اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ آف پاکستان نے الیکشن کمیشن کو انتخابات کے راستے میں حائل رکاوٹوں کی تفصیلات پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
سپریم کورٹ نے سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کے تبادلے سے متعقل کیس پر سماعت کی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کاحکم تھا پھر بھی سی سی پی او تبدیل کیوں کیا گیا؟ غلام محمود ڈوگر کو ٹرانسفر کرنے کی اتنی جلدی کیا تھی؟
پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی اجازت سے انہیں دوسری بار تبدیل کیا گیا۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ آئین کے تحت نگراں حکومت آنے کے بعد 90 دن میں انتخابات ہونے ہیں، نگراں حکومت کی وجہ سے الیکشن کمیشن سے اجازت لی گئی۔
جسٹس مظاہرعلی اکبر نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن کا کردار انتخابات کے اعلان کے بعد ہوتا ہے، آدھے پنجاب کو ٹرانسفر کر دیا، پنجاب میں ایسا کوئی ضلع ہے جہاں ٹرانسفر نہ ہوا ہو؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کوسپریم کورٹ کے حکم کا علم نہیں تھا؟ الیکشن کمیشن اپنے کام کے علاوہ باقی سارے کام کر رہا ہے۔
دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ شفاف انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، آئین ہر صورت 90 دن میں انتخابات کرانے کا پابند کرتا ہے، مقررہ وقت میں انتخابات نہ ہوئے تو آئین کی خلاف ورزی ہو گی۔
سپریم کورٹ نے چیف الیکشن کمیشنر کو فوری طور پر طلب کر کے سماعت کچھ وقت کے لئے ملتوی کردی۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کے پیش ہونے پر عدالت نے سماعت دوبارہ شروع کی۔
جسٹس اعجازالاحسن نے مزید ریمارکس دیئے کہ نگراں حکومت تقرر و تبادلے نہیں کر سکتی، نگراں حکومت تبادلے کیلئے ٹھوس وجوہات کے ساتھ درخواست دے، الیکشن کمیشن جائزہ لے کر مناسب حکم جاری کرنے کا پابند ہے۔
عدالت کے ریمارکس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ آئین نے مجھے تبادلے کا اختیار دیا ہے، عدالت حکم دے تو تبادلے روک دیں گے۔
سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ انتخابات فی الحال ہوا میں ہیں، کمیشن تبادلے تو کررہا ہے لیکن انتخابات کا اعلان نہیں کررہا، جس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ انتخابات کرانے کے لیے تیار ہیں، الیکشن کی تاریخ خود دیں تو آئین کی خلاف ورزی ہو گی، آئین کے ایک آرٹیکل پرعمل کریں تو دوسرے کی خلاف ورزی ہو جاتی ہے، لاہور ہائی کورٹ سے آج دوبارہ رجوع کر رہے ہیں۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ ہمیں ضمنی انتخابات اور عام انتخابات کو بھی دیکھنا ہے، اختیارات اور آئینی تقاضے پر عمل کرنے سے روکا جارہا ہے، فوج سے سکیورٹی مانگی تو انکار کردیا گیا، عدلیہ سے آر اوز مانگے تو انہوں نے انکار کردیا، انتخابات کے لئے پیسے مانگے تو اس سے بھی انکار کردیا گیا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے چیف الیکشن کمشنر سے مکالمے کے دوران ریمارکس دیئے کہ آپ نے کسی کی ہدایت پر عمل نہیں کرنا، فیصلے خود کرنے ہیں۔
سپریم کورٹ نے انتخابات کی راہ میں حائل رکاوٹوں کی تفصیلات پیش کرنے کا حکم دے دیا، عدالت نے حکم دیا کہ بتایا جائے کہ انتخابات کے لئے کس ادارے سے کیا رابطے کیے گئے۔
بعدازاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے انتخابات کی راہ میں حائل رکاوٹوں کی تفصیلات پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔
معاملے کا پس منظر
سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کو سروس ٹریبونل کے ایک بینچ نے بحال جبکہ دوسرے نے معطل کیا تھا، غلام محمود ڈوگر نے سروس ٹریبونل کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔
سپریم کورٹ نے غلام محمود ڈوگر کے ٹرانسفر پر وفاقی حکومت سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے متعلقہ حکام کو ان کے ٹرانسفر سے روک دیا تھا، تاہم اس کے باوجود نگراں حکومت نے سی سی پی او لاہور کا تبادلہ کردیا تھا۔