پنجاب حکومت کا مستقبل کیا ہوگا ؟

Published On 19 May,2022 08:52 am

لاہور (سلمان غنی) 1973کے دستور کی شق63-Aکے تحت سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ جس میں کہا گیا ہے کہ منحرف ارکان کے ووٹ گنتی میں شمار نہیں کیے جاسکتے ایک بڑا فیصلہ ہے۔ اس فیصلے کے تحت فوری طور پر پنجاب میں وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز شریف کی حکومت کی سطح پر ان کے مستقبل پر سوالات اٹھ گئے ہیں کیونکہ مرکز میں تو پی ٹی آئی کے منحرف ارکان نے ووٹ نہیں ڈالے تھے لیکن پنجاب میں جو بڑی تبدیلی رونما ہوئی اس میںپی ٹی آئی کے صوبائی ممبران اسمبلی نے تو وزیر اعلیٰ کے لیے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار حمزہ شہباز کو ووٹ ڈالا تھا او ر یہ ہی وجہ ہے کہ اب کہا جارہا ہے کہ حالیہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور وزیر اعلیٰ حمز ہ شہباز کی حکومت کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔

ماضی میں دونوں بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی او رمسلم لیگ( ن) نے پارٹی سیاست اور حکومت کو درپیش مسائل کو بنیاد بنا کر یہ قانون سازی کی تھی کہ اہم انتخابی عمل میں بشمول وزیر اعلیٰ کوئی بھی پارٹی رکن پارٹی قیاد ت کی مرضی کے بغیر ووٹ نہیں ڈال سکے گا۔ حالیہ فیصلہ میں عدالت نے نااہلی کی مددت کا تعین کرنے کے لیے گیند پارلیمنٹ کی کورٹ میں ڈال دی ہے۔

پنجاب میں عملی طور پر حکومت کو ابتد ا ہی سے مشکلات کا سامنا ہے۔ گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ ، اسپیکر صوبائی اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی اور صدر مملکت عارف علوی نے پنجاب میں عملی طور پر سیاسی او رآئینی بحران پیدا کیاہوا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ وزیر اعلیٰ کے حلف میں بھی عدالت کو مداخلت کرنا پڑی اور عدالتی فیصلہ کے تحت ہی اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کو وزیر اعلیٰ پنجاب سے حلف لینا پڑا لیکن اس کے بعد بھی ابھی تک پنجاب میں کابینہ کی تشکیل او رحلف برداری ممکن نہیں ہوسکی کیونکہ پنجاب میں گورنر کا معاملہ لٹک گیا ہے اور موجودہ گورنر نے وزیر اعلیٰ کی سیاسی حیثیت کو ہی تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ سپریم کورٹ کے منحرف ارکان کے خلاف حالیہ فیصلہ کے بعد خود وزیر اعلیٰ کا انتخاب بھی سیاسی بحران میں تبدیل ہوگیا ہے۔ اگرچہ بہت سے قانونی ماہرین کا موقف ہے کہ عدالت کا فیصلہ ایک رائے کے زمرے میں آتا ہے او راس پر ضروری نہیں کہ عمل بھی کیا جائے جبکہ دیگر قانونی ماہرین کے بقول یہ فیصلہ ہی ہے او ر اسی پر عمل درآمد کرکے ہی آگے بڑھاجائے گا کیونکہ اگر یہ فیصلہ حتمی ہے تو ظاہر بات ہے کہ جن منحرف ارکان نے پنجاب میں حمزہ شہباز کو بطور وزیراعلیٰ ووٹ دیا تھا اس کو شمار نہیں کیا جائے گا اور اس حیثیت سے ان کو اعتماد کا ووٹ حاصل نہیں رہا یا ان کا وزیر اعلیٰ کا انتخاب کالعدم تصور ہوگا یاوزیر اعلیٰ کا انتخاب دوبارہ ہوگا۔

یہ بھی کہا جارہا ہے کہ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ پر مسلم لیگ( ن) یا حمزہ شہباز عدالت کے اس فیصلہ پر اپیل بھی کرسکتے ہیں۔اب دیکھنا ہوگا کہ مسلم لیگ( ن) کیاحکمت عملی اختیار کرتی ہے۔ابھی یہ بھی دیکھنا ہے کہ پنجاب میں منحرف ارکان کے بارے میں الیکشن کمیشن کا کیا فیصلہ آتا ہے او راس فیصلہ کے تحت کیا یہ منحرف ارکان ڈی نوٹیفائی ہونگے یا نہیں او راسی کے بعد ہی ان کے مستقبل کا فیصلہ بھی سامنے آسکتا ہے۔

دوسری جانب پی ٹی آئی کی جو تحریک چل رہی ہے او رجگہ جگہ روزانہ کی بنیاد پر جلسوں میں عمران خان ایک ہی مطالبہ کررہے ہیں کہ فوری طور پر ملک میں نئے انتخابات کا اعلان کیا جائے۔ ان کے بقول اگر نئے انتخابات کا مطالبہ فوری طور پر پورا نہیں کیا گیا اور نئے انتخابات کے لیے نگران حکومت کا اعلان نہیں ہوتا تووہ اسلام آباد کے دھرنے سے نہیں اٹھیں گے۔ ان کے حالیہ کامیاب جلسوں نے یقینی طو رپر حکومت پر دباو ٔڈالا ہوا ہے۔ اب ایک طرف پنجاب کی حکومت کا بحران ہے تو دوسری طرف عمران خان کی نئے انتخابات کی تحریک کا مطالبہ ہے۔ ملک کے سیاسی حلقوں میں نئے انتخابات پر بات چیت دیکھنے کو مل رہی ہے لیکن حالیہ حکومت او ران کی اتحادی جماعتوں او رکابینہ کے اجلاس میں یہ ہی فیصلہ ہوا ہے کہ یہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی او رانتخابات بھی اپنے وقت پر ہونگے او رانتخابات سے قبل انتخابی اصلاحات کے عمل کو یقینی بنایا جائے گا۔

حکومت نے عمران خان کی جانب سے نئے انتخابات کا فوری مطالبہ او رتاریخ کا تعین کو مسترد کردیا ہے۔ کیونکہ حکومت کا موقف ہے کہ کسی ایک جماعت کے دباؤپر ہم فیصلہ نہیں کریں گے او رانتخابات کے تعین کا فیصلہ حکومت او رتمام اتحادی جماعتیں دیگر جماعتوں کی مدد سے کریں گی۔ اس لیے اب دیکھنا ہوگا کہ حکومت اور عمران خان کی تحریک میں سے کون اپنی بات سیاسی طو رپر منوانے میں کامیاب ہوتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو لگ رہا ہے کہ اس وقت جو معاشی بحران ہے او راس سے جڑے سخت گیر معاشی فیصلے ہیں ان کا سارا بوجھ مسلم لیگ (ن) پر ڈالا جارہا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ( ن) کے سربراہ نواز شریف کا حکومت کو مشورہ ہے کہ اگر سخت فیصلہ کرنے ہیں تو سب اتحادی جماعتیں مل کرکریں او راگر ایسا نہیں کیا جاتا تو ہمیں انتخابات کا راستہ ہی اختیار کرنا ہوگا۔
 

Advertisement