اسلام آباد: (دنیا نیوز) الیکشن کمیشن میں سینیٹ الیکشن ویڈیو سکینڈل کیس کی سماعت کے دوران درخواست گزار فرخ حبیب، ملیکہ بخاری، کنول شوزب اور عالیہ حمزہ کے پیش نہ ہونے پر چیف الیکشن کمشنر برہم ہو گئے۔
چیف الیکشن کمشنر نے دورانِ سماعت ریمارکس میں کہا کہ کس بنیاد پر الیکشن کمیشن کو الزام دیا جاتا ہے؟ کیس میں 17 مرتبہ التواء ہو جس میں سے 10 مرتبہ التواء پی ٹی آئی والوں نے لیا۔
یوسف رضا گیلانی کے وکیل نے دلائل میں کہا کہ صرف میڈیا ٹرائل کیلئے کیس لٹکایا جا رہا ہے، گیلانی کیخلاف الیکشن حفیظ شیخ نے لڑا تھا،انہوں نے نہ الیکشن چیلنج کیا نہ میڈیا پر کوئی بیان دیا، تمام درخواست گزار انفرادی حیثیت میں آئے ہیں،تحریک انصاف نے بطور پارٹی درخواست نہیں دی، درخواست گزاروں کا یوسف رضا گیلانی کا حق دعوی ہی نہیں بنتا۔
ان کا کہنا تھا کہ پورے کیس میں گیلانی پر کوئی براہ راست الزام ہی نہیں، فرانزک کے بغیر ارشد ملک کی ویڈیو سپریم کورٹ نے بھی کارروائی نہیں کی۔
الیکشن کمیشن کے ممبر سندھ نثار درانی نے استفسار کیا کہ کیا اسٹنگ آپریشن کو بطور ثبوت تسلیم کیا جا سکتا ہے؟ جس پر گیلانی کے وکیل کا کہنا تھا کہ سٹنگ آپریشن کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی، بغیر اجازت کسی کی بھی ویڈیو بنانا جرم ہے، جج ارشد ملک کی ویڈیو بنانے والے بھی گرفتار ہیں یا ملک سے باہر ہیں۔
ممبر بلوچستان شاہ محمد جتوئی نے استفسار کیا کیا علی حیدر گیلانی نے ویڈیو بنانے پر کارروائی کی؟جس پر وکیل کا کہنا تھا کہ سیاسی نوعیت کا معاملہ تھا شاید علی حیدر نے رابطہ کیا ہو۔
گیلانی کے وکیل نے مزید کہا کہ الیکشن پر اعتراض ہو تو ٹربیونل سے رجوع کیا جا سکتا ہے، تحریک انصاف نے الیکشن ٹربیونل سے رجوع ہی نہیں کیا، اللیکشن کمیشن 60 دن بعد فیصلہ کرنے کا مجاز نہیں۔
اس پر ممبر سندھ نے کہا کہ کیس نمٹانے کی مدت تو نیب قانون میں بھی ہے لیکن فیصلے اسکے بعد ہوتے ہیں،الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے جواب الجواب کیلئے کیس 5 اپریل تک ملتوی کر دیا۔