پی ٹی آئی کی صوبائی حکومتوں کیخلاف کام ہو رہا ہے: خواجہ آصف

Published On 14 October,2022 07:53 pm

اسلام آباد: (دنیا نیوز) وزیردفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ آئین کے مطابق وقت سے پہلے انتخابات ہوسکتے ہیں لیکن اس کا دور دور تک کوئی نشان نہیں ہے۔ مختلف صوبوں میں پی ٹی آئی کی حکومتوں کے خلاف جب مناسب سمجھیں اس وقت جیسے وفاقی حکومت کو عدم اعتماد سے برطرف کیا تھا تو دیگر کے خلاف بھی کام ہو رہا ہے۔

اسلام آباد میں وفاقی وزیرمنصوبہ بندی احسن اقبال، وفاقی وزیراطلاعات مریم اورنگزیب، مصدق ملک اور عطااللہ تارڈ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ وزیراعظم شہباز سیکیورٹی سے متعلق اہم اجلاس میں شریک ہیں اس لیے میڈیا سے بات کرنے کی ذمہ داری مجھے دی گئی ہے۔

انہوں نےکہا کہ ہم عدالتوں کے سامنے سرخرو ہوئے، ہم قانون، اپنے حلقوں میں اور عوام کے نظروں میں سرخرو ہوئے۔ ہم نے پچھلے 5 سال ثابت کیا عدلیہ کا احترام کرتے ہیں، ہم نے عدالتیں دیکھی ہیں، ضمانتیں کرائی ہیں، ہمارے فیصلے مالم جبہ، سونامی ٹری اور بلین ٹری کی طرح بند نہیں ہوئے۔ ہم نے عدالتی عمل کوعزت دی، ہم سارے عمل سے گزرے، ضمانتیں بھی ہوئیں، نوازشریف کی 200 پیشیاں ہوئیں، مسلم لیگ ن آئین اورقانون کے احترام پر یقین رکھتی ہے۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے وفاقی وزیر دفاع نے کہا کہ عمران خان کہتا رہا ہم اور فوج ایک پیج پر ہیں، کہتا تھا فیصلے میں کرتاہوں ذمہ داری لیتاہوں، کہتا تھا ٹیپنگ بہت اچھی بات ہے۔ حکومت پاکستان کا پیسہ برطانیہ سے یہاں منتقل ہوا، قوم کا 190ملین ایک بزنس مین کے اکاونٹ میں ڈال دیا گیا۔

خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ماضی میں بہت سے ممالک سے ہمارے تعلقات متاثر ہوئے، وزیراعظم کے کامیاب دوروں کاسلسلہ جاری ہے، 2 ماہ میں وزیراعظم کی40 سے زائد سربراہان سے ملاقات ہوئی، سفارتی تعلقات میں جو نقصان ہوا اس میں بہتری لائے ہیں۔ کسی کے دباو میں آکر کوئی فیصلہ نہیں کریں گے، آئین کے مطابق وقت پر انتخابات ہونگے، یہ جنرل الیکشن ہیں میانوالی کے ضلع کونسل کا الیکشن نہیں۔

وزیر دفاع نے کہا کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز اور اس سے پہلے مریم نواز کی بریت کے حوالے سے چند حلقوں کی جانب سے سوالات اٹھائے گئے تو ہم نے پچھلے 4 سے 5 سال میں قول اور فعل سے ثابت کیا پاکستان کے عدلیہ کے نظام کی خلاف ورزی نہیں کرنا چاہتے اور ان کا احترام کرتےہیں۔

پیپلزپارٹی کے رہنما اعتزاز احسن کا نام لیے بغیر ان کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ وہ میرے استاد رہے ہیں اور قانون دان ہیں، ذوالفقار علی بھٹو کو چھوڑنے والا یہ پہلا شخص تھا۔ 1977 میں 6 ماہ پہلے ہی دھاندلی زدہ الیکشن میں رکن صوبائی اسمبلی بنے تھے اور اس وقت سے انہوں نے غداری شروع کی ہوئی ہے۔

عران خان پر تنقید کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ یہ بندہ نالائقی کی آخری حدوں پر چلا گیا ہے، اسی عمارت میں کہتا رہا ہے میں اور آرمی چیف ایک پیج پر ہیں، کوئی فیصلہ ایسا نہیں لیتا جس کی پنڈی کے ساتھ مکمل اتفاق نہ ہو، فیصلے میں لیتا ہوں جس کی میں ذمہ داری لیتا ہوں۔ کہتا تھا ٹیپنگ اچھی بات ہے اور اب ٹیپیں آئی ہیں تو چیخ مارنے لگے ہیں، پاکستان کے عوام کے اجتماعی شعور کی اس طرح توہین نہیں کی جاسکتی، پاکستان کے ووٹر کے ذہانت اور شعور کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ آئین کے مطابق وقت پر انتخابات ہوں گے، اگر اس سے قبل انتخابات کا فیصلہ کیا تھا شہباز شریف کی سربراہی میں پی ڈی ایم کی حکومت فیصلہ کرے گی اور وہ کسی دباؤ کے نتیجے میں نہیں ہوگا۔ آئین کے مطابق وقت سے پہلے انتخابات ہوسکتے ہیں لیکن اس کا دور دور تک کوئی نشان نہیں ہے اور عوام کو ریلیف ملے گا جو ہم پر عوام کا قرض ہے۔

خواجہ آصف نے کہا کہ جہاں انہوں نے آرمی چیف اور ان کے ملوث ہونے کا نام لیا ہے تو اس پر بالکل کچھ نہ کچھ کارروائی ہو، ہم قانون اور قاعدے کے مطابق ہم جواب دینے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔

ایک اور سوال پر وزیر دفاع نے کہا کہ مختلف صوبوں میں پی ٹی آئی کی حکومتوں کے خلاف جب مناسب سمجھیں اس وقت جیسے وفاقی حکومت کو عدم اعتماد سے برطرف کیا تھا تو دیگر کے خلاف بھی کام ہو رہا ہے۔ جب بھی موقع ملے گا اس کو استعمال کیا جائے گا۔

احسن اقبال 

دوسری طرف عام انتخابات کے حوالے سے وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا کہ دو صوبے سندھ بلوچستان ایسے ہیں جہاں اگلے 6 سے 8 مہینے تک عام انتخابات کا سوال پیدا نہیں ہوتا کیونکہ وہاں سیلاب متاثرین کی بحالی ہے۔ مارچ یا اپریل تک ان کی بحالی کے عمل میں مصروف ہیں تو مارچ تک نئی مردم شماری کے اعداد وشمار آئیں گے اور سندھ کی جانب سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ نئی مردم شماری کے بعد انتخابات کروائے جائیں۔

اعتزاز احسن کی جانب آرمی چیف کے خلاف بیان پر آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی سے متعلق سوال پر انہوں نے صحافی کو جواب دیا کہ ہم آپ کی فرمائش پر تو کام نہیں کریں گے۔ ایک شخص جس کی سیاسی اہمیت اتنی رہ گئی تو اس کو زبردستی سیاسی طور پر زندہ کرلیا جائے تو وہ بھی سیاسی طور پر درست بات نہیں ہے۔

Advertisement