۔

بھارتی آئین کی آرٹیکل 370 کے تحت مقبوضہ کشمیر کو خصوصی درجہ حاصل تھا اور اس آرٹیکل کے تحت مقبوضہ کشمیر کی علیحدہ اسمبلی، علیحدہ پرچم اور امور خارجہ و دفاع کے علاوہ تمام معاملات میں آزادی تھی۔بنیادی طور پر یہ آرٹیکل مرکز اور ریاست جموں و کشمیر کے تعلقات کے خدوخال کا تعین کرتا تھا اور بھارتی آئین کے تحت جو دفعات دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتی ہیں ان کا اطلاق کشمیر پر نہیں ہوتا تھا۔5اگست 2019 کو بھارت نے کشمیریوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہوئے اس آرٹیکل کو منسوخ کردیا اور ریاست کو مکمل طور پر اپنے قبضے میں لے لیا۔ اس آرٹیکل کی منسوخی کے ساتھ ہی مقبوضہ کشمیر کا یہ خصوصی اسٹیٹس ختم ہوگیا ہے اور اب ریاست پر بھارتی آئین پوری قوت اور تمام جذئیات کے ساتھ نافذ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

آرٹیکل 35 اے کیا تھا؟
آرٹیکل 370 کے خاتمے کے ساتھ ہی آرٹیکل 35 اے بھی ختم ہوگیا ہے۔ یہ آرٹیکل 1954 کے ایک صدارتی حکم کے تحت شامل کیا گیا تھا۔آرٹیکل 35 اے آرٹیکل 370 سے ہی نکلا ہے۔

اس آرٹیکل کے مطابق؛

• مقبوضہ کشمیر کی قانون سار اسمبلی کو یہ فیصلہ کرنے کا مکمل اختیار ہے کہ ریاست کے مستقل رہائشی کون ہیں۔
• مقبوضہ کشمیر کے رہائشیوں کو سرکاری ملازمت،جائیداد کے حصول،آبادکاری،اسکالر پشز اور امدار کی دیگر اقسام کے حق سے متعلق خصوصی حقوق اور مراعات ملتی ہے۔

• ریاست کی قانون ساز اسمبلی کو مستقل رہائشیوں کے علاوہ کسی دوسرے شخص پر کوئی بھی پابندی عائد کرنے کی اجازت ہے۔

جس کے تحت ریاست کے باشندوں کی بطور مستقل شہری کی تصدیق ہوتی تھی اور انھیں ریاست میں تمام حقوق ملنے کی یقین دہانی کرائی جاتی تھی۔ اس قانون کی رو سے جموں و کشمیر سے باہر کا باشندہ ریاست میں غیر منقولہ جائیداد کا مالک نہیں بن سکتا تھا اور نہ ہی یہاں سرکاری نوکری کرسکتا تھا۔ اس قانون کی وجہ سے انتہاپسند ہندﺅں کو کشمیرمیں باقاعدہ جائیداد کی خریداری اور سرمایہ کاری کی اجازت نہیں تھی۔تاہم اب بھارت سے کوئی بھی شخص جموں و کشمیر میں نہ صرف سرمایہ کاری کرسکتا ہے بلکہ جائیداد خرید کرکے مستقل شہری بھی بن سکتا ہے۔ اسی وجہ سے کشمیریوں کو خدشہ ہے کہ جس طرح اسرائیل نے فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کیا ہے اس طرح اب اس آرٹیکل کے خاتمے کے ذریعے بھارت کشمیریوں کو ان کی زمین سے بے دخل کرنا چاہتا ہے۔

آرٹیکلز کے خاتمے کا مطلب کیا ہے؟
بی جے پی کی حکومت کی جانب سے لائی جانے والی اس تبدیلی کے نتیجے میں جموں و کشمیر کو ایک ریاست کا درجہ حاصل نہیں رہا۔اب ریاست جموں و کشمیر کی جگہ مرکز کے زیرِ انتظام دو علاقے بن جائیں گے جن میں سے ایک کا نام جموں و کشمیر اور دوسرے کا لداخ ہو گا اور ان دونوں علاقوں کا انتظام و انصرام لیفٹیننٹ گورنر چلائیں گے۔جموں کشمیر میں قانون ساز اسمبلی ہو گی تاہم لداخ میں کوئی اسمبلی نہیں ہو گی۔ اس کے علاوہ اب جموں و کشمیر کے داخلہ امور وزیراعلیٰ کی بجائے براہِ راست وفاقی وزیرِ داخلہ کے تحت آ جائیں گے جو لیفٹیننٹ گورنر کے ذریعے انھیں چلائے گا۔انڈیا کے تمام مرکزی قوانین جو پہلے ریاستی اسمبلی کی منظوری کے محتاج تھے اب علاقے میں خودبخود نافذ ہو جائیں گے۔ اسی طرح انڈین سپریم کورٹ کے فیصلوں کا اطلاق بھی اب براہِ راست ہو گا۔جموں و کشمیر کی ریاستی اسمبلی کی مدت بھی چھ کی جگہ پانچ برس ہو جائے گی۔کشمیر میں خواتین کے حوالے سے جو روایتی قوانین نافذ تھے وہ ختم ہو جائیں گے۔وفاقی حکومت یا پارلیمان فیصلہ کرے گی کہ جموں و کشمیر میں تعزیراتِ ہند کا نفاذ ہوگا یا پھر مقامی آر پی سی نافذ رہے گا۔

نازی ازم کی نظریاتی کوکھ سے جنم لینے والا عفریت۔۔۔ہندتوا
۔
ہندتوا کو ابتدائی طور پر سیاسی نظریہ قرار دیا گیا تھا اور ابتداءمیں اس میں مختلف سیاسی اور ہندو مذہبی کی کئی جماعتیں شامل تھیں۔ اب جب ہندتوا نامی یہ عفریت بھارت میں اپنے پنجے پوری طرح گاڑھ چکا ہے تو ہندووں کے علاوہ بھارت میں کوئی کسی اور مذہب کے پیروکار محفوظ نہیں ہیں۔مودی حکومت کے قیام کے بعد اس خونی نظریے کے پیروکاروں نے نام نہاد لبرل ملک کا اصل چہرہ دکھایا اور اقلیتوں پر زندگی تنگ کردی گئی ہے۔ ان واقعات میں بتدریج اضافہ ہوتا رہا ہے مگر گزشتہ دو سال کے دوران تو انتہائی تیزی سے اقلیتوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی ہے۔۔ مسلمان خاص طور پر اس کا نشانہ بنے۔ گزشتہ دو سال کے دوران 1157واقعات ہوئے ہیں جن میں اقلیتوں کو نشانہ بنایا گیا ۔ ان میں 1073مسلمان ، 32سکھ ، 41بدھ مت اور نچلی زات کے ہندو مارے گئے۔

ہندوتوا میں آر ایس ایس کے علاوہ ہندو مہا سبھا ، وشوا ہندو پریشد اور دیگر انتہا پسند ہندو تنظیمیں شامل ہیں اور ان جماعتوں کو مجموعی طور سنگھ پریوار کہا جاتا ہے۔ سنگھ پریوار کی جماعتیں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے پلیٹ فارم سے انتخابی سیاست میں حصہ لیتی ہیں۔ بی جے پی کے تمام سیاستدانوں کا تعلق آر ایس ایس یا سنگھ پریوار کی کسی نہ کسی جماعت سے ہوتا ہے ان کا بنیادی نعرہ ہندو راشٹرا (ہندو مملکت) اور اس کیلئے ہندوتوا کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ہندو رضاکار تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کا باقاعدہ قیام 1925 میں ہو۔ ا س تنظیم کے رضا کاروں کو باقاعدد دفاع کی تربیت دی جاتی ہے۔ اس کے قیام کے بعد ہندو مسلم فسادات میں اضافہ دیکھنے کو ملا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تنظیم انتہا پسند جنونی ہندوو ¿ں کی جماعت کے طور پر ابھری۔ تقسیم ہند کے دوران مسلمانوں کے قتل عام میں یہ تنظیم پیش پیش رہی۔ برطانوی دور حکومت میں اس تنظیم پر ایک مرتبہ اور تقسیم ہند کے بعد اس پر تین مرتبہ عقائد اور حرکات و سکنات کے باعث پابندیاں بھی عائد کی گئیں۔ بھارت کی تقسیم کے فورا بعد مہاتما گاندھی کو آر ایس ایس سے منسلک انتہاپسندوں نے 3 جنوری 1948 کو گولیاں مار کر قتل کردیا۔ گاندھی کی ہلاکت کے بعد یہ تنظیم زیر عتاب آئی اور 4 فروری 1948 کو بھارتی حکومت نے آر ایس ایس کو غیرقانونی قرار دے دیا۔ اس تنظیم نے 1949 میں پابندی کے خاتمے کے لیے اپنا آئین لکھا جس کی شق 3 اور 4 میں اپنی مذہب اور ثقافت کی بحالی کے لیے پرامن اور قانونی طریقے سے کوشش کرنے کا عہد شامل تھا۔ لیکن اس تنظیم کے ہفتہ اور ماہوار شائع ہونے والے مواد میں تنگ نظری اور عدم برداشت واضح تھی۔ قیام پاکستان کے بعد اس کی بھارتی مسلمانوں پر خصوصی نظر رہی۔ بھارتی مسلمانوں کو یہ تنظیم اپنے ادبی مواد میں اکثر ناقابل اعتبار قرار دیتی رہی ہے۔ انہوں نے قوم پرست مسلمان رہنماو ¿ں مولانا ابوالکلام آزاد اور رفیع احمد قدوائی پر دینی تعلیم پر زور دینے کی وجہ سے غدارانہ سرگرمیوں کے الزام بھی عائد کئے۔ آر ایس ایس پر دوبارہ پابندی سنہ 1975 میں اس وقت لگائی گئی جب اس وقت کی وزیرِ اعظم اندرا گاندھی نے تمام بنیادی حقوق معطل کرتے ہوئے تنظیم کی ساری لیڈرشپ کو جیل بھیج دیا۔آر ایس ایس نے سنہ 1980 کی دہائی کے اواخر میں اپنی ذیلی گروہوں کے ذریعے ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ ہندو مندر تعمیر کرنے کے لیے ایک بہت بڑی مہم چلائی۔ شدت پسند ہندو گروپوں بشمولِ آر ایس ایس کے حامیوں نے بابری مسجد کو دسمبر سنہ 1992 میں مسمار کر دیا۔ آر ایس ایس پر تیسری بار پابندی عائد کی گئی لیکن عدالت نے اس فیصلے کو رد کر دیا۔

دراصل ہندوتوا نظریے میں نسلی اور علاقائی برتری کا تصور ہے۔ آر ایس ایس رہنما ایم ایس گول واکراپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ ’ہندوستان ہندو ¿ں کی زمین ہے اور یہاں صرف ہندو ¿ں کو پھیلنے پھولنے کا حق ہے ۔ بھارت میں آباد تقریبا بیس کروڑ مسلمان ہندتوا کی بڑھتی تحریک سے خود کو انتہائی غیر محفوظ تصور کرنے لگے ہیں اور آئے دن کے حملوں سے دہشت کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس کی ایک بڑی مثال 2002 میں ہونے والے گجرات فسادات ہیں جب نریندر مودی وہاں چیف منسٹر تھے۔ ان فسادات میں ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام ہوا۔ سانحہ گجرات کے بعد ہی عالمی ذرائع ابلاغ میں نریندر مودی کو ’ قصائی‘ کے نام سے پکارا گیا تھا اور امریکہ نے ویزہ تک دینے سے انکار کردیا تھا۔ انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو انسانیت کا قاتل بھی قرار دیا تھا۔

آر ایس ایس کے عزائم کو بے نقاب کرتے ہوئے بزرگ کشمیری رہنما سید علی گیلانی نے مئی 2017 میں خبردار کیا تھا کہ راشڑیہ سوائم سیوک سنگھ جموں وکشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جموں کے بعد کشمیر آر ایس ایس کا اگلا ہدف ہے۔مقبوضہ کشمیر کے بارے میں نریندر مودی کے راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ سے متاثر نظریات کشمیریوں کو ان کے حق خودارادیت سے محروم کرنے ، مقبوضہ علاقے میں غیر انسانی لاک ڈاﺅن نافذ کرنے اور کشمیریوں کی جدوجہد کو دہشتگردی قرار دینے کے حوالے سے انتہائی واضح ہیں۔ مودی سرکار نے آر ایس ایس کے ذریعے مقبوضہ وادی میں ہندوو ¿ں کو بسانے کی سعی بھی شروع کر دی ہے تاکہ مسلمانوں کی اکثریت والے علاقے اقلیت میں بدل سکیں۔

اب آر ایس ایس کا ہندتوا نظریہ ایسے درندے کا روپ دھار چکا ہے جس کے منہ کو خون لگا ہوا ہے اور وہ مسلسل اقلیتوں کو چیر پھاڑ کر کھانے کی تاک میں رہتا ہے۔ عام مسلمانوں ، سکھوں ، عیساءیوں کو بھارت کی سڑکوں پر زندہ جلانا، لاٹھیوں سے مار مار کر قتل کرنا، کرنٹ لگا کر مارنا ، آر ایس ایس کے معمولات میں شامل ہوچکا ہے۔ تازہ اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران مسلمانوں پر ہونے والے حملوں کی تعداد 30 ہزار سے زائد ہے جبکہ سکھ مذہب سمیت دیگر اقلیتوں پر ہونے والے حملوں کی تعداد 11 ہزار 363ہے۔