اسلام آباد: (دنیا نیوز) پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس پر جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے تفصیلی اختلافی فیصلہ جاری کر دیا۔
28 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا، اختلافی فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی کے 23 فروری کے فیصلے سے اتفاق کرتے ہیں، چیف جسٹس کے اختیار کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے، پوری سپریم کورٹ کو صرف ایک شخص پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔
اختلافی فیصلہ میں مزید کہا گیا ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں، از خود نوٹس کی کارروائی ختم کی جاتی ہے، ہائیکورٹ زیر التوا درخواستوں پر 3 روز میں فیصلہ کرے، چار تین کا فیصلہ ماننا تمام اداروں پر لازم ہے، سماعت شروع ہو جائے تو بینچز کی تشکیل اور تبدیلی چیف جسٹس کو انتظامی اختیار نہیں رہتا۔
بینچ کی تبدیلی جج کی معذرت یا رولز کے خلاف تشکیل ہونے پر ہوتی ہے، دونوں صورتوں میں ببچ معاملہ چیف جسٹس کے سامنے رکھنے کا حکم دیتا ہے، کاز لسٹ جاری ہوجائے تو چیف جسٹس بینچ تبدیل نہیں کر سکتے، بینچ میں اختلافی آواز دبانے کی کوشش سے غیرجانبدار عدالتی نظام کی بنیادیں ہل جائیں گی، ابتداء میں ہی حتمی فیصلہ دینے کا مطلب جج کا بینچ سے الگ ہونا یا سماعت سے معذرت نہیں ہوتا۔
اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ دو ججز کو بینچ سے الگ کرنے کے چیف جسٹس کے فیصلے کا اُن کے عدالتی حکم پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، بینچ کی ازسرنو تشکیل انتظامی فیصلہ تھا تاکہ باقی 5 ججز مقدمہ سن سکیں، بینچ کی ازسرنو تشکیل دونوں ججز کے عدالتی فیصلے کو ختم نہیں کر سکتی۔
جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی خود بنچ سے الگ ہوئے تھے، دونوں کو بینچ سے نکالا نہیں گیا تھا، بینچ سے الگ ہونے والے ججز کا انتظامی فیصلہ کیس ریکارڈ کا حصہ ہے، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلے الگ کرنا انہیں بینچ سے نکالنے کے مترادف ہوگا، ججز کو ان کی مرضی کے بغیر بینچ سے نکالنے کا اختیار نہ چیف جسٹس کو ہے نہ ہی قانون میں اسکی اجازت ہے۔
اختلافی نوٹ میں پانامہ کیس کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ ابتدائی فیصلہ تین دو کے تناسب سے آیا تھا، اختلافی نوٹ دینے والے دونوں ججز پانامہ کیس کی دیگر کارروئی کا حصہ نہیں بنے، پانامہ کے حتمی فیصلے میں پانچوں ججز موجود تھے، شروع میں حتمی فیصلہ دینے والے ججز کو پانامہ بینچ سے الگ تصور نہیں کیا گیا تھا، پانامہ کیس میں فیصلہ تین ججز کا تھا، نظرثانی تمام پانچ ججز نے سنی۔