اسلام آباد: (دنیا نیوز، ویب ڈیسک) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر اتوار کو بڑا سرپرائز دینگے۔ میری جان کو خطرہ ہے، اسٹیبلشمنٹ نے تین آفرز دیں، عدم اعتماد، استعفیٰ یا نئے انتخابات، اگر ہم عدم اعتماد جیت جاتے ہیں تو بڑا اچھا ہے قبل از وقت الیکشن کی طرف چلے جائیں گے۔عوام سے کہوں گا مجھے بھاری اکثریت دو ملک کو ٹھیک کریں گے، اکثریت سے آکرسارا گند صاف کروں گا۔
وزیراعظم نے سینئر صحافیوں کے ساتھ ملاقات کی، ملاقات کرنے والوں میں دنیا نیوز کے سینئر صحافی ایاز امیر، مجیب الرحمان شامی، اجمل جامی، کامران شاہد بھی شامل تھے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ لیگل پراسس کو استعمال کیا جا رہا ہے، ہر گیند تک لڑوں گا، اتوار کو بہت انجوائے کریں گے، تحریک عدم اعتماد ایک بہت بڑی بین الاقوامی سازش ہے، میری زندگی کو بالکل خطرہ ہے، اپوزیشن کی جانب سے کردار کشی کے حوالے سے کوئی آڈیو ٹیپ نکالی جاسکتی ہے۔
عمران خان نے کہا کہ اپوزیشن کی جانب سے میری کردار کشی بھی کی جا سکتی ہے، اپوزیشن کا ایک ماضی ہے ججز کی بھی مختلف ٹیپ نکالتے رہتے ہیں، نیب ایک آزاد ادارہ ہے، عدالتیں آزاد ہیں، خیبرپختونخوا کی عوام نے تحریک انصاف پراعتماد کیا۔ اوآئی سی کانفرنس کی وجہ سے لیٹر کو ہولڈ رکھا۔
میری جان کو خطرہ، میری اہلیہ کیخلاف بے بنیاد مہم چلائی گئی: وزیراعظم
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے کہا کہ مجھے مراسلے میں کہا گیا اگر عمران خان جیت گیا تو ملک کو بڑی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑے گا، اگر عمران ہار گیا تو پاکستان کو معاف کر دیں گے، مطلب اگلی حکومت آئی تو معاف کر دیں گے، اس کا مطلب ان کا ان سے رابطہ تھا، ان کے لوگ کیوں ان سے ملاقاتیں کررہے تھے؟ میرے پاس ساری رپورٹس ہے کونسا سیاست دان، کونسا صحافی سفارتخانوں میں جاتا تھا، مجھے ساری سازش کی مسلسل رپورٹ آرہی تھی، بیرون ملک میں کوئی تصور نہیں کر سکتا، کسی سفیروں سے کوئی سیاست دان ملے، یہ ان سے ملاقات ہی کیوں کرتے ہیں، آفیشل میٹنگ میں اس طرح کی دھمکی کی کوئی مثال نہیں ہے، ابھی اپوزیشن نے عدم اعتماد نہیں کی تھی اس سے پانچ ماہ پہلے پلاننگ ہو رہی تھی، اس سے زیادہ ملک کے معاملات میں مداخلت کیا ہو گی۔ کھلی دھمکی دی گئی کہا گیا رجیم چینج نہیں کریں گے تو یہ کریں گے، کوئی سوچ سکتا ہے کوئی ہندوستان میں اس طرح کی دھمکی دے، ابھی بتارہا ہوں یہ سازشی میرے خلاف کردار کشی کریں گے، میری اہلیہ کے خلاف بے بنیاد مہم چلائی گئی، سب کے سامنے کہہ رہا ہوں میری جان کو خطرہ ہے، یہ سارے ملے ہوئے ہیں، ان کوپتا ہے عمران خان چُپ کر کے نہیں بیٹھنے والا، تین ماہ پہلے ایک اینکرنے کہا ان پرپیسے چل رہے ہیں۔
عدم اعتماد ناکام ہوتا ہے تو نئے الیکشن ہوں گے
انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ نے مجھے تین آپشنز دی تھیں، عدم اعتماد، استعفی یا الیکشن کرالیں، ہم نے کہا استعفی نہیں دونگا، الیکشن سب سے بہترین طریقہ ہے، چاہتا ہوں عدم اعتماد والے دن غداروں کی عوام شکلیں دیکھیں، عدم اعتماد ناکام ہوتا ہے تو الیکشن ہوں گے، الیکشن میں دودھ کا دودھ اورپانی کا پانی ہو جائے گا۔ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے ساتھ تین سال کام کیا، میں کہہ رہا تھا سردیوں کا وقت ہمارے لیے مشکل ہے، ملک کی اکانومی کو تسلسل چاہیے تھا، میں یہ کہہ رہا تھا کہ سردیوں تک مشکل وقت تک پالیسی کو برقرار رکھنا چاہیے، فوج کا اپنا ایک ویو تھا، میرے تو کبھی ذہن میں بھی ایسی بات نہیں آئی، پاکستان کوایک مضبوط فوج کی بہت ضرورت ہے، فوج نہ ہو تو ملک ٹوٹ جائے۔
بدقسمتی سے اپوزیشن والوں نے اپنے کیسز کو مکمل نہیں ہونے دیا
عمران خان کا کہنا تھا کہ الیکشن بہترین طریقہ ہے استعفے کا سوچ بھی نہیں سکتا، عدم اعتماد پر تو کہوں گا میں تو مقابلے والا ہوں آخری گیند تک لڑونگا، چھانگا، مانگا کے دن چلے گئے، اب سوشل میڈیا کا زمانہ ہے، کرسی دینے والا اللہ ہے، وہی واپس لینے والا ہے، مجھے کوئی فکر نہیں، میں تو اپنے گھر میں رہتا ہوں، سوائے سیکیورٹی کے اپنے تمام اخراجات خود کرتا ہوں، بدقسمتی سے انہوں نے اپنے کیسز کو مکمل نہیں ہونے دیا، کبھی کمر درد کا بہانہ بنایا۔ واضح ہے سازش باہر سے ہے، قوم کو ضمیر بیچنے والوں کی شکلیں دکھانا چاہتا ہوں۔
عوام مجھے اکثریت دے ، سارا گند صاف کر دوں گا
انٹرویو کے دوران سوال پوچھا گیا کہ ووٹنگ والے دن اپنی اسٹرٹیجی مکمل کرلی ہے، اس پر جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کپتان ہمیشہ اپنی پلاننگ پوری کرتا ہے،اپوزیشن پرایسے کیسز بچ نہیں سکتے لیکن ڈیلے کر کے بچایا گیا، کیسز کو لمبا کھینچا گیا سارا پتا تھا لیکن ہم بے بس بیٹھے ہوئے تھے، عوام سے کہوں گا مجھے بھاری اکثریت دو ملک کو ٹھیک کریں گے، اکثریت سے آکرسارا گند صاف کروں گا۔
ان کا کہنا تھا کہ پیسے ملنے کی وجہ سے ہم کبھی کسی بلاک، کبھی کسی بلاک میں چلے گئے، مولانا فضل الرحمان، نوازشریف کے بڑے بھٹو کو قتل کرانے میں ملوث تھے، اب بھی یہ وہی سازش کر رہے ہیں، بیرونی قوتوں کو اندر کے میر جعفر، میر صادق کی ضرورت ہوتی ہے، جن لوگوں کا کوئی ضمیر نہ ہو دنیا ذلیل کرتی ہے، ایڈمرل مولن نے کہا ڈرون حملے پاکستان کی حکومت کی اجازت سے کرتے ہیں، امریکا کو پتا تھا ان کی اربوں کی جائیدادیں باہر ہے، ڈرون حملوں کے دوران امریکا کا ان پر ٹوٹل کنٹرول تھا۔
بیرونی سازش کا حصہ بننے والے قوم کے غدار ہیں
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اگر میری پارٹی غیر مقبول نہ ہو تو کیا خیبرپختونخوا میں لوکل گورنمنٹ الیکشن جیتتے، پوری دنیا میں مہنگائی کا مسئلہ ہے، کہتے ہیں نااہل ہیں لیکن دنیا میری کورونا کی پالیسی کی تعریف کر رہی ہے، دنیا میں پٹرول کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، شہبازشریف آ کر کیسے پٹرول کی قیمتیں کم کرے گا؟ لیگی صدر کے پاس پٹرول سستا کرنے کا کیا حل ہے، ہم نے پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیکس اکٹھا کیا۔ زندگی کا تجربہ ہے، ہم نے آخری گیند تک لڑنا ہے، ضمیر بیچنے والے 20،20 کروڑ لینے والے بیرونی سازش کا حصہ بن رہے ہیں، شہبازشریف نیشنل سکیورٹی کی میٹنگ میں نہیں آیا کیونکہ اس سازش کا حصہ ہے، ہمارے پاس شواہد ہیں، شہبازشریف آ کر کیوں نہیں چیک کرتے، بیرونی سازش کا حصہ بننے والے قوم کے غدار ہیں۔ پاکستان کی آزاد فارن پالیسی کے لیے کھڑا ہوں، اگر میرا پیسہ باہر پڑا ہو تو کیا، آزاد فارن پالیسی کے لیے بول سکتا ہوں، اگرہم عدم اعتماد جیت جاتے ہیں توبڑا اچھا ہے قبل از وقت الیکشن کی طرف چلے جائیں۔
مجھے ہٹا کر یہ سارا ملک کیسے چلائیں گے
عمران خان کا کہنا تھا کہ اگر مجھے ہٹا دیتے ہیں تو یہ سارے ملک کیسے چلائیں گے، شہباز شریف سے کسی قسم کی بات نہیں کر سکتا، لیگی صدر نے 16 ارب نوکروں کے اکاؤنٹ میں رکھا، قائد حزب اختلاف اتنے بے شرم ہیں، ملک کا وزیراعظم بننا چاہتا ہے، ان سے بات کرنے کا مطلب بدی کے ساتھ کھڑا ہونا ہے، مغرب میں شہبازشریف کی طرح اگر کسی کے خلاف کیسز ہو تو باہرنہیں گھوم سکتے، اپنے آپ کو جمہوری کہنے والے ملک کے کریمنل ہیں،
لندن میں حسین حقانی نے نواز شریف سے ملاقات کی
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ برصغیرکی ہسٹری ہے ہمیشہ باہر سے کنٹرول کیا گیا، اندر میر جعفر اور میر صادق ہوتے ہیں۔ ایران میں محمد مصدق آزاد خارجہ پالیسی لائے انہیں ’کو‘ کر کے ہٹایا گیا، بیرونی دنیا کو ذاتی مفادات کے لیے ملکی پالیسی لانے والے غلام چاہئیں، سازش کا اگست سے گیم چلنے کا آئیڈیا ہوگیا تھا، لوگ یہاں سے لندن جاتے تھے پلاننگ کا پتا تھا، نوازشریف نے لندن میں حسین حقانی سے ملاقات کی، میٹنگ تین مارچ کو ہوئی تھی۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حسین حقانی پاکستانی فوج کے بھی خلاف تھے، ہماری مضبوط فوج نہ ہو تو دشمن ہمارے ملک کے 3 ٹکڑے کر دے۔ مضبوط فوج نہ ہونے کی وجہ سے عراق، شام، لیبیا کو کمزورکیا گیا، پاکستان کو ایک مضبوط فوج کی بہت ضرورت ہے، کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جس سے مضبوط فوج کونقصان پہنچے، زرداری، نوازشریف نے سب سے زیادہ ملک کونقصان پہنچایا، اس کی بیٹی نے کھل کرفوج پرتنقید کی، اینٹی فوج لوگ کھل کر آرمی پر تنقید کرتے رہتے ہیں، میں کبھی فوج کے خلاف بات نہیں کرونگا، مشرف نے ان دونوں کو این آر او دیا۔
خواجہ آصف کو کہتا ہوں غلامی کرنی تھی تو آزادی کی کیا ضرورت تھی
عمران خان نے کہا کہ دس سالوں میں دونوں نے بڑی تباہی کی، مشرف نے این آر او ون دیا، ٹو مجھ سے مانگنے کی پوری کوشش کی۔ میں نے پہلے دن کہا حکومت یا جان چلی جائے این آراو نہیں دوں گا، یہ ساری کمپین این آراوکے لیے ہے، باہر کی قوتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے اس طرح کے کرپٹ لوگ چاہئیں۔ خواجہ آصف کا بیان سن کرحیرت ہوئی، خواجہ آصف سے کہتا ہوں اگرغلامی کرنی تھی تو آزادی کی کیا ضرورت تھی، یہ اپنے ملک کوغلام بنانے کے لیے تیارہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ واضح کردوں سیاست میں فیکٹریاں، پیسہ بنانے نہیں آیا، نظریہ پاکستان کے لیے سیاست میں آیا تھا، ان چوروں نے نظریہ پاکستان ہی بھلا دیا، چور خود اربوں پتی بن گئے، بیرونی طاقتوں کی پالیسی ان کو ناراض نہ کرنا ہے۔علامہ اقبالؒ نے خود دار ملک کا خواب دیکھا تھا،ایسا ملک بنائیں گے، ان ڈاکوؤں نے ہمیں ذلیل کیا، جنگ میں شرکت کرنے کے باوجود دنیا میں اوورسیز پاکستانیوں نے بڑی مشکلیں برداشت کیں، کسی ملک کے خلاف نہیں ہوں، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 80ہزارلوگ مروادیئے، پاکستان کو کیا فائدہ ہوا ایلیٹ کو ڈالرملنے سے فائدہ ہوا، میری خارجہ پالیسی میں پاکستانیوں کی عزت پہلے ہو گی، ساڑھے تین سالوں میں اوورسیزپاکستانیوں سے پوچھ لیا جائے ان کی عزت کرائی یا نہیں۔
ایک بڑا طاقتور ملک دورہ روس پر غصہ ہوگیا، کوئی ملک اس طرح دھمکی دے سکتا ہے
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ نئے پاکستان میں قانون کی حکمرانی، فلاحی ریاست، خودداری اور آزاد خارجہ پالیسی بنیادی ستون ہیں جو مادر وطن کی خودمختاری، ترقی اور خوشحالی کے ضامن ہیں، ماضی میں بیرونی امداد کیلئے ہم نے خودداری، قومی سلامتی اور معاشی مفادات دائو پر لگائے، بیرونی امداد کی وجہ سے اپنے عوام کے مفادات کا سودا نہیں کرنا چاہئے، اس بنا پر تشکیل دی جانے والی پالیسیوں کی سب سے بھاری قیمت عوام نے چکائی اور اس کا فائدہ اشرافیہ کو ہوا، ہمارے ساڑھے تین سالہ دور میں خارجہ پالیسی کو جو عزت ملی ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔
ان خیالات کا اظہار وزیراعظم نے اسلام آباد میں ”اسلام آباد سکیورٹی ڈائیلاگ” سے خطاب کرتے ہوئے کیا، اس موقع پر قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف نے بھی خطاب کیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ سکیورٹی ڈائیلاگ کے انعقاد پر ڈاکٹر معید یوسف کو مبارکباد پیش کرتے ہیں، یہ ملک کے مستقبل کیلئے اہم ہے، قومی سلامتی کے کثیرالجہتی مقاصد ہیں، جن ممالک میں غریبوں کے سمندر میں امیر لوگوں کا ایک چھوٹا جزیرہ ہو وہ ملک ہمیشہ غیرمحفوظ رہتے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ میں جب مدینہ کی ریاست کی بات کرتا ہوں تو اس کا تصور سمجھنے کی بجائے یہ کہا جاتا ہے کہ ووٹ لینے اور سیاست کیلئے مذہب کو استعمال کرتا ہوں، مدینہ کی ریاست کی بنیاد قانون کی حکمرانی اور فلاحی ریاست تھی، اسی پر انہوں نے دنیا پر حکمرانی کی اور تہذیب و تمدن بدلا، ہماری قومی سلامتی کی بنیاد بھی وہی ہے، اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے، جب تک پوری قوم اپنی قومی سلامتی کیلئے کھڑی نہیں ہوتی یہ 22 کروڑ کا ہجوم ہی رہے گا، فوج صرف محدود سکیورٹی دے سکتی ہے، عوام جب قوم بن جائیں تو وہ سب سے محفوظ ملک و قوم بن جاتے ہیں، کیوبا کی مثال سامنے ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی قومی سلامتی کے غیرمحفوظ ہونے کی سب سے بڑی وجہ غیرمساوی ترقی ہے جہاں امیر اور غریب میں فاصلے بڑھے، ایک محدود اشرافیہ نے وسائل پر قبضہ جمایا، غریب کو آگے نہیں آنے دیا، انگلش میڈیم نظام تعلیم کے ذریعے تفریق پیدا کی گئی اور یہ طبقہ سب پر حاوی ہو گیا، صحت اور تعلیم کا نظام تباہ ہوا، صرف امیر کیلئے اچھے ہسپتال یا بیرون ملک علاج کی سہولت میسر تھی، بیروزگاری اور غربت پر ریاست کی جانب سے کوئی مدد نہیں کی جاتی تھی۔
وزیراعظم نے کہا کہ قانون کی حکمرانی کے بغیر دنیا کا کوئی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا، جہاں عوام کو اپنے جان و مال کی حفاظت حاصل ہوگی وہاں وہ عوام ریاست کے امور میں حصہ دار بنیں گے۔ اسی تفریق کی وجہ سے ماضی میں ہندوستان فتح کرنے والے بغیر کسی مزاحمت کے دہلی پہنچتے تھے، جہاں عوام کا مفاد نہیں تھا وہاں وہ مزاحمت نہیں کرتے تھے، قبائلی علاقوں میں جرگہ سسٹم کی وجہ سے وہ اپنی آزادی کیلئے مل کر لڑتے تھے، افغانستان نے بیرونی حملہ آوروں کے خلاف ہمیشہ مزاحمت کی۔ وزیراعظم نے کہا کہ وہ با بار اپنی قوم کو اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کا حوالہ دیتے ہیں جس میں بتایا گیا کہ 1600 ارب ڈالر سالانہ غریب ممالک سے منی لانڈرنگ کے ذریعے امیر ملکوں میں منتقل کئے جاتے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کو اپنے قیام کے فوری بعد مہاجرین سمیت دیگر بڑے مسائل کا سامنا تھا لیکن اس کے باوجود 1960 کی دہائی میں پاکستان ترقی کے راستے پر گامزن تھا، بعدازاں بڑے پیمانے پر کرپشن کی وجہ سے ملک اس راستے سے ہٹ گیا۔ تیسری چیز خودداری اور آزاد خارجہ پالیسی ہے، بیرونی انحصار کی وجہ سے ہمارا بڑا نقصان ہوا اور ہم اپنی صلاحیتوں سے خاطر خواہ استفادہ نہیں کر سکے۔ ہم نے اپنی حماقتوں کا جائزہ لینے کی کوشش نہیں کی، آزاد خارجہ پالیسی سے قوم بنتی ہے، اس میں قوم کا مفاد اولین ترجیح ہوتی ہے، ہم نے کبھی اس بات کا جائزہ نہیں لیا کہ افغان جہاد میں شراکت داری سے ہم نے کیا کھویا کیا پایا، اپنے افغان بھائیوں پر بیرونی حملہ آوروں کے خلاف ہم نے ان کی مدد کی لیکن اس کا غیرجانبدارانہ تجزیہ نہیں کیا گیا کہ کیا ہم نے اس جنگ میں افغانوں کی مدد کیلئے شرکت کی یا یہ شراکت داری ڈالروں کیلئے تھی، اگر ہم نے ڈالروں کیلئے یہ کیا تو ہم نے ملنے والی امداد سے بہت زیادہ نقصان کیا، 50 لاکھ افغان مہاجرین کا سامنا کرنا پڑا، فرقہ واریت، منشیات کا سامنا کرنا پڑا، ملک میں کرپشن بڑھی، 2000ء کے بعد ہم نے اپنی پالیسی میں 180 ڈگری کا یو ٹرن لیا، ترقی پذیر ممالک ہم سے آگے نکل گئے، بیرونی امداد پر انحصار سے ہمارے لوگوں میں بہتری نہیں آئی بلکہ اس سے ملک کے مفاد کو قربان کیا گیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ آزاد خارجہ پالیسی کا حامل نہ ہونے والا ملک کبھی دنیا میں عزت نہیں پا سکتا اور نہ ہی اپنے ملک کے لوگوں کا مفاد عزیز رہا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے آزاد خارجہ پالیسی کیلئے کوششیں کیں، اپنے ملکی اور عوامی مفاد کو مقدم رکھنے کی کوشش کی، ہمارے ساڑھے تین سال میں خارجہ پالیسی کو جو عزت ملی ماضی میں کبھی نہیں ملی۔
انہوں نے کہا کہ روس کے حالیہ دورہ پر ایک طاقتور ملک ہم سے ناراض ہے، ہندوستان روس سے تیل کا خریدار ہے لیکن اس کی پوری مدد کی جا رہی ہے، برطانیہ کے ایک ذمہ دار کا بیان نظر سے گزرا کہ وہ بھارت کو آزاد خارجہ پالیسی کی وجہ سے کچھ نہیں کہہ سکتے جبکہ ہمارے ملک میں اقتدار کیلئے اچکنیں سلوانے والے میڈیا کو یہ انٹرویو دے رہے ہیں کہ امریکہ کے بغیر گزارا نہیں، انہی لوگوں کی وجہ سے ہم اس مقام تک پہنچے ہیں جنہوں نے معاشی مفادات قربان کئے، عوامی مفاد اور وقار کو دائو پر لگایا۔
وزیراعظم نے کہا کہ غیرت مند انسانوں کی ساری دنیا عزت کرتی ہے، ایک طاقتور ملک ہمیں کہتا ہے کہ اگر عدم اعتماد میں وزیراعظم کو شکست نہ ہوئی تو اس کے بہت برے نتائج نکلیں گے، کیا کسی آزاد ملک کو کوئی دوسرا ملک اس طرح دھمکیاں دے سکتا ہے؟ اندرونی معاملات میں ایسے مداخلت کر سکتا ہے؟ یہ سب ہماری غلطیوں کی وجہ سے ہوا ہے کہ ہم انہیں یہ باور کراتے رہے تھے کہ آپ کے بغیر ہم زندہ نہیں رہ سکتے، قومی سلامتی کیلئے قوم اور حکومت ایک ہو جائیں تو کوئی چیز ناممکن نہیں ہے۔ ہم نے اپنے دور حکومت میں ایسے کام کئے جو ترقی یافتہ ممالک بھی نہیں کر سکے، ہم نے ہر شہری کیلئے ہیلتھ کارڈ دیا، سماجی تحفظ کے پروگرام متعارف کرائے جن کا مقصد نچلے طبقے کو اوپر اٹھانا تھا۔ وزیراعظم نے کہا کہ آزاد خارجہ پالیسی میں کئی چیلنج آتے ہیں، ہمارے ایک پڑوسی ملک کی آزاد خارجہ پالیسی کی وجہ سے اسے داد دیتے ہیں جس نے اپنی خارجہ پالیسی میں عوامی مفاد کو مقدم رکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے سعودی عرب، ترکی اور ایران کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی، افغانستان میں امن عمل کو آگے بڑھانے میں مدد کی، یوکرائن روس تنازعہ میں ہماری غیرجانبداری کی وجہ سے یورپی یونین کونسل کے صدر اور یوکرائن کے صدر نے ٹیلی فون کرکے چین کے ساتھ مل کر اس تنازعہ کے حل میں مدد چاہی، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اسی سلسلے میں چین کا دورہ کیا اور وہاں روسی اور چینی وزراء خارجہ سے ملاقاتیں کیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ ایسا تب ہی ممکن ہے کہ آپ کسی عالمی بلاک کی سیاست کا حصہ نہ ہوں، قومی مفاد کو مقدم رکھیں، نئے پاکستان میں قانون کی حکمرانی، فلاحی ریاست اور آزاد خارجہ پالیسی بنیادی ستون ہیں، بیرونی امداد کی وجہ سے اپنے لوگوں کے مفادات کا سودا نہیں کرنا چاہئے، بیرونی امداد لے کر پالیسیاں بنانے کی سب سے بھاری قیمت ہماری عوام نے چکائی اور اس کا فائدہ اشرافیہ کو ہوا۔
قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس قومی ڈائیلاگ میں ایشیا کے سات ممالک کے قومی سلامتی کے مشیر شریک ہو رہے ہیں، اس ڈائیلاگ میں ایشیائی سکیورٹی میں تعاون پر غور ہوگا، ایسے فورمز پر اکثر سرکاری حکام شریک ہوتے ہیں تاہم ہم نے اس سے ہٹ کر بھی لوگوں کو دعوت دی ہے۔