لاہور: (علی مصطفیٰ، ویب ڈیسک) جرمنی کے شہر برلن میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے چار روزہ اجلاس کے بعد عالمی ادارہ نے کہا ہے کہ پاکستان گرے لسٹ سے نکلنے کے قریب ہے، اس نے تمام شرائط پوری کرلیں، 34 نکات پر مشتمل 2 ایکشن پلان کے تمام نکات پر عمل کر لیا ہے۔ اس دوران ہر کوئی جاننا چاہتا ہے آیا گرے لسٹ کیا ہے؟
گرے لسٹ سے متعلق بتانے سے پہلے آپ کو بتاتے ہیں کہ پاکستان کو کب اس لسٹ میں شامل کیا گیا، عالمی ادارہ نے پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کے دوران جون 2018ء میں پاکستان کا نام گرے لسٹ میں شامل کیا تھا۔ پاکستان کو 2019 کے آخر تک منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت سے متعلق 27 نکاتی ایکشن پلان پر عمل در آمد کے لیے کہا گیا تھا۔ اس فہرست میں ان ممالک کو شامل کیا جاتا ہے جو منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے رقوم کی فراہمی کو روکنے کے لیے مناسب کوششوں میں ناکام رہے ہوں۔ پاکستان اس سے قبل 2012 سے 2015 تک فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ میں رہ چکا ہے۔
گرے لسٹ کیا ہے؟
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) عمومی طور پر انسدادِ منی لانڈرنگ اور دہشتگردوں کی مالی معاونت سے متعلق قوانین اور ان کے نفاذ کی نگرانی کرتا ہے۔ جن ممالک کے قوانین اور ان کے نفاذ میں مسائل ہوں تو ان کی نشاندہی کی جاتی ہے۔ اگرچہ ایف اے ٹی ایف خود کسی ملک پر پابندیاں عائد نہیں کرتا مگر اس کے رکن ممالک خلاف ورزی کرنے والے ممالک پر اقتصادی پابندیاں بھی عائد کر سکتے ہیں۔
ایف اے ٹی ایف ممالک کی نگرانی کے لیے لسٹس کا استعمال کیا جاتا ہے جنہیں گرے لسٹ اور بلیک لسٹ کہا جاتا ہے۔ بلیک لسٹ میں ان ہائی رسک ممالک کو شامل کیا جاتا ہے جن کے انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت سے متعلق قوانین اور قواعد میں سقم موجود ہو۔ ان ممالک کے حوالے سے قوی امکان ہوتا ہے ایف اے ٹی ایف کے رکن ممالک ان پر پابندیاں بھی عائد کر سکتے ہیں۔
گرے لسٹ میں ان ممالک کو ڈالا جاتا ہے جن کے قوانین اور ان کے نفاذ میں مسائل ہوں اور وہ ایف اے ٹی ایف کے ساتھ مل کر ان قانونی خامیوں کو دور کرنے کے لیے اعادہ کریں۔ اس دوران پاکستا کو گرے لسٹ میں شامل کیا گیا، جبکہ پاکستان نے گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے کافی اقدامات کیے۔ ہمسایہ ملک بھارت ہر حال میں چاہتا تھا کہ پاکستان کو بلیک لسٹ میں کر دیا جائے۔
ایف اے ٹی ایف کے پاکستان سے مطالبات
ایف اے ٹی ایف کا پاکستان سے مطالبہ ہے کہ وہ منی لانڈرنگ کی روک تھام اور دہشت گردی کی مالی امداد کرنے والے لوگوں اور اداروں کے خلاف موثر اقدامات اٹھائے۔ پاکستان ایسے اقدامات بھی اٹھاتے ہوئے نظر آئے کہ وہ دہشت گرد گروہوں کے خطرات کی سنگینی کا ادارک کرتے ہوئے ان پر کڑی نظر رکھ رہا ہے۔
ایف اے ٹی ایف کا پاکستان سے یہ بھی مطالبہ ہےکہ غیرقانونی طور پر دولت اور اثاثے منتقل کرنے والے ذرائع کی شناخت کی جائے اور ان کے خلاف بھی کارروائی عمل میں لائی جائے۔
پاکستان کے اقدامات
پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ کا حصہ بنائے جانے کے بعد پاکستان میں سرمایہ لگانے والے ممالک کی تعداد قدرے کم ہو گئی تھی۔ مارچ 2021ء میں ہونے والے ریویو میں ٹیررسٹ فنانسنگ کے ادارے نے پاکستان کو گرے لسٹ میں باقی رکھتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان نے سفارشات کی تکمیل میں خاصی پیشرفت کی ہے۔
اسی دوران پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کے تمام نکات پر عملدرآمد کر کے ذمہ دار ریاست کا ثبوت دیا۔ افواج پاکستان نے اس میں بھی کلیدی کردار ادا کیا اور حکومت اور قومی اداروں کے ساتھ مل کر تمام نکات پر عملدرآمد یقینی بنایا، بھارتی کوشش تھی پاکستان کو ہر حال میں بلیک لسٹ کر دیا جائے، پاک فوج نے اس سازش کو بھی ناکام بنایا۔ ایف اے ٹی ایف کے تحت ٹیرر فنایسنگ کے 27 میں سے 27 پوائنٹ اور منی لانڈرنگ کے 7 میں سے 7 پوائنٹس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا۔ دونوں ایکشن پلانزکل ملا کر34 نکات پر مشتمل تھے۔
اینٹی منی لانڈرنگ اور کاونٹر ٹریرسٹ فائناسنگ پر مبنی اس ایکشن پلان کو 4 سال کی مسلسل کوششوں کے بعدمکمل کیا، پاکستان کو گرے لسٹ سے وائٹ لسٹ کی طرف گامزن کیا اس حوالے سے حکومت سے مشاورت کے بعد چیف آف آرمی سٹاف کے احکامات پر 2019 میں جی ایچ کیو میں DGMO کی سربراہی میں سپیشل سیل قائم کیا۔
جی ایچ کیو سیل نے جب اس کام کی ذمہ داری سنبھالی تو اس وقت صرف 5 نکات پر پیشرفت تھی اس سیل نے 30 سے زائد محکموں، وزارتوں اور ایجنسیز کے درمیان کوارڈینیشن میکنزم بنایا ہر پوائنٹ پر ایک مکمل ایکشن پلان بنایا اور اس پر ان تمام محکموں، وزارتوں اور ایجنسیز سے عمل درآمد بھی کروایا۔
جی ایچ کیو میں قائم سیل نے دن رات کام کرکے منی لانڈرنگ اور ٹیرر فائننسنگ پر ایک مؤثر لائحہ عمل ترتیب دیا، جس کی وجہ سے ایف اے ٹی ایف میں کامیابی حاصل ہوئی، پاکستان نے اپنا 2021 کا ایکشن پلان ایف اے ٹی ایف کی طرف سے مقرر کردہ ٹائم لائنز یعنی جنوری 2023 سے پہلے مکمل کر لیا۔
ایف اے ٹی ایف ٹیمیں ستمبر 2022ء تک پاکستان میں اینٹی منی لانڈرنگ (AML) اور کاونٹر ٹریرسٹ فائناسنگ (CFT) سسٹمز کی پائیداری اور ناقابل واپسی کو چیک کرنے کے لیے جلد ہی آن سائٹ وزٹ کریں گی، جس کے بعد 22 اکتوبر تک وائٹ لسٹنگ کی راہ ہموار ہو گی، پاکستان میں منی لانڈرنگ کے 800 سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے جن کی گزشتہ 13 مہینوں کے دوران تحقیقات مکمل کی گئیں۔
پاکستان ’گرے لسٹ‘ سے نکلنے کے قریب
ان تمام اقدامات کے بعد جرمنی میں جاری اجلاس کے دوران فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے تسلیم کیا کہ پاکستان نے 34 نکات پر مشتمل 2 ایکشن پلان کے تمام نکات پر عمل کر لیا ہے۔ اور تمام شرائط پوری کر لی ہیں تاہم پاکستان کو آج گرے لسٹ سے نہیں نکالا جارہا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کورونا صورتحال کا جائزہ لے کر جلد از جلد پاکستان کو دورہ کرے گا جس کے بعد پاکستان کو گرے لسٹ سے خارج کیا جائے گا۔
مارکس پلیئر نے پاکستان کی جانب سے کی گئیں اصلاحات کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ یہ پاکستان کی سلامتی اور استحکام کے لیے اچھا ہے۔ پاکستان کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ اس نے منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی فنڈنگ پر مؤثر طریقے سے قابو پالیا ہے۔
ایف اے ٹی ایف کے مطابق پاکستان نے اقوام متحدہ کی جانب سے نامزد کیے گئے دہشت گرد گروپوں کے سینئر رہنما اور کمانڈرز کے خلاف دہشت گردوں کی مالی معاونت کی تحقیقات میں بہتری کا مظاہرہ کیا ہے، اس کے ساتھ منی لانڈرنگ کی تحقیقات اور قانونی چارہ جوئی میں مثبت رجحان دیکھا گیا ہے۔ پاکستان نے 2021 کے ایکشن پلان پر 2021 میں وقت سے قبل ہی عمل کر لیا تھا۔
فیٹف کیا ہے؟
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس آن منی لانڈرنگ ایک عالمی ادارہ ہے جو جی 7 ممالک (امریکا، برطانیہ، کینیڈا، فرانس، اٹلی، جرمنی اور جاپان) کی ایما پر بنایا گیا، اس ادارے کا مقصد ان ممالک پر نظر رکھنا اور اقتصادی پابندیاں عائد کرنا ہے جو دہشت گردی کے خلاف عالمی کوششوں میں تعاون نہیں کرتے اور عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دیے گئے دہشت گردوں کے ساتھ مالی تعاون کرتے ہیں۔
ایف اے ٹی ایف کس طرح کام کرتی ہے؟
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے قیام کا فیصلہ 1989ء میں تقریباً 33 سال قبل جی 7 ملکوں نے فرانس میں منعقدہ اجلاس میں کیا تھا، بعد ازاں جی سیون اتحاد کے ممبران کی تعداد 16 ہوئی جو اب بڑھ کر 39 ہوچکی ہے، ایف اے ٹی ایف میں 37 ممالک اور 2 علاقائی تعاون کی تنظمیں شامل ہیں۔ پاکستان ایف اے ٹی ایف سے وابستہ ایشیا پیسیفک گروپ کا حصہ ہے، اس تنظیم کی براہِ راست اور بالواسطہ وسعت 180 ممالک تک ہے۔
ایف اے ٹی ایف ایک ٹاسک فورس ہے جو حکومتوں نے باہمی اشتراک سے تشکیل دی ہے۔ ٹاسک فورس کے قیام کا مقصد منی لانڈرنگ کے خلاف مشترکہ اقدامات تھا، امریکا میں 11 ستمبر 2001ء کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملوں کے بعد یہ ضرورت محسوس ہوئی دہشتگردی کیلئے فنڈز کی فراہمی کی بھی روک تھام کے لیے مشترکہ اقدامات کی ضرورت ہے، جس کے بعد اکتوبر 2001 میں ایف اے ٹی ایف کے مقاصد میں منی لانڈرنگ کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی فنانسنگ کو بھی شامل کرلیا گیا۔ اپریل 2012 میں بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کی فنانسنگ پر نظر رکھنے اور اس کی روک تھام کے اقدامات پر عملدرآمد کروانے کی ذمہ داری اسی ٹاسک فورس کے سپرد کی گئی۔
ایف اے ٹی ایف منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی فنانسنگ کے حوالے سے دنیا بھر میں یکساں قوانین لاگو کروانے اور ان پر عمل کی نگرانی کرنے کا فریضہ سرانجام دیتی ہے۔
اس کی کوشش ہے کہ اس کے ہر رکن ملک میں مالیاتی قوانین کی یکساں تعریف پرعملدرآمد کیا جائے اور ان پر یکساں طور پر عمل بھی کیا جائے تاکہ دنیا میں لوٹ کھسوٹ سے حاصل ہونیوالی دولت کی نقل و حرکت کو مشکل ترین بنا دیا جائے اور لوگوں کیلئے اس قسم کی دولت رکھنا ناممکن بن جائے۔
ایف اے ٹی ایف نے اپنے قیام کے پہلے 2 برسوں میں تیزی سے کام کیا اور 1990ء تک تجاویز کا پہلا مسودہ تیار کیا۔ بعدازاں 1996ء، 2001ء، 2003ء اور 2012ء میں یہ اپنی دیگر تجاویز بھی پیش کرچکی ہے۔