سپریم کورٹ کا 14 مئی کا انتخابات کا فیصلہ واپس نہیں ہوگا: چیف جسٹس

Published On 20 April,2023 12:07 pm

اسلام آباد: (دنیا نیوز) ملک بھر میں انتخابات ایک ساتھ کرانے کی درخواستوں پر سماعت ہوئی، عدالت عظمیٰ میں سیاسی قائدین کو مذاکرات کا موقع دینے کیلئے وقفہ کیا گیا، سیاسی جماعتیں کسی فیصلے پر متفق نہ ہو سکیں جس کے بعد مزید سماعت 27 اپریل تک ملتوی کر دی گئی۔

 دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم نے اپنا 14 مئی کا فیصلہ قائم رکھنا ہے، سپریم کورٹ کا 14 مئی کا فیصلہ قائم ہے اور نہیں بدلے گا، سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف درخواست نہیں آئی، وزارت دفاع کی درخواست مذاق لگی، ہم آج بھی سب کو سننے کے لیے تیار ہیں، کل بھی عید نہ ہوئی تو سن لیں گے، سپریم کورٹ کا 14 مئی کا انتخابات کا فیصلہ واپس نہیں ہوگا۔

 عدالت نے سیاسی جماعتوں کو4 بجے تک مذاکرات کا وقت دیتے ہوئے سماعت میں وقفہ کردیا۔

چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ سماعت کررہا ہے، بنچ میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔

چیف جسٹس نے گزشتہ روز کی سماعت میں کہا کہ اگر سیاسی جماعتیں انتخابات کی تاریخ بدلنا چاہتی ہیں تو عدالت ان کے ساتھ ہے، سیاسی جماعتیں ایک موقف پر آجائیں تو گنجائش نکال سکتے ہیں، سیاسی مذاکرات میں اتفاق ہوا تو ٹھیک ورنہ ہم 14مئی کا حکم دے چکے ہیں۔

19 اپریل کی سماعت کا حکم نامہ جاری

گزشتہ روز کی سماعت کے تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ 4 اپریل کا عدالت کا حکم نامہ آئین کے احکامات کے مطابق ہے، سیاسی مذاکرات کا مطلب یہ نہیں کہ آئینی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کی جائے، شہری نے ایک ہی وقت میں انتخابات کرانےکی درخواست دے رکھی ہے، بادی النظر میں درخواست گزار کے موقف میں جان ہے، انتخابات سیاسی میدان میں سیاسی قوتوں کےدرمیان لڑے جاتے ہیں۔

حکم نامے میں کہا گیا ہےکہ انتخابات تمام سیاسی قوتوں کی تجاویز کے ساتھ بہترین انداز میں منعقد کیے جاسکتے ہیں تاہم یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ سیاسی مکالمے کا عمل سپریم کورٹ کے 4 اپریل کو دئیے گئے حکم کے مطابق پنجاب میں انتخابات کی تاریخ سے پہلو تہی کرنے کا باعث نہیں ہو گا، آئین کے مطابق صوبائی اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 دن میں انتخابات کرانا لازم ہے۔

تین رکنی بنچ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن کے لیے فنڈز کے حوالے سےکہا ہے کہ حکومت 21 ارب روپے 27 اپریل تک الیکشن کمیشن کو فراہم کرے، حکومتی گرانٹ کے بل مسترد ہونے کا مطلب ہے کہ وزیر اعظم اور کابینہ ایوان میں اکثریت کھو بیٹھی ہے جب کہ اٹارنی جنرل کا موقف ہے کہ ایسا نہیں اٹارنی جنرل سے فی الحال اتفاق کرتے ہوئے حکم نامے میں کہا گیا ہےکہ دوسری صورت بھی حکومت کو سنگین آئینی مسائل کی طرف لے جا سکتی ہے، عدالتی حکم کی نا فرمانی کے بھی سنگیں نتائج برآمد ہو سکتے ہیں لہٰذا ضروری ہےکہ حکومت 27 اپریل تک 21 ارب روپے فراہم کرے۔

عدالت نے سکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر انتخابات 8 اکتوبر تک ملتوی کرنے کے حوالے سے الیکشن کمیشن اور وزارت دفاع کی متفرق درخواستیں نا قابل سماعت قرار دیتے ہوئے نمٹانےکا حکم بھی دے دیا۔

Advertisement