واشنگٹن: (ویب ڈیسک) امریکا میں پاکستان کے سفیر اسد مجید خان نے کہا ہے کہ کسی ملک نے ابھی تک طالبان کو باقاعدہ طورپر تسلیم نہیں کیا، عالمی برادری کی تشویش دور کرنے اور کئے گئے وعدوں کی تکمیل کیلئے افغانستان کی نئی حکومت کی صلاحیت کا جائزہ لے رہے ہیں۔
”دی واشنگٹن ڈپلومیٹ” کو انٹرویومیں افغانستان کی صورتحال کے حوالہ سے پاکستانی سفیر نے کہا کہ یہ وقت ہے کہ ماضی سے سبق سیکھا جائے، ہمارا تسلسل کے ساتھ یہ موقف رہا ہے کہ افغان تنازعہ کا کوئی فوجی حل نہیں بلکہ اس ضمن میں سیاسی بات چیت درکار ہے، ہم نے یہ بھی واضح کیا کہ امریکی افواج کے ذمہ دارانہ انخلا سے امن عمل میں پیش رفت ہوگی، اسی وجہ سے پاکستان نے بین الافغان مذاکرات کی حمایت کی اور اس حوالہ سے اہم پیش رفت بھی ہوئی۔
انہوں نے کہاکہ افغانستان میں سکیورٹی صورتحال کنٹرول میں ہے، طالبان نے معافی کا اعلان کیا ہے اور کسی طرح کی انتقامی کارروائیوں میں ملوث نہیں ہوئے۔ خدشات کے برعکس مزید افغان مہاجرین پاکستان نہیں آئے ۔
دو عشرے قبل امریکا پر بدترین دہشت گرد حملوں کے متعلق سوال پر انہوں نے کہاکہ ہماری دلی ہمدردیاں سوگوار خاندانوں کے ساتھ ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا بھی بڑا نقصان ہوا، اس جنگ میں ہماری 80 ہزار سے زیادہ جانیں گئیں جبکہ معیشت کو 150 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا۔ ہم خود دہشت گردی کا نشانہ بنے، اس لئے متاثرین کا دکھ سمجھ سکتے ہیں، ہمیں امریکی عوام کی مشکلات کا ادراک ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کیلئے کے ہمارے عوام کو دوبارہ ایسا دن نہ دیکھنا پڑے، ہم اپنے شراکت داروں کے ساتھ کام کرنے کیلئے پرعزم ہیں۔
پاک امریکا تعلقات کے حوالہ سے سوال پر سفیر نے کہاکہ امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ہمیشہ بڑے اہم رہے ہیں، نائن الیون کے بعد سے ہم افغانستان کو مدنظر رکھتے ہوئے ساتھ رہے ہیں، افغانستان میں اپنے مفادات اور توقعات کے حوالہ سے ہم مشترکہ موقف رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ افغانستان میں گذشتہ چند عشروں سے حاصل ہونے والے فوائد کا تحفظ کیا جائے۔
انہوں نے کہاکہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے ساتھ ایک نئی حقیقت سامنے آئی ہے۔ عالمی برادری کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ طالبان کے ساتھ رابطہ میں رہا جائے یا نہیں مگر اس کا مطلب انہیں لازماًتسلیم کرنا نہیں۔ ہم نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا اور کسی اور ملک نے بھی ابھی تک طالبان کو باقاعدہ طور تسلیم نہیں کیا، ہم طالبان کی جانب سے عالمی برادری کی تشویش دور کرنے اور ان کے وعدوں کی تکمیل کیلئے افغانستان کی نئی حکومت کی صلاحیت کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ہم طالبان سے توقع کرتے ہیں کہ ہر فرد کے حقوق کا احترام کیا جائے اور یہ چاہتے ہیں کہ افغان سرزمین پاکستان سمیت کسی اور ملک کے خلاف استعمال نہ ہو، ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان میں انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کا تحفظ کیا جائے، سب سے اہم بات یہ ہے کہ انسانی بحران سے بچا جائے۔ پاکستان القاعدہ کے خاتمہ کیلئے قریبی اتحادی ملک ہے۔
پاک بھارت تعلقات اور مسئلہ کشمیر پر ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ بدقسمتی سے بھارت میں ایک انتہا پسند حکومت ہے جس نے ہماری تمام امن کوششوں کو رد کیا، ہمارے وزیراعظم عمران خان نے اپنے عہدہ کا حلف اٹھانے سے قبل بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ کھلے عام دوستی کا ہاتھ بڑھایا مگر افسوس کی بات ہے کہ انہوں نے فوجی مہم جوئی کا راستہ اختیار کیا جس کے نتیجہ میں مشکلات اور مظالم میں اضافہ ہوا۔ کشمیر کی صورتحال مسلسل خراب ہے۔ پاکستان اپنے تمام تنازعات روابط اور بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے۔ دونوں ممالک کے پاس امن کے سوا کوئی اور آپشن نہیں۔ پاک چین تعلقات کے حوالہ سے سوال پر انہوں نے کہاکہ چین کے ساتھ ہمارے قریبی تعلقات ہیں، اسی طرح امریکا کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں، امریکا پاکستانی برآمدات کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ملک ہے جو پاکستان کے لئے 3 ارب ڈالر سالانہ کی ترسیلات زر کے ساتھ تیسرا بڑا ملک ہے۔
ایک اور سوال پر انہوں نے کہاکہ وال سٹریٹ کے صحافی ڈینیئل پرل کا قتل ایک سنگین جرم تھا، میں نے ان کے سوگوار خاندان سے ذاتی طور پر اظہار تعزیت کیا۔کسی ماں کیلئے یہ صدمہ ناقابل برداشت ہوتا ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کئی مائیں اپنے بیٹوں سے محروم ہوئیں، ہمیں جاں بحق ہونے والے افراد پر افسوس ہے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ دوبارہ ایسا نہ ہو۔