اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ نے رولز بنائے جانے تک ازخود نوٹس کے تمام کیسز کی سماعت کو روکنے کا حکم دے دیا۔
سپریم کورٹ میں حافظ قرآن کو 20 اضافی نمبر دینے پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی، جسٹس قاضی عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے کیس کا فیصلہ جاری کر دیا۔
9 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا، دو ججز کے اکثریتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ چیف جسٹس اور تمام ججز پر مشتمل ہوتی ہے، چیف جسٹس کو خصوصی بینچ بنانے کا اختیار نہیں، بینچ میں شامل جسٹس شاہد وحید نے فیصلے سے اختلاف کیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ چیف جسٹس اپنی دانش کو آئین کی حکمت کی جگہ نہیں دے سکتے، آئین نے چیف جسٹس کو یکطرفہ اور مرضی کا اختیار نہیں دیا، سپریم کورٹ کے تمام ججز کے اجتماعی کام کو صرف چیف جسٹس انجام نہیں دے سکتے، سپیشل بینچ میں مختلف بینچز سے ایک ایک جج کو شامل کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 قومی اسمبلی سے منظور
عدالتی وقت ختم ہونے پر کیس کو سماعت کیلئے مقرر کیا گیا، پاکستان کے عوام اراکین پارلیمنٹ کے انتخاب کے وقت ان کا احتساب کرتے ہیں، اراکین پارلیمنٹ الیکشن میں عوام کو جوابدہ ہوتے ہیں، قوانین کے تحت بیورو کریسی حکومت کو جوابدہ ہوتی ہے، عدلیہ اس طرح کسی کو بھی جوابدہ نہیں ہے۔
اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ چیف جسٹس کے پاس اختیار نہیں کہ بینچ کی تشکیل کے بعد کسی جج کو بینچ سے الگ کریں، ایک جج سپریم جوڈیشل کونسل کو جوابدہ ہو سکتا ہے لیکن عدلیہ نہیں، جسٹس شاہد وحید نے اختلاف کرتے ہوئے لکھا کہ جن معاملات پر فیصلہ دیا گیا وہ عدالت کے سامنے تھے ہی نہیں۔
دوران سماعت عدالت کی توجہ پیمرا کی جانب سے ججز پر تنقید نشر کرنے کی پابندی پر دلائی گئی، فیصلے میں کہا گیا پیمرا نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دے کر پابندی عائد کی، عدالتی فیصلہ پیمرا کو ایسا حکم نامہ جاری کرنے کی اجازت نہیں دیتا، ضلعی عدلیہ کے ججز سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ ججز سے زیادہ کام کرتے ہیں۔
فیصلے کے مطابق پیمرا نے کبھی ضلعی عدلیہ کے ججز پر تنقید کے خلاف پابندی عائد نہیں کی، دوسروں کو قابل احتساب بنانے والے ججز کا احتساب نہ ہونا آئین اور شریعت کے خلاف ہے، عوام کا اعتماد اداروں کو خود جیتنا ہوتا ہے، فیصلے میں ازخود نوٹس اور آئینی اہمیت کے حامل مقدمات پر سماعت مؤخر کرنے کا حکم دیا گیا۔