اسلام آباد: (دنیا نیوز) پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما و سابق وفاقی وزیر فواد چودھری نے کہا ہے کہ عدلیہ پر حملہ مسلم لیگ ن کا وتیرہ ہے، مجھے نہیں لگتا اس قانون کو صدر آسانی سے منظور کریں گے۔
دنیا نیوز کے پروگرام "دنیا کامران خان کے ساتھ" میں گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ یکا یک قانون لیکرآگئے، ایسی ڈمی پارلیمنٹ سے اتنی بڑی قانون سازی نہیں ہو سکتی، یہ قانون سازی ان کو اگلی پارلیمنٹ تک چھوڑ دینی چاہیے، وزیراعظم اور مریم نواز سینئر ججز کو بدنام کر رہے ہیں۔
فواد چودھری نے کہا کہ عدلیہ پر حملہ کرنا (ن) لیگ کا پرانا وتیرہ ہے، اسی روایت کے مطابق یہ آج سپریم کورٹ پرحملہ آور ہے، عدلیہ سے متعلق قانون سازی کی ضرورت ہے لیکن یہ قانون سازی عدلیہ سے متعلق ہونی چاہیے صرف چیف جسٹس سے متعلق نہیں، ہم اس قانون سازی کو مسترد کرتے ہیں، اس قانون سازی میں پہلے دو بڑے مسئلے آئیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ رولزآف بزنس کا سیکشن 191 کہتا ہے سپریم کورٹ اپنی انٹرنل ورکنگ کے لیے خود رول بنائے گی، اب یہ کہہ رہے ہیں کہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے انٹرنل رولز بنائے گی، یہ سیکشن 191 کی خلاف ورزی ہو گی، دوسرا چیف جسٹس کے اختیار کو کم کرنا ہے تو آئینی ترمیم کرنا ہو گی جو اس حکومت کے پاس نمبرز نہیں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: عدلیہ پر دباؤ کیلئے قانون سازی کی، قوم الیکشن سے بھاگنے کی چالیں سمجھ گئی: عمران خان
فواد چودھری نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا اس قانون سازی کو صدر آسانی سے منظور کریں گے، لہٰذا یہ معاملہ واپس پارلیمان میں ہی آئے گا، صدر مملکت کے پاس قانون سازی کو منظور کرنے کا 22 دن کا اختیار ہے پاس کریں یا نہ کریں، جتنی جلدی حکومت دکھا رہی ہے اتنی جلدی پاس نہیں ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ آج جسٹس مندوخیل صاحب نے بہت بڑے ریمارکس دیئے، انہوں نے معاملہ سیٹل کر دیا کہ یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے، جسٹس مندوخیل نے کہا ہم کسی کو سیاست کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، جب تک ساری جماعتوں کو اعتماد میں لے کر قانون سازی نہیں ہو گی یہ قانون سازی توڑ نہیں چڑھے گی۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان تحریک انصاف کا عوامی رابطہ مہم جاری رکھنے کا فیصلہ
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ شہباز شریف حکومت کے لیے شرمندگی کے علاوہ اس میں کچھ نہیں نکلے گا، ان کا خیال ہے کہ چیف جسٹس کو بے اختیار کر دیں گے۔
فواد چودھری نے کہا کہ کل وکلا کا لاہور میں آل پاکستان وکلا کنونشن ہو رہا ہے، آل پاکستان وکلا کنونشن کل اس حوالے سے گائیڈ لائن دے گا، وکلا اس وقت سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑے ہیں۔