لاہور: (اسماء رفیع ) ملک میں عیدالفطر سے قبل بازاروں میں جہاں خریداروں کا رش اپنے عروج پر ہے وہیں بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عام لوگوں کی قوت خرید کوبھی بری طرح متاثر کیا ہے۔
پھلوں، سبزیوں، گوشت اور دیگر اشیائے خورد و نوش کی آسمان سے باتیں کرتی ہوئی قیمتوں کے سبب، پہلے ہی سے بے حال عوام عید کی تیاریوں کیلئے پریشان نظر آتی ہے ، مہنگائی نے جہاں غریب اور متوسط طبقہ کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے وہیں اعلی طبقہ بھی خریداری سے پہلے سوچنے پر مجبور ہوگیا ہے ۔
رواں برس مارچ میں پاکستان میں مہنگائی ایک سال پہلے کے مقابلے میں ریکارڈ 35.37 فیصد تک پہنچ گئی ہے ، روزبروز بڑھتی قیمتوں سے عوام ذہنی اذیت کا شکار ہیں ، اسی حوالے سے ہم نے عام شہریوں سے بات کی اور پوچھا کہ اس برس مہنگائی نے انہیں کس حد تک متاثر کیا اور گزشتہ برس کے مقابلے میں اس سال عید کی شاپنگ کرنا کتنا مشکل ہورہا ہے ؟
مسز کوثر محسن کا کہنا ہے کہ یہ عید الفطر پہلے جیسی بالکل بھی نہیں ہے ، مہنگائی نے شاپنگ تو دور، زندگی کے ہر حصے کو متاثر کیاہے، ہر شے اتنی مہنگی ہے کہ جتنے بجٹ میں پہلے رمضان اور عید کی تیاری ہوجاتی تھی اب صرف رمضان کے کھانے پینے کے ہی اخراجات پورے ہوئے ہیں ، بجٹ اس حد تک متاثر ہے کہ شاپنگ کو ہی مختصر کرنا پڑا جہاں ہم پہلے تین سوٹ بنالیتے تھے وہاں اب ایک پر ہی اکتفا کرلیا ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ بچوں کی بھی شاپنگ بہت سوچ سمجھ کر کی ہے ، بس وہی جس چیز خریدی جو کہ بہت ضروری تھی ورنہ پہلے تو کچھ ایکسٹرا شاپنگ بھی ہوجاتی تھی اب تو ایسا سوچنا بھی محال ہے ۔
اس حوالے سے مسزرابعہ رؤف کہتی ہیں کہ عید کے تہوار کی خوشی ہی بہت منفرد ہوتی ہے لیکن اس مہنگائی نے تو ساری خوشیاں ہی پھیکی کردی ہیں ، گزشتہ سال کی نسبت اب توحالات بے حد خراب ہیں متوسط تنخواہ دار طبقہ تو بس سفید پوشی کا بھرم رکھنے کی کوشش کررہا ہے ۔
رابعہ کا مزید کہنا تھا کہ عید کے پہلے دو دنوں کے دوران ان کے گھر میں تقریبا 25 سے 30 افراد تک کی دعوت ہوتی ہے لیکن اس بار ہم یہ دعوت مؤخر کر رہے ہیں کیونکہ اس بار ہم خود اپنے اخراجات ہی پورا کرنے کی جدوجہد میں ہیں۔
حبیب احمد بچوں کے ہمراہ بازار میں خریداری کے لیے موجود تھے انہوں نے بتایا کہ غریب بندے کے لیے خریداری کرنا بہت مشکل ہو گئی ہے، اب مجبوری ہے کیونکہ بچے تنگ کرتے ہیں اس لیے مجبوری کے تحت لینی پڑتی ہے، بچوں کی خاطر کرنا پڑتا ہے ، سمجھ نہیں آتا گزارہ کیسے ہوگا ؟
عید کی شاپنگ میں شریک ایک طالبہ عبیرہ خان نے بتایا کہ پچھلے سال بھی ہم آئے تھے، جو جوتا چار پانچ سو کا تھا اب ہزار سے کم نہیں مل رہا حتی کہ دکانداروں نے لکھ کر لگا رکھا ہے کہ ایک ہزار سے کم میں کچھ دستیاب نہیں ، انہیں قیمتیں کم کرنے کاکہیں تو وہ بھی پٹرول اور مہنگائی کا رونا روتے ہیں تو ایسے میں ہم کہاں جا کرروئیں ہم کس سے شکوہ کریں کہ اس حکومت کا بس چلے تو سانس لینے پر بھی ٹیکس لگا دے ۔
اس حوالے سے ہم نے جب دکانداروں سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ قیمتوں میں بے تحاشا اضافے کی وجہ سے گاہکوں کی قوت خرید کم ہوئی ہے، جس کا اثر کاروبار پر بھی پڑا ہے، گزشتہ پچیس سال سے جوتوں کے کاروبار سے منسلک علی مرتضی نے بتایا، ’’ پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے کاروبار پر فرق پڑا ہے ، گاہک کہتا ہے کہ اس کی مرضی کی رقم ہو خواہ ہمیں خرید بھی نہ پڑے ، جو سیل کا مال تھا کبھی ہم 100 روپے میں بیچا کرتے تھے آج وہ 300 روپے سے بھی تجاوز کر گیا ہے اور سیل جو گاہک بڑی خوشی سے خریدتا تھا آج وہ بھی نہیں رہی ۔
ریڈی میڈ ملبوسات کی بوتیک پر کام کرنے والے علی چودھری کا کہنا ہے کہ مارکیٹ میں کام بہت سست ہے، ریٹ ہمارے وہی ہیں لیکن لوگوں کے پاس پیسے نہیں ، پہلے کے مقابلے میں سیلز کافی متاثر ہوئی ہے، پہلے جہاں ایک دن میں 50 جوڑے بک جاتے تھے وہاں اب 15 بھی نکل جائیں تو بڑی بات ہے ، جو سوٹ پہلے500سے ہزار تک کا آتا تھا اب پندرہ سو سے دو ہزار میں ہماری اپنی خرید ہے ، گاہک ریٹ نہیں لگا رہا، بس ہزار آٹھ سو تک ریٹ لگ رہا ہے۔
فرحان احمد کہتے ہیں کہ ہمیں اور ہماری طرح ہی کے مڈل کلاس محدود آمدنی والے لوگوں کو بہت ساری چیزوں پر کمپرومائز کرنا پڑرہاہے، تنخواہ تو اتنی ہی ہے لیکن چیزوں کی قیمتیں ڈبل ہوگئی ہیں ، امیر کو فرق نہیں پڑتا لیکن ہر طرح سے غریب اور سفید پوش آدمی ہی مارا گیا ہے ۔