قوموں کے عروج وزوال کے اسباب

Published On 19 August,2022 09:29 am

لاہور: ( ڈاکٹر مفتی محمد کریم خان) قوم کسی خطہ ارض میں رہنے والا وہ گروہ ہے جس میں نسلی، لسانی اور تاریخی وحدت پائی جاتی ہو اور جو ایک نظام کے تحت متحد ہو۔ قوم کسی ریاست، علاقے، ملک یا وہاں موجود باشندوں کی طرف اشارہ ہے یعنی قوم اس بات کا ثبوت ہے کہ کوئی جگہ موجود ہے جہاں لوگ اپنی تاریخ اور تہذیب و ثقافت کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں۔

گزشتہ اقوام کاعروج وزوال: فارسی کی مشہور ضرب المثل ہے کہ ’’ہر عروج کو زوال اور ہر زوال کو عروج ہے‘‘۔ اسی فلسفے کے تحت قوموں اور تہذیبوں کا عروج و زوال بھی ایک فطری عمل ہے جس میں ہر دور کے اعتبار سے کئی اسباب و عوامل کار فرماہوتے ہیں۔ انسانی تاریخ قوموں کے عروج و زوال کی ان گنت مثالوں سے بھری پڑی ہے، مثلاً بنی اسرائیل دنیا کی معزز و معتبر قوم تھی جس پر انعامات ِ خداوندی کی کثرت سے فراوانی تھی لیکن جب وہ نفس پرستی اور دینی و اخلاقی طور پر دیوالیہ پن اور قوانین و حدود ِالٰہی سے بغاوت کی مرتکب ٹھہری تو مغلوب ہو گئی۔ قرآن کریم نے بنی اسرائیل کی سرگزشت اور دیگر اقوام کے عروج و زوال کے واقعات بڑی صراحت سے بیان فرمائے ہیں جو آج بھی اقوامِ عالم کیلئے عبرت ہیں۔ اسی طرح روما سلطنت تقریباً ایک ہزارسال قائم رہنے کے باوجود بالآخر زوال پذیر ہوئی جس کی کئی سماجی اور معاشی و اقتصادی وجوہا ت تھیں۔ علاوہ ازیں ایسی اقوام کی طویل فہرست ہے جنہوں نے عروج کے بعد اپنی بد اعمالیوں اور کمزوریوں کے سبب زوال کا مزہ چکھا۔

بلاشبہ قوموں اور تہذیبوں کا عروج و زوال، ارتقا و انحطاط اور سماجی تغیر و تبدل تاریخ انسانی کے ہر عہد میں مختلف مسلم و غیر مسلم، اہل علم و دانش اور فلاسفہ کی بحث کا سنجیدہ موضوع رہا ہے۔ علامہ عبدالرّحمٰن ابنِ خلدون لکھتے ہیں: ’’جس طرح انسان پہلے بچپن پھر جوانی اور بڑھاپے کے ادوار سے گزرتا ہے اسی طرح اقوام بھی اسی نشیب وفراز سے گزرتی ہیں، جس طرح زندگی کیلئے موت شرط ہے اسی طرح قوموں پہ عروج و زوال لازم ہے (مقدمہ ابنِ خلدون)۔ مزید آگے ابنِ خلدون لکھتے ہیں کہ: ’’لوگوں کی خوشحالی یا پریشانی قوموں کے عروج و زوال میں بنیادی وجہ ہوتی ہے۔ ابن خلدون کے مطابق صرف معاشی تغیر ہی نہیں بلکہ اخلاق، انسٹیٹیوٹ، نفسیاتی پریشر، سیاست، سماجی اور جغرافیائی عناصر تاریخ کے دھارے کو بدلتے ہیں یا زوال کی وجہ بنتے ہیں‘‘۔

بدعملی، بدخلقی و نافرمانی جزومشترک: جب کسی قوم میں بدعملی، بدخلقی اور نا انصافی اجتماعی طور پر آ جائے تو تباہی و بربادی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ جب ہم حیات انسانی کے ارتقاء پر نظر ڈالیں تو ہمیں اس کا رخ اجتماعیت کی طرف ہی نظر آتا ہے اور جب وہ فطرت کے خلاف چلیں، قانون قدرت کو بھلا دیں، نافرمانی و گستاخی کریں، خدا تعالیٰ کے متعین کردہ اصولوں سے روگردانی اور انحراف کریں تو خداتعالیٰ کی پکڑ میں آ جاتے ہیں۔ قومیں اجتماعی طور پر بدعمل ہو جائیں تو اس کی سزا دنیا میں ہی مل جاتی ہے۔ اس ضمن میں قرآن کریم میں مختلف قوموں کی تباہی کا ذکر کیا گیا ہے۔ جن میں یہ برائیاں پائی جاتی تھیں۔ درج ذیل چند آیات میں اس کا ذکر آیا ہے۔(1) ’’کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ان سے پہلے ہم نے کتنی ہی قومیں ہلاک کر دیں، مزید یہ کہ اور ان کے بعد ہم نے دوسری قوموں کو پروان چڑھایا (سورۃ الانعام: 7 )۔ (2)’’ اور یقیناً ہم نے تم سے پہلے کتنے ہی زمانوں کے لوگوں کو ہلاک کر دیا تھا جب انہوں نے ظلم کیے حالانکہ ان کے پاس ان کے رسول کھلے کھلے نشانات لے کر آئے اور وہ ایسے تھے ہی نہیں کہ ایمان لے آتے۔ اسی طرح ہم مجرم قوم کو جزا دیا کرتے ہیں‘‘ (سورۃ یونس: 14 )۔

قرآن کریم کے مطالعہ سے یہ بات ثابت ہے کہ قدرت قوموں کے عروج و زوال اور تباہی و بربادی کے اصولوں کے اطلاق میں قوموں کے درمیان فرق نہیں کرتی۔ جو قوانین اور اصول یہود و نصاریٰ کیلئے ہیں وہی امت مسلمہ کیلئے ہیں۔ جو ضابطے اہل کفر کیلئے ہیں، وہی اہل ایمان کیلئے ہیں۔ قرآن کے اصول اٹل ہیں ان میں کسی قسم کی تبدیلی ممکن نہیں۔

مسلم اقوام کے عروج و زوال: ملت اسلامیہ ایک عظیم الشان ماضی اور منفرد تاریخ کی حامل ہے کیونکہ مسلمانوں کی وابستگی اور فیضان کا منبع کتاب ہدایت اور سیدالانبیاء خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰﷺکی ذاتِ قدسیہ ہے۔ اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں پر ایک ایسا دور گزرا ہے جب وہ علمی و فکری، ادبی و سائنسی، سماجی و اخلاقی اور تہذیبی و ثقافتی لحاظ سے بامِ عروج پر تھے۔ خلافتِ راشدہ، خلافتِ عباسیہ، سلطنتِ اندلس، سلطنتِ سلجوقیہ اور سلطنتِ عثمانیہ (جو 1517ء میں حجاز کی فتح کے بعد میں خلافتِ عثمانیہ میں تبدیل ہو گئی)۔ مسلمانوں کے عروج کی ایسی محیرالعقول مثالیں ہیں کہ جب مسلمان علم و حکمت، آرٹ، فنونِ لطیفہ، ایجادات، طرزِ حکومت و معاشرت، آئین سازی، جمہوریت، ریاستی نظم و نسق اور فتوحات کے میدان میں دنیا کو لیڈ کر رہے تھے اور یہ مسلم نشاۃ ثانیہ اور شوکت و تجمل کا دور تھا لیکن آہستہ آہستہ مسلمان زوال کی طرف بڑھنے لگے۔ مسلمانوں کا باقاعدہ زوال 11ویں صدی ہجری میں شروع ہو ا جس کے کئی اسباب اور وجوہات تھیں۔ تاریخِ جدید میں مغلیہ سلطنت برصغیر میں مسلمانوں کے عروج اور شوکت کی آخری کڑی تھی جو ایک طویل عرصہ تک قائم رہی لیکن بالآخر زوال پذیر ہوئی۔ محققین کے مطابق کمزور سیاسی و دفاعی منصوبہ بندی، علوم و ایجادات کی سرپرستی کرنے سے غَفلت، اخلاقی اقدار کی نا پاسداری، بد دیانتی، سستی و کاہلی، ترکِ فرض، بہت حد تک آمدنی اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم، امت مسلمہ میں تضاد اور بے جا اختلاف مسلم اُمہ کے زوال کی بنیادی وجوہات ہیں۔ اس کے علاوہ قرآنی تعلیمات سے دوری بھی مسلمانوں کے زوال کی نشانیاں ہیں۔

57ممالک، کثیر زرمبادلہ، کثیر معدنی وسائل، کثیر ہیومن ریسورس، بہترین بری، فضائی و بحری افواج کے باوجود آج اُمتِ مسلمہ بحیثیتِ مجموعی زوال و پستی کا شکار ہے جس کی وجہ اپنے عظیم الشان ماضی اور اسلام کی تعلیمات و سنہری اصولوں سے غفلت و بیگانگی ہے۔ اسی لیے دوسری اقوام مسلمانوں پر سیاسی،معاشی و اقتصادی لحاظ سے غالب ہیں۔ مسلمان کم و بیش ایک ہزار سال تک دنیا کی ایک بڑی طاقت رہے ہیں۔ علم و حکمت، تدبیر و سیاست اور دولت و حشمت میں کوئی قوم اُن کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی۔ وہ پوری دنیا پر حکومت کر رہے تھے۔ یہ بادشاہی خدا نے اُنہیں دی تھی اور خدا ہی نے اْن سے چھین لی ہے۔ قرآن مجیدمیں ارشادباری تعالیٰ ہے: ’’(اے حبیبﷺ! یوں) عرض کیجئے: اے اللہ، سلطنت کے مالک! تْو جسے چاہے سلطنت عطا فرما دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے‘‘(آل عمران:26)َ

کتنی بڑی بڑی سلطنتیں گزریں جن کے زمانے میں کوئی تصور بھی نہ کرسکتا تھا کہ یہ بھی کبھی فنا ہوں گی لیکن اللہ، مالکْ الملک کی زبردست قوت وقدرت کا ایسا ظہور ہوا کہ آج ان کے نام و نشان مٹ گئے۔ یونان کا سکندرِ اعظم، عراق کا نمرود، ایران کا کسریٰ ونوشیرواں ، ضحاک، فریدوں ، جمشید، مصر کے فرعون، منگول نسل کے چنگیز اور ہلاکو خان بڑے بڑے نامور حکمران اب صرف قصے کہانیوں میں رہ گئے اور باقی ہے تو رب العالمین کا نام اور حکومت باقی ہے اور اسی کو بقا ہے۔ مسلمان اگر اِس عذاب میں مبتلا ہیں تویہ غیرآئینی معاملہ ہے نہ دوسروں کی سازش، جس طرح کہ ہمارے مذہبی اور سیاسی زعما بالعموم کہتے ہیں۔ اِس کے پیچھے اللہ کا قانون عزل و نصب کار فرما ہے۔

قرآن وسنت کوپس پشت ڈالنا:مسلمانوں کی اس مادی دنیامیں ناکامی اورزوال کابنیادی سبب یہ ہے کہ مسلمان کتاب الٰہی کے حامل بنائے گئے تھے۔ یہ محض کتاب نہیں ہے، یہ اللہ کی میزان ہے جو اِس لیے نازل کی گئی ہے کہ دین کے معاملے میں تمام حق و باطل کا فیصلہ اِسی پر تول کر کیا جائے۔ مسلمان اپنے تمام اختلافات اِس کے سامنے پیش کریں اور جو فیصلہ اِس کی بارگاہ سے صادر ہو جائے، بے چون و چرا اُسے قبول کر لیں۔ یہ اْن کے علم و عمل کا مرکز ہو۔ ایمان و عقیدہ اور دین و شریعت کے تمام معاملات میں یہی مرجع بنے، ہر تحقیق، ہر رائے اور ہر نقطہ نظر کو ہمیشہ اِس کے تابع رکھا جائے۔

اصلاح امت کی کوشش کاناپیدہونا:امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کو چھوڑنا امت مسلمہ کیلئے ایک بدترین سانحہ سے کم نہیں کیونکہ یہ ایک بنیادی مقصد ہے۔امت مسلمہ کی بقاء و فلاح کیلئے اس کیلئے ہر سطح پر کام کرنے کی سخت ضرورت ہے جس کے چھوڑنے کے سبب ہم اپنے معاشرے کی تباہی و بربادی دیکھ رہے ہیں کہ ہمارا معاشرتی نظام مسائل و مشکلات کی دلدل میں دھنستا ہی چلا جارہا ہے۔یہ بھی ملت اسلامیہ کے زوال کا ایک اہم سبب ہے۔ صحابہ کرام ؓ اس فریضہ کو اداکرنے کیلیے چہار دانگ عالم میں پھیل گئے اورانہوں نے ساری زندگی امر بالمعروف اورنہی عن المنکر میں گزاردی لیکن افسوس آج ہم نے یہ فریضہ بھی چھوڑ دیا۔اس لیے ذلت ورسوائی ہمارا مقدر بن گئی۔

رسول اللہ ﷺکی سنت سے لاتعلقی: نبی کریمﷺکے طرز زندگی میں جو تعلیمات ہماری فلاح و بہبود کیلئے موجود ہیں ، ہم انہیں ہر سطح پر رخصت کئے جا رہے ہیں۔ صورت حال اس قدر بھیانک ہے کہ مساجد و خانقاہ بھی اب اس نعمت سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔عملی میدان میں آپ ﷺ کے پاکیزہ طریقے مفقود ہی ہوتے جارہے ہیں جو کہ ایک المناک باب بنتا جارہا ہے۔جس دن ملت اسلامیہ پلٹ کر نبی کریمﷺ کو اپنا قائد بناکر اور اپنی ذاتی اصلاح کی فکر اور اجتماعی معاملات میں اتحاد کی فکر، ہمارے مزاج کا حصہ بن جائیں گی اسی دن سے وہ عمل حقیقی معنوں میں شروع ہوگا جسے دعوت کہتے ہیں اور اسی معیار پر ہوگا جس معیار پر اسے ہونا چاہیے، ورنہ ہم جیسے مسلمانوں سے تو کارِ دعوت انجام پانا مشکل ہے۔

اخلاقی جرائم کی بہتات:مسلمانوں نے اپنی اخلاقی تربیت سے شدید غفلت برتی ہے۔ یہ اِسی کا نتیجہ ہے کہ جھوٹ، بددیانتی، غبن، خیانت، چوری، غصب، ملاوٹ، سود خوری، ناپ تول میں کمی، بہتان طرازی، وعدے کی خلاف ورزی، سفلی علوم سے اشتغال، ایک دوسرے کی تکفیر و تفسیق، قبروں کی پرستش، مشرکانہ رسوم، بے ہودہ تفریحات اور اِس نوعیت کے دوسرے جرائم اْن کے معاشروں میں اِس قدر عام ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ بنی اسرائیل کے یہی جرائم تھے جن کی بنا پر اللہ کے نبیوں نے اُن پر لعنت کی تھی اور وہ ہمیشہ کیلئے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور کر دیے گئے۔ مسلمان بھی اِسی حد تک پہنچ چکے ہیں۔

عدل و انصاف اور قانون کی بالادستی کافقدان : دینِ اسلام نے ہر معاملے میں عدل و انصاف کا حکم دیا ہے ۔ کوئی بھی ملک یا معاشرہ انصاف اور قانون کی حکمرانی کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا ۔ قانون کی حکمرانی سے معاشرے میں امن و استحکام اور عدل و انصاف رواج پکڑتا ہے اور ہر ایک کو یکساں حقوق میسر آتے ہیں جبکہ ناانصافی اور قانون کی حکمرانی کے بغیر معاشرے میں عدم استحکام کی ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے جو اسے جلد یا بدیر زوال کی طرف دھکیل دیتی ہے۔

سہل پسندی: یہ ایک حقیقت ہے کہ قوموں کی تعمیر و تشکیل میں افراد(بالخصوص نوجوان نسل) کا ایک غیرمعمولی کردار ہوتا ہے اور کسی بھی قوم کے افراد اس کے تنِ مردہ میں اپنی سعی و جستجو ،محنت و ہمت اور جذبہ قربانی سے نئی روح پھونکتے ہیں ، نوجوان سرمایہ تعمیر ِ ملت ہوتے ہیں۔ جب یہی نوجوان تن آسانی،سستی و کاہلی اور تغافل پسندی کا شکار ہو جائیں تو قوموں کے مفتوح و مغلوب ہونے میں ذرا بھی دیر نہیں لگتی ہے۔ قرآن کریم نے ایمان والوں کے غلبے کیلئے سستی و کاہلی کے خاتمے کو لازمی شرط قرار دیا ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ : ’’اور نہ سستی کرو اور نہ غم کھاؤ تم ہی غالب آؤ گے اگر ایمان رکھتے ہو‘‘(آل عمران:139)

عدم مساوات و برابری : اقوام کے زوال کاایک اہم سبب یہ ہے کہ ان کے اندرمساوات اوربرابری کاقانون ختم ہوجاتاہے۔اسلام ایک عالمگیر و آفاقی دین ہے جوکائنات میں انسانی حقوق کا سب سے بڑا داعی ہے۔ قرآن ِ کریم اور احادیث مبارکہ میں ہمیں انسانی مساوات و برابری اور انسانی حقوق کے تحفظ کی زبردست تلقین ملتی ہے۔ ’’تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے‘‘(مشکوٰۃ المصابیح، حدیث4999) کے تحت تمام نسلی لسانی،مذہبی و علاقی امتیازات کی تردید کرتا ہے یہی اسلام کا حسن ِ معاشرت اور اسلامی سماج کا اساسی اصول ہے۔

اور جو فرد معاشرے میں مثبت کردار ادا کرتا ہے، اپنے ابنائے جنس کے حقوق کا پاس کرتا ہے اور خدمتِ خلق کے عمل میں سر گرم رہتا ہے وہی فرد اللہ کے نزدیک مکرّم ہے اور سماج میں عزت و احترام کا حقدار ہے۔ اسلام نے بنی نوع انسان کی وحدت و سالمیت کا تصور عطا کیا ہے۔ یہ تصور مستقل اور دائمی ہے کسی زمانے میں بھی کسی بھی ترمیم یا تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

ڈاکٹر مفتی محمد کریم خان صدر اسلامک ریسرچ کونسل ہیں، 20 سے زائد کتب کے مصنف ہیں، ان کے ایچ ای سی سے منظور شدہ 25 آرٹیکلز بھی شائع ہو چکے ہیں۔

 

Advertisement