بے روزگاری ایک عذاب

Published On 01 August,2022 03:35 pm

لاہور: (سدرہ نورین) خالق کائنات نے انسان کو اس دنیا میں اشرف المخلوقات بنا کر بھیجا ہے۔تاکہ وہ اپنے رب کی عطاکردہ تمام نعمتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے روزگار کے ذرائع ڈھونڈ ے اور اپنی زندگی بآسانی گزار سکے۔ اگر انسان کو روزگار کے مواقع ہی نہ ملیں تو اس کیلئے زندگی گزارنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔اب یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرے۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ حکومت اپنے شہریوں کو ایسی مہارتیں سیکھنے کے مواقع بھی فراہم کرے جو انہیں روزگار حاصل کرنے میں مدد گار ثابت ہوں۔

بے روزگاری کا عام تصوردیہی اور غیر تعلیم یافتہ آبادی کوشامل کرتا ہے لیکن حقیقت، حقیقت سے زیادہ دور نہیں ہوسکتی۔ کئی سالوں سے ملک بے روزگار ڈگری ہولڈرز کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھ رہا ہے۔ درحقیقت، فارغ التحصیل افراد میں بے روزگاری کی شرح بے روزگار افرادی قوت میں دوسروں کے مقابلے میں تقریباً تین گنا زیادہ ہے۔ لیبر فورس سروے 2017-18ء کے مطابق تقریباً 87 لاکھ سے زائد نوجوان بیچلر کی ڈگری رکھتے ہیں۔ ان میں سے 59 لاکھ سے زائد ’’معاشی طور پر فعال‘‘ ہیں جبکہ نو لاکھ ستر ہزاربے روزگارہیں۔ان اعداد و شمار کے مطابق گریجویٹس کی بے روزگاری کی شرح قومی اوسط 5.8 فیصد سے کہیں زیادہ ہے۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس‘‘ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 31فیصد سے زیادہ نوجوان اس وقت بے روزگار ہیں اور اس تعداد میں سے 51 فیصد خواتین ہیں، جبکہ 16 فیصد مرد ہیں، جن میں سے بہت سے پیشہ ورانہ ڈگریاں رکھتے ہیں۔پاکستان کے شہریوں کو بے روزگاری کا سامنا زندگی کے ہر شعبے میں ہے لیکن اگر میڈیکل اور انجینئرنگ کو پاکستان کے مشہور و معروف شعبے کہا جائے تو بجا ہو گا کیونکہ ان کا خیال ہر پاکستانی والدین اپنے بچوں کے ذہنوں میں بچپن سے ہی ڈال دیتے ہیں۔ان کے حالات بھی اچھے نہیں ہیں۔

پاکستان میں اگر انجینئرز کی بات کی جائے تو وہ بھی بہت سنگین صورتحال سے دوچار ہیں۔ ’’پاکستان انجینئرنگ کونسل‘‘ کی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں 50ہزار سے زائد انجینئرز بے روزگار ہیں۔ کچھ معاملات میں، گریجویٹ 2015، 2016 اور 2017ء میں ملازمت کے مواقع کی تلاش میں نظر آتے ہیں لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔وہ نوکریوں کا بے چینی سے انتظار کرتے ہیں لیکن ان کی پریشانی کو ختم کرنے والا کوئی نہیں ہے۔

بیچلرز کے بعد، بہت سے نئے انجینئروں کو بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو بعض صورتوں میں مہینوں تک پھیل جاتی ہے۔ تعلقات کی مدد سے کچھ خوش نصیبوں کو گریجویشن کے بعد پہلے مہینے میں کام مل جاتا ہے لیکن ہر کسی کے پاس ذرائع نہیں ہوتے اور نہ ہی وہ کافی خوش قسمت ہوتے ہیں۔

اسی طرح اگر طب کے شعبے کی بات کی جائے تو وہاں بھی حالات اچھے نہیں ہیں۔میڈیکل سٹوڈنٹس پانچ سال دن رات سخت محنت کر کے ڈگری حاصل کر تے ہیں لیکن وہ بھی اپنی قابلیت کے مطابق نوکری حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔پاکستان میں تقریبا ً114 میڈ یکل کالجز ہیں جہاں سے ہر سال 16ہزار ڈاکٹرز بنتے ہیںلیکن پھر بھی پاکستان کو ڈاکٹروں کی کمی کا سامنا ہے۔جس کی بہت سی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ انہیں روزگار کے مواقع نہ ملنا ہے ۔ جس کی وجہ سے بہت سے ڈاکٹر اچھے روزگار کی تلاش میں بیرون ملک چلے جاتے ہیں۔ یہ تو سائنسز کے گریجویٹس کے حالات ہیں لیکن اگر بی اے اور ایم اے کرنے والوں کی بات کی جائے تو وہاں حالات اس سے بھی بدتر ہیں جن میں سے چند خوش قسمت کسی ریفرنس کی بدولت نوکری حاصل کر لیتے ہیں اور باقی سارا دن دفتروں کے چکر کاٹ کاٹ کر کوئی ٹھیلا لگا لیتے ہیں یا پھرکسی شارٹ کٹ کی تلاش میں سارا دن خوابوں کی دنیا میں گزار دیتے ہیں لیکن ناکام رہتے ہیں۔

پاکستان میں بیروزگاری کی بہت بڑی وجہ ووکیشنل اداروں کی کمی ہے۔اگر ووکیشنل ادارے ہیں بھی تو آٹے میں نمک کے برابر ۔کسی بھی ملک کی نوجوان نسل ہی اس ملک کے مستقبل کے معمار ہوتے ہیں اور وہ ملک کی اکنامکس میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں لہٰذا ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی نوجوان نسل کو ہنر مند بننے کے ایسے مواقع فراہم کرے جو ان کو ان کی آنے والی زندگی میں نہ صرف اپنے لیے بلکہ ریاست کیلئے فائدہ مند ثابت ہوں۔

دنیا بھر میں بشمول یورپین ممالک میں سکول لیول سے ہی کرئیر کونسلنگ کی جاتی ہے انہیں اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ پریکٹیکل زندگی کے بارے میں بھی بتایا جاتا ہے۔وہ ووکیشنل اداروںسے اپنی پسند کا کورس کر کے ہنر مند بن جاتے ہیں اور نہ صرف اپنے لیے بلکہ اپنے ملک کیلئے بھی فائدہ مند ثابت ہو تے ہیں۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک تمام تعلیمی اداروں میں کمپیوٹر کی تعلیم روایتی رٹے کے بجائے پریکٹیکل شکل میں عام کریںاور تمام سکولوں میں بچوں کی کرئیر کونسلنگ کریں تاکہ نوجوان نسل ’’رٹے‘‘ اور ’’ہنرمندی‘‘ کے فرق سے بخوبی واقف ہو سکے۔

سدرہ نورین فری لانس صحافی اور بلاگر ہیں، ان کے متعدد مضامین ملک کے موقر جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔
 

Advertisement