رمضا ن المبارک مومنین کے لئے نیکیاں سمیٹنے اور موقع پرستوں کے لئے مال سمیٹنے کا مہینہ

Published On 03 April,2023 06:26 pm

لاہور: (سمیعہ اطہر)رمضان کا بابرکت مہینہ آتے ہی مہنگائی کا جن بوتل سے باہر آگیا ، یوں تو رمضان سے قبل ہی مہنگائی نے سر اٹھانا شروع کر دیا تھا لیکن اس مقدس مہینے میں منافع خوروں نے اپنا ضمیر بیچ کر غریبوں کے لئے زندگی مشکل ترین بنا دی ہے ۔

یہاں تک کہ مہنگائی سے رمضان کی روایتی رونقوں کا لطف بھی ماند پڑ گیا ہے ، پہلے سحر و افطار میں جو لوازمات رکھے جاتے تھے اب وہ سب اہتمام ختم ہو چلے ہیں، افطارمیں پھلوں سے بنی چاٹ دسترخوان کی شان ہوتی ہے لیکن آج کل اس میں ڈالنے کے لئے پھل اب کئی سو روپے کلو تک پہنچ گئے ہیں، لوگ پھل خریدنے سے قاصر ہیںلہذا بیشتر گھروں میں اس کے بغیر ہی رمضان گزر رہاہے ، بات کریں پکوڑوں کی تو بیسن ہو یا سبزی دونوں چیزوں کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کر رہی ہیں، اسی طرح دہی بڑوں میں ڈالنے کے لئے دہی 80سے 100روپے پاؤ مل رہا ہے، غرض ہر چیز کے دام دگنے ہو چکے ہیں اور آمدنی میں اضافہ ندارت۔ ایسے میں لوگوں نے دسترخوانوں سے رمضان کے لوازمات کم کر دیئے ہیں اور سحرو افطار کے دسترخوان کی روایتی رونقیں ختم ہو گئی ہیں۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ سڑکوں کے کنارے غریبوں محتاجوں کے لئے لگائے گئے مفت دسترخوانوں پراب سفید پوش لوگوں کا رش لگ گیا ہے، اس سال مفت افطار کرنے والوں کی تعداد میں جتنا اضافہ ہوا ہے اتنا پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا ، لوگ پوری پوری فیملی کے ساتھ سڑکوں پر افطار کرتے نظر آرہے ہیں،اس حوالے سے فلاحی اداروں نے بھی انتظامات میں اضافہ کیا ہے، انفرادی طور پر بھی مخیر حضرات افطار کے اہتمام کرتے نظر آتے ہیں۔

یوں تو صوبائی و مرکزی حکومتیںرمضان بچت بازار لگانے اور سستی اشیاء کی فراہمی کے دعوے تو کر رہی ہیں لیکن درحقیقت یہ اعلانات صرف دعوؤں تک محدود ہیں،ان بازاروں میں اسٹالز لگانے والوں کا کہنا ہے کہ انھیں اشیا ء پیچھے سے ہی مہنگی مل رہی ہیںاس سلسلے میں انھیں کوئی ریلیف نہیں ملا کہ وہ سستی اشیاء فروخت کر سکیں، شہری و صوبائی حکومتوں کی جانب سے لگائے گئے بچت بازار صرف نمائشی اقدامات ثابت ہوئے ہیں۔

این جی اوز اور فلاحی ادارے بھی اپنی سی کوششیں کر رہے ہیں لیکن ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ اس سال طلب زیادہ ہو گئی ہے جبکہ امداد کرنے والوں کی سکت میں بھی نمایاںکمی واقع ہوئی ہے ،قیمتوں کے بڑھنے کی ایک بڑی وجہ من مانا اضافہ ہے کیونکہ روک تھام کا کوئی کارگر نظام موجود نہیں،اس سلسلے میں پرائس کنٹرول ضلعی کمیٹیاں بنانے کی ضرورت ہے ، محلے کی سطح پر ڈیوٹیاں لگائی جائیں جو دکاندار یا اسٹور زیاددہ قیمتیں وصول کرے فوری اطلاع دی جائے اور کاروائی کر کے روکا جائے ۔

دنیا بھر میں تہواروں کے موقع پراشیاء رعایتی قیمتوں پر فروخت کی جاتی ہیں تاکہ خریداروں کو ریلیف مل سکے افسوس ناک امر ہے کہ ہمارے ہاں الٹی گنگا بہتی ہے اور رمضان عید تہواروں پر قیمتوں میں من مانا اضافہ کر کے منافع خوری کی جا تی ہے، ضرورت قیمتوں کو کنٹرول کرنے سے زیادہ موقع پرستی کے یہ رویے بدلنے کی ہے ۔