لاہور: (علی مصطفیٰ) پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت ہے، اس کے باوجود بھی میں تین لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کروا سکتا۔ پوچھنا چاہتا ہوں پنجاب پولیس کو کون کنٹرول کر رہا ہے۔ وزیر آباد میں میرے ایک کارکن نے فائرنگ کرنے والے ملزم کو دبوچ لیا جس کے باعث گولی بجائے ہمیں سیدھا لگنے کے ہماری ٹانگوں پر لگ گئی، حملہ آور دو سے زیادہ ہو سکتے ہیں۔ ڈیپ سٹیٹ ہر معاملے کو دبا رہی ہے۔
ترک میڈیا ٹی آر ٹی کو انٹرویو کے دوران میزبان صحافی نے سوال کیا کہ وزیر آباد میں پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ میں حملہ کے بعد زخمی ہو چکے ہیں اس وقت کیسا محسوس کر رہے ہیں، اس پر جواب دیتے ہوئے چیئر مین کا کہنا تھا کہ نفسیاتی طور پر میں خود بہت مضبوط سمجھ رہا ہوں، مجھے حملے سے قبل ہی پتہ تھا کچھ ہونے والا ہے، میں نے اپنی حکومت ختم ہونے کے بعد ہی علی الاعلان کہا تھا کہ میرے قتل کی تیاری کی ہوئی ہے، یہ تیاری چار لوگوں نے بند کمرے میں کی ہے، اس بات کو عوام میں مئی اور جون کے دوران سامنے لے آیا تھا، اس حملے کے پیچھے بہت مضبوط لوگ تھے، اس کے بعد مجھے مارنے کی ایک اور منصوبہ بندی کی گئی، اس کے لیے مذہب کا سہارا لیا گیا، اس کے لیے ایک صحافی کی طرف سے ویڈیو تیار کی گئی، اس دوران وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی بیٹی مریم نواز نے پریس کانفرنس کی اور کہا عمران خان عوام کے جذبات ابھار رہا ہے، اسی وقت میں عوام سے مخاطب ہوئے کہا کہ حکمرانوں نے ایک منصوبہ بنا ہوا ہے، یہ لوگ مجھے مروانا چاہتے ہیں، جس کیلئے مذہب کا سہارا لیا جائے گا۔ یہ سب کچھ منصوبہ بندی کے تحت ہوا۔
میزبان کی طرف سے پی ٹی آئی چیئر مین سے سوال کیا گیا کہ کیا وزیر آباد میں ہونے والے حملے کے آپ کے پاس کوئی ثبوت ہیں، سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ میں تین پوائنٹس اٹھانا چاہوں گا، پہلی بات سمجھ لیں اس وقت پورے ملک میں سروے ہو رہے ہیں، جس میں میری پارٹی سب سے مقبول ترین جماعت ہے۔ اس وقت پاکستان تحریک انصاف نے ضمنی الیکشن کے دوران 75 فیصد سے زیادہ الیکشن میں جیتے،مخالف 13 جماعتیں ملکر بھی پی ٹی آئی کو نہیں ہرا سکیں، ان جماعتوں کو وفاقی حکومت ، الیکشن کمیشن اور اسٹیبلشمنٹ کی مدد حاصل تھی، اس کے باوجود میری پارٹی 37 ضمنی الیکشنوں میں 29 الیکشن اکثریت کے ساتھ جیتی ہے، ہمیں مقبولیت کے لیے کسی پر الزام لگانے کی ضرورت نہیں، دوسرے نمبر پر دیکھ لیں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کیا کہہ رہے تھے، 2013ء اور 2014ء میں احتجاج کے دوران ماڈل ٹاؤن میں قتل و غارت کی گئی، پولیس والوں نے مظاہرین پر براہِ راست فائرنگ کی۔ اور یہ کیس اس وقت بھی عدالت میں موجود ہے۔ دونوں (رانا ثناء اللہ اور شہباز شریف) اس وقت ایکسٹرا جوڈیشل قتل میں ملوث ہیں، تیسرے نمبر پر دیکھیں ، میں نے 24 ستمبر کو عوام کی ریلی میں مخاطب ہو کر کہا کہ میرے ساتھ کیا ہونے والا ہوا ہے، اس کے سکرپٹ سے متعلق عوام کو آگاہ کیا، اس سکرپٹ میں بتایا کہ حکمران طبقہ کہے گا کہ میں نے کوئی مذہب سے متعلق بات کر دی ہے، اس کے وقت بعد حکمران لوگوں نے اپنے حمایت یافتہ میڈیا کو استعمال کیا، اس کی مثال پاکستان ٹیلی ویژن دیکھ لیں، جہاں پر میرے متعلق کچھ ویڈیوز چلائی گئیں، جو مذہب سے متعلق تھیں۔ اس کے بعد مجھے مذہب کے نام پر قتل کروا دیا جانا تھا۔ یہی چیزیں میں نے عوام کو پہلے ہی بتا دی تھیں۔ حکمران کہہ رہے ہیں میں الزام لگا رہا ہوں، میں یہاں بتاتا چلوں کہ میں اپنے اوپر ہونے والے حملے کی ایک آزادانہ تحقیقات چاہتا ہوں، حملے کے بعد معاملے پر کیوں پردہ ڈالا جا رہا ہے۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ عمران خان کا کہنا تھا کہ مجھ پر ہونے والے حملے کے پیچھے ٹوٹل سات لوگ ہیں، پہلے چار لوگوں نے میرے قتل کی منصوبہ بندی کی ، اب مزید تین لوگ مجھے قتل کروانا چاہتے ہیں، 3 لوگوں کا نام میں نے عوام کو بتا دیا ہے، یہ تینوں مذہب کا سہارا لیکر مجھے مروانا چاہتے ہیں، اگر میرے پاس بلٹ پروف گاڑی بھی ہو تو مارنے والے بہت زیادہ طاقتور لوگ ہیں، گزشتہ پانچ سے چھ ماہ کے دوران اپنی مہم کے دوران مجھے کہا گیا کہ آپ کی جان کو خطرہ ہے، ریلی میں گئے تو آپ کو قتل کیا جا سکتا ہے۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ میرے پاس کچھ چوائس ہی تھی، یا پھر مجھے حقیقی آزادی اور صاف اور شفاف الیکشن کے لیے شروع کی گئی کمپین کو روک دینا چاہیے یا پھر میں چپ کر کے گھر بیٹھ جاتا اور سب کچھ برداشت کرتا رہوں، اس کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ میں اپنی حقیقی آزادی کی مہم کو کسی صورت نہیں روکوں گا، قوم اپنی آزادی پر کوئی کمپرومائز نہیں کر سکتی، اس وقت ملک پر مجرموں کی حکومت ہے، اس وقت جو حکمران ہیں ان دو پارٹیوں کا ماضی دیکھ لیں، 30 سال سے یہ لوگ حکمرانی کر رہے ہیں، ان کے اوپر کریمنل کیسوں کی بھرمار ہے، یہ متعدد بار جیل بھی گئے ہیں، اس کی مثال عالمی میڈیا ہے جو ان کی کرپشن اور چیزوں کو سامنے لاتا ہے، ان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا مقصد کیا ہم کوئی بھیڑ بکریاں ہیں، ان تمام چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے فیصلہ کیا کہ میں عوام میں جاؤں گا۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک کے آگے بڑھنے کا واحد راستہ مضبوط جمہوریت ہے، عوام کو حق دیں وہ اپنے لوگوں کو منتخب کریں، عوام نہیں چاہتی کہ کوئی ہمیں ڈکٹیٹ کرے اور نہ ہی ہمارے ملکی فیصلے بیرونی طاقتیں کریں، جو ملک پر مجرموں پر مسلط کرتے ہیںاپنی حکومت ختم ہونے کے بعد 6 ماہ کے دوران میں پورے ملک میں گیا، میری 26 سال کی جدوجہد کے دوران مجھے اتنی عزت نہیں ملی جتنی کہ اب مل رہی ہے، اسی وجہ سے ’مضبوط‘ لوگ مجھے راستے سے ہٹانا چاہتے ہیں۔
میزبان کی جانب سے وزیر آباد میں ہونے والے حملے کے بعد پنجاب پولیس سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں پی ٹی آئی چیئر مین کا کہنا تھا کہ پنجاب میں میری پارٹی کی حکومت ہے اور پنجاب پولیس میری صوبائی حکومت کے ماتحت ہے اور میں اس ملک کا سابق وزیراعظم ہوں اس کے علاوہ میں پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کا سربراہ بھی ہوں، ان سب چیزوں کے باوجود بھی میں تین لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کروا سکتا۔ یہی تین لوگ میرے پر حملے میں ملوث ہیں، اس کے لیے میں ایک مکمل تحقیقات چاہتا ہوں، سب سے پہلے پتہ چلنا چاہیے کہ مجھ پر حملے کرنے والے ملزم کی ویڈیو کس نے جاری کی، صرف مجھے پتہ ہے یہی تین لوگ اس میں ملوث ہیں، محسوس کریں کہ میری پارٹی پنجاب میں اقتدار میں ہے اور اس کے باوجود ہم پنجاب پولیس سے اپنی توقعات والی ایف آئی آر نہیں درج کروا سکتے، اگر تحقیقات ہوتی ہیں اور یہ لوگ کلیئر ہو جاتے ہیں تو یہ وہ بہترین ہے، لیکن اس وقت مجھ پر حملہ ہوا ہے اور یہ میرا حق ہے ، یہ لوگ مجھے مروانا چاہتے ہیں اوران کے خلاف کارروائی کی جائے۔ پنجاب پولیس نے ہماری درخواست کو مسترد کر دیا اور میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ پنجاب پولیس کو کون کنٹرول کر رہا ہے اور چلا رہا ہے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ میں چاہتا ہوں ان تین لوگوں کے خلاف آزاد تحقیقات کمیشن بنے، اس میں تمام تحقیقاتی ایجنسیوں کمیشن کے ماتحت ہوں، میں ان تین لوگوں کے خلاف کیسے انصاف حاصل کر سکتا ہوں، جب یہ تین لوگ اپنے عہدوں پر براجمان ہوں گے۔ جب سے مجھ پر حملہ ہوا ہے، اس کے محض 20 منٹ ملزم نوید کا ویڈیو بیان سامنے آ جاتا ہے، اور وہ کہتا ہے کہ میں اس کے پیچھے اکیلا ہوں اور میں نے اکیلے ہی عمران خان پر حملہ کیا ہے، میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کس نے ٹیلی ویژن پر یہ ویڈیو چلوائی۔ پولیس یہ اجازت دے نہیں سکتی، اسی وجہ سے چاہتا ہوں آزادانہ تحقیقات ہوں۔
میزبان خاتون صحافی نے سوال پوچھا کہ کیا اس تحقیقات کے لیے آپ کو اقوام متحدہ کو بلانا پڑے گا، اس پر جواب دیتے ہوئے سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے کیس میں اقوام متحدہ کی ٹیمیں آئی تھیں، میرے خیال میں اقوام متحدہ کی ٹیمیں یہاں کام نہیں کر پائیں گی، اس کے لیے میں چاہتا ہوں کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال بہترین ہیں، یہ ملک میں رول آف لاء کا بہترین وقت ہے، میری 26 سال کی جدوجہد انصاف پر مبنی ہے، اندازہ لگائیں کہ اگر میں پارٹی کا سربراہ ہونے کے باوجود تین لوگوں کیخلاف انصاف حاصل نہیں کر سکتا، پولیس کیس رجسٹر نہیں کرتی تو اس کا مطلب ہے یہ تینوں لوگ قانون سے اوپر ہیں، اس کا مطلب پاکستان میں دو قانون ہیں، ایک قانون امیر آدمی کے لیے ہے اور دوسرا قانون غریب آدمی کیلئے ہے، اگر میں انصاف نہیں لے سکتا تو اندازہ لگائیں غریب عوام کا کیا ہوتا ہو گا، حقیقی آزادی ملک میں قانون کی حکمرانی سے آئے گی، میری 26 سال کی جوجہد اسی لیے جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر کسی طریقے سے پردہ ڈالا جا رہا ہے، مجھ پر حملہ کسی مذہبی جنونیت کی وجہ سے نہیں ہوا، سوشل میڈیا اس وقت بہت زیادہ متحرک ہے، مجھ پر حملہ کرنے والا مذہبی جنونیت کی وجہ سے حملہ آور نہیں تھا، یہ ایک تربیت یافتہ ملزم ہے۔ یہ حملہ آور مجھ سے محض چند قدموں کے فاصلے پر تھا، اس نے ہم پر فائر برسٹ کیا، اسی دوران میری پارٹی کے ایک کارکن نے اُسے فوری دبوچ لیا جس کی وجہ سے چلنے والی گولی بجائے ہمیں سیدھا لگنے کے ہماری ٹانگوں پر لگ گئی اس کے بعد میں فوراً کنٹیر پر گر گیا،اس کے بعد متعدد گولیاں ہمارے سر کے اوپر سے گزریں، مجھ پر حملہ کرنے والے ایک نہیں زیادہ لوگ تھے، اگر اس وقت کنٹینر پر زخمی ہونے کے بعد ہم گرتے نہیں تو دوسرے ملزم ہمیں مار دیتا۔ ہم سمجھتے ہیں فائرنگ دوطرف سے ہو رہی تھی، ڈیپ سٹیٹ ہر معاملے کو دبا رہی ہے، اسی وجہ سے یہ لوگ پنجاب پولیس کو ایف آئی آر نہیں درج کرنے دے رہے، کیونکہ اس میں ادارے کا ایک اعلیٰ افسر شامل ہے۔
خاتون میزبان نے سوال کیا کہ چند روز قبل آپ نے کہا تھا کہ یا تو انقلاب بیلٹ باکس سے آئے گا یا خونریزی سے اس کا کیا مطلب ہے، ایک سوال کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ جب میں نے اپنی پارٹی کی بنیاد رکھی تو اس وقت کوئی بڑا نام میرے ساتھ نہیں تھا، کوئی فیملی سیاست میں نہیں تھی، کیونکہ ملک میں اس وقت فیملی سیاست کا رحجان ہے، اس کی مثال شریف خاندان اور بھٹو خاندان ہے، میں نے اپنی جدوجہد زیرو سے شروع کی، اس کے لیے میں نے موومنٹ کو کھڑا کیا، اسی دوران عوام کی بڑی تعداد نے میری پارٹی میں شمولیت اختیار کی، میری 22 سال کی جدوجہد کے بعد میں بالآخر الیکشن جیتنے میں کامیاب ہو گیا، گزشتہ 6 ماہ کے دوران ملک میں بہت کچھ بدل گیا ہے، ماضی میں لوگ حکومت کے ختم ہونے پر جشن مناتے تھے لیکن میری حکومت ختم ہونے کے اگلے ہی دن لاکھوں کی تعداد میں عوام باہر نکل آئی، ملک میں ایسا کبھی نہیں ہوا تھا، مخالفین سمجھ رہے تھے کہ میری تحریک ختم ہو جائے گی لیکن یہ ختم ہونے کے بجائے مزید بڑھتی چلی جائے گی۔ انقلاب کا آغاز سڑکوں پر ہو چکا ہے۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا نے لوگوں کو بدل دیا ہے، حکمران صحافیوں پکڑ رہے ہیں، میری زندگی کا سب سے بہترین صحافی ارشد شریف کو قتل کر دیا گیا، کیونکہ وہ رجیم چینج کے بعد ان لوگوں کو بے نقاب کر رہا تھا، اسی دوران اسے کینیا میں موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔ حکمرانوں نے میڈیا کو استعمال کیا ، میرے لوگوں کو مارنا شروع کیا، مجھے نا اہل کروانے کی کوشش کی، مجھ پر دہشتگردی سمیت درجنوں کیسز درج کروا دیئے، سوشل میڈیا نے لوگوں کو بدل دیا، میں سمجھتا ہوں لوگوں کو دبایا نہیں جا سکتا، سوشل میڈیا نے عوام کی آواز کو بلند کیا ہے، میرا یقین ہے پاکستان میں تبدیلی کو کوئی نہیں روک سکتا، عوام کے شعور کو بوتل میں بند نہیں کر سکتے، اسی لیے کہتا ہوں کہ اس وقت ووٹوں کے ذریعے انقلاب آئے تو پر امن ہو گا یا پھر خونی انقلاب ہو گا جس کو روکنا مشکل ہو جائے گا، کیونکہ اس وقت ملک میں نوجوانوں کی بڑی تعداد موجود ہے، ان سے انفارمیشن کو چھپایا نہیں جا سکتا۔
میزبان خاتون صحافی نے سوال کیا کہ آپ آئندہ الیکشن کے لیے ایک سال کا انتظار کر سکتے ہیں اس پر جواب دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ اگر ملک میں خونی انقلاب آتا ہے تو اس کی مثال ہمسایہ ملک ایران ہے، 4 دہائیاں قبل وہاں پر خونی انقلاب آیا تھا، ملک میں اگر ایسا ہوتا تو حالات بہت زیادہ خراب ہو جائیں گے، اس وقت ملک کو آگے بڑھانے کا بہترین راستہ پر امن انقلاب ہے، اور وہ ووٹوں کے ذریعے آئے گا۔ اس کے لیے ہم سب دعا گو ہیں۔ ملک میں 6 ماہ کے دوران معیشت کا ستیاناس ہو گیا ہے، سرمایہ کاری نچلی ترین سطح پر ہے۔ معاشی اعشاریے نیچے جا رہے ہیں۔ اس سب کی بڑی وجہ ملکی میں سیاسی صورتحال ہے، ملک میں کوئی جانتا نہیں کیا ہو گا، سرمایہ کاروں کے لیے ماحول سازگار نہیں، معیشت اس وقت ہی بہترین ہو سکتی ہے جب سیاسی صورتحال میں استحکام ہو گا۔ اور اس کا بہترین حل الیکشن ہے۔ اس کا کوئی اور راستہ نہیں ہے، آئندہ حکومت جو بھی آئے پانچ سال کے لیے آئے اور عوام کے ووٹوں سے آئے۔ اس کے بعد سرمایہ کاروں کو حوصلہ ملتا ہے۔اس بحران سے نکلنا کا راستہ الیکشن ہے، میں انتظار کر سکتا ہوں کیونکہ میری پارٹی کی مقبولیت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے، لیکن ملک کی صورتحال دیکھ کر مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہم ڈیفالٹ کر جائیں گے، اس وقت جو صورتحال وہ سب کے سامنے ہے، اس وقت فوری الیکشن ہی ملکی مسائل کا حل ہے۔
مذاکرات کیلئے ہمارے دروازے جمہوریت پسند قوتوں کیلئے کھلے ہیں: عمران خان
پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ملکی مستقبل کیلئے تحریک انصاف کے دروازے تمام جمہوریت پسند قوتوں کے لیے کھلے ہیں۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ایک بیان میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین کا کہنا تھا کہ وزیر آباد میں پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ پر ہونے والے حملے کی مضحکہ خیز ایف آئی آر کے معاملے پر میرے وکیل اپنا موقف دیں گے۔ میں نے ساری زندگی ملک کو ایک خوشحال فلاحی ریاست کے طور پر دیکھنے کا خواب دیکھا اور میری پوری جدوجہد اس خواب کو قوم کے لیے حقیقت بنانے کے لیے رہی ہے۔ انصاف، آزادی اور قومی خودمختاری کے میرے پیغام کی حمایت میں آج قوم بیدار ہو چکی ہے۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ جب ہم اپنے مقصد کے اتنے قریب ہوں تو کوئی خوف یا موت کا خطرہ میری جدوجہد کو نہیں روک سکتا۔ ہمارا پُر امن احتجاج اور مذاکرات صرف پاکستان کی حقیقی آزادی کے لیے ہیں۔ پاکستان کے مستقبل کے لیے تحریک انصاف کے دروازے تمام جمہوریت پسند قوتوں کے لیے کھلے ہیں وہ انصاف، قانون کی حکمرانی اور غیر ملکی غلامی سے آزادی کے لیے ہماری جدوجہد میں شامل ہوں۔
اسلام آباد کے سوا تمام شہروں میں احتجاج ختم کرنے کا اعلان
دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین نے اسلام آباد کے سوا باقی شہروں میں احتجاج ختم کرنے کی ہدایت کر دی۔ عمران خان کی جانب سے پارٹی رہنماؤں کو فیصلے سے آگاہ کر دیا گیا، عوامی مشکلات کے پیش نظر احتجاج ختم کرنے کی ہدایت کی گئی۔
عمران کا وزیر آباد واقعے کی ایف آئی آر چیلنج کرنے کا اعلان
پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے وزیر آباد میں پی ٹی آئی کے لانگ مارچ پر حملہ اور خود پر فائرنگ کی درج ہونے والی ایف آئی آر کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔
چیئر مین پاکستان تحریک انصاف نے سینئر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجھے معلوم تھا کہ مجھے ماریں گے، اس لئے میں نے پہلے ہی ویڈیو ریکارڈ کرواد ی تھی ، جب ہم مضبوط ہوئے تو دوسرا منصوبہ بنایا گیا۔ دوسرا منصوبہ مذہبی انتہا پسندی جیسے سلمان تاثیر کا قتل ہوا، اس حوالے سے جلسے میں بھی بتایا کہ ان کا پلان کیا ہے، معلوم تھا گوجرانوالہ یا گجرات میں حملہ ہوگا اور قتل کرنے کی کوشش ہوگی ۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ جن لوگوں کے نام دئیے اگر وہ ملزم نہیں تو تفتیش میں نکل جائیں گے، وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے نیچے سب ہیں، ملزم نوید کی حفاظت کی زمہ داری پنجاب حکومت کی لگا دی ہے، ملزم نوید کا بیان جھوٹ پر مبنی ہے اور جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے، سعد رضوی نے خود کو ملزم نوید کے بیان سے بہترین انداز میں علیحدہ کیا، فوج مثبت انداز میں اپنا بہترین کردار ادا کرسکتی ہے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ اگر ملک کا انتظام چلانا ہے تو اقتدار کے ساتھ اختیار بھی ملنا چاہئے، میرا فوج سے کوئی ایشو نہیں صرف احتساب کے مسئلے پر مسئلہ ہوا۔
آرمی چیف کی توسیع سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ ملین ڈالر سوال ہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ کبھی اتحادی حکومت نہیں بننی چاہیے ورنہ ہمیشہ بلیک میل ہوتے رہیں گے، دو تہائی اکثریت ہو تو وزیر اعظم مضبوط ہوتا ہے اور بہتر انداز میں کارکردگی دکھا سکتا ہے۔
عمران سے اعتزاز احسن کی ملاقات
پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین اور سابق وزیراعظم عمران خان سے پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اعتزاز احسن نے ملاقات کی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیر رہنما کے درمیان ملاقات لاہور میں عمران خان کی رہائشگاہ پر ہوئی۔جس میں انہوں نے سابق وزیراعظم کی خیریت دریافت کی۔
اس ملاقات کے دوران سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اعتزاز احسن کو 17 سال پہلے پی ٹی آئی میں شامل ہونے کی دعوت دی تھی، ہمارا اور اعتزاز احسن کا نظریہ ایک ہی ہے، اعتزاز احسن کا مستقبل ہمارے ساتھ ہے۔ اعتزاز احسن میرے وکٹ کیپر ہوا کر تے تھے، پی پی سینئر رہنما کرکٹ کو بخوبی جانتے ہیں۔
اس موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما نے کہا کہ جب عمران خان پر فائرنگ ہوئی تو اس وقت ٹی وی دیکھ رہا تھا، جب فائرنگ کی اطلاع ملی تو ٹی وی انہماک سے دیکھنا شروع کر دیا، ملزم نوید کے ویڈیو بیان کے بعد مجھے فون آیا تو میں نے کہا کہ طوطا بول رہا ہے۔