اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) ملک کی بڑی اپوزیشن اور مقبول جماعت پاکستان تحریک انصاف میں سیاسی خزاں کا موسم شروع ہو چکا ہے، پتے جھڑنے شروع ہو چکے ہیں، پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والا ایک کے بعد ایک رہنما جماعت چھوڑنے کا اعلان کر رہا ہے اور جو چھوڑ نہیں رہا وہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کی مرضی کے بغیر پارٹی پالیسی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بیانات جاری کر رہا ہے۔
کراچی سے مولوی محمود کے اعلان سے تحریک انصاف چھوڑنے والوں کا آغاز ہوا، انہوں نے پاکستان تحریک انصاف اور ایم این اے کی نشست چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ 9 مئی کے ہنگاموں میں ملوث پی ٹی آئی کارکنوں اور انہیں اکسانے والوں کو سزا ملنی چاہئے، اس کے بعد تحریک انصاف کے اہم اور مرکزی رہنما فواد چودھری نے اپنی جماعت پر بجلی گرا دی جب انہوں نے عمران خان سے پوچھے بغیر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے 9 مئی کے واقعات کو شرمناک قرار دیا اور اداروں کیساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا، انہوں نے کہا کہ عسکری املاک اور تنصیبات پر حملے کرنے والوں کو سزا ملنی چاہیے خواہ ان کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہو۔
علی زید ی نے بھی پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان واقعات کو دہشت گردی قرار دیا اور شدید مذمت کی، تحریک انصاف کے اہم رہنما عامر کیانی نے تحریک انصاف کی بنیادی رکنیت کے ساتھ ساتھ سیاست چھوڑنے کا اعلان کر دیا، رکن سندھ اسمبلی سنجے گنگوانی نے بھی پاکستان تحریک انصاف چھوڑنے کا اعلان کر دیا اور یہ سلسلہ تو ابھی شروع ہوا ہے۔
عمران خان جب اپنی رہائی کیلئے سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہوئے تو جج صاحبان کے اصرار کے باوجود انہوں نے عسکری املاک پر حملوں کی کھل کر مذمت نہیں کی، حتیٰ کہ تاحال صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بھی ان واقعات کی مذمت نہیں کی، تحریک انصاف بطور جماعت جہاں عسکری تنصیبات پر حملہ کرنے والے بلوائیوں کی ذمہ داری اٹھانے کو تیار نہیں وہیں ان حملہ آوروں کے خلاف کارروائی تو درکنار مذمت کرنے کو بھی تیار دکھائی نہیں دیتی، ایسے میں فواد چودھری کی جانب سے بطور پارٹی ترجمان یہ بیان جاری کرنا اور دیگر رہنماؤں کا پارٹی پالیسی سے ہٹ کر اپنا مؤقف دینا اور جماعت سے علیحدگی اختیار کرنا عمران خان اور ان کی جماعت کیلئے کسی دھچکے سے کم نہیں۔
اس بات کے قوی امکانات موجود ہیں کہ آنے والے چند روز میں پنجاب اسمبلی کے عام انتخابات کیلئے کچھ ٹکٹ ہولڈرز احتجاجاً پارٹی ٹکٹس واپس کرنے کا اعلان کریں گے، ذرائع کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے وہ رہنما جو ملکی سیاست کے محرکات کو سمجھتے ہیں 9 مئی کے افسوسناک واقعات سے نا خوش ہیں مگر پارٹی پالیسی کے باعث تا حال خاموش ہیں، ان کا خیال ہے کہ ان واقعات اور اس کے بعد کی صورتحال پاکستان تحریک انصاف کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا چکی ہے، آنے والے دنوں میں کئی اہم رہنماؤں کی جانب سے معاملے پر باقاعدہ ردعمل جاری ہوتا بھی دکھائی دے رہا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف میں سیاسی بصیرت رکھنے والے پرویز خٹک، شاہ محمود قریشی، اسد قیصر سمیت کئی رہنما جماعت کی پالیسی سازی سے دور ہو چکے ہیں، ریاست موجودہ صورتحال میں بڑے فیصلے کر چکی ہے جس کے پاس ناقابل تردید ثبوت آچکے ہیں کہ جی ایچ کیو، کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ سمیت دیگر عسکری املاک اور تنصیبات پر حملوں کی منصوبہ بندی کہاں اور کیسے ہوئی اور اس کے پیچھے کون ہے؟، ریاست کو یقین ہے کہ 9 مئی کو جو کچھ بھی ہوا وہ اتفاقاً نہیں بلکہ ایک منظم منصوبے کے تحت ہوا، چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر کا پشاور اور گوجرانوالہ کور کے افسران سے خطاب، کور کمانڈر کانفرنس کا اعلامیہ اور اس کے بعد قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ہونے والے فیصلے بتا رہے ہیں کہ 9 مئی کو عسکری املا ک اور تنصیبات پر حملوں کے نہ صرف ملزمان بلکہ ان کے منصوبہ سازوں اور اکسانے والوں کوعبرت کا نشان بنایا جائے گا تاکہ آئندہ کوئی ایسا کرنے کا سوچ بھی نہ سکے، ان بلوائیوں اور ان کے سہولت کاروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کیلئے آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے یعنی ان قوانین کے تحت بننے والے مقدمے فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے سامنے یعنی فوجی عدالتوں میں چلیں گے، ریاست یہ بھی فیصلہ کر چکی ہے کہ 9 مئی کو جس طرح تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کیا گیا اب ایسا نہیں ہو گا، عسکری املاک کی نہ صرف فزیکل سکیورٹی بلکہ ان کی عزت و تکریم کو یقینی بنانے کیلئے بھی زیرو ٹالیرنس ہو گی۔
یہ واضح اعلانات اور پیغامات سامنے آنے اور اداروں کے غم و غصے کو دیکھتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے کئی الیکٹ ایبلز کو اندازہ ہو چکا ہے کہ اب معاملات پہلے جیسے نہیں رہے، جیوفینسنگ اور دیگر ذرائع سے یہ معلوم ہونے کے بعد پنجاب حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ عسکری املاک پر حملہ کرنے والے کئی افراد نے زمان پارک میں پناہ لے رکھی ہے، پاکستان تحریک انصاف کو ان کی حوالگی کیلئے 24 گھنٹوں کا الٹی میٹم دیا جا چکا ہے۔
تصادم کے اس ماحول میں سیاسی اور قومی اتفاق رائے کی باتیں بھی ہونے لگی ہیں، کور کمانڈر کانفرنس اور اس کے بعد قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے اعلامیے میں ملکی مسائل کا حل قومی اتفاق رائے سے نکالنے پر زور دیا گیا ہے، کور کمانڈر کانفرنس میں زور دیا گیا کہ ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان قومی اتفاق رائے پیدا کیا جائے تاکہ نہ صرف عوام کا اعتماد بحال کیا جا سکے بلکہ ملک میں معاشی سرگرمیاں بحال ہو سکیں اور جمہوری عمل کو مضبوط کیا جاسکے، قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بھی سیاسی اختلافات کو محاذ آرائی کی بجائے جمہوری اقدار کے مطابق مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا گیا ہے، آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی جانب سے قومی اتفاق رائے قائم کرنے کیلئے بار ہا زور دینا قومی معاملات کو سلجھانے کیلئے ان کی مستقل مزاجی کو ظاہر کرتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ملک کے اتنے بڑے نقصان کے باوجود مذاکراتی عمل اور قومی اتفاق رائے کو کامیاب بنایا جا سکتا ہے؟ حکومت اور ریاستی اداروں نے ریڈ لائنز کراس ہونے کے باوجود ملک کے وسیع تر مفاد میں اختلافات بالائے طاق رکھ کر بات چیت کے دروازے کھولنے پر زور دیا مگر اب ذمہ داری پاکستان تحریک انصاف پر ہے کہ اس عمل کو آگے بڑھانا ہے تو اپنی صفوں میں موجود سپائلرز یعنی بگاڑ پیدا کرنے والوں کی شناخت کر کے الگ کرنا ہو گا اور اپنے رویئے میں نرمی لانی ہو گی، دوسری جانب 9 مئی کے واقعات کے ذمہ داران کیخلاف قانون اپنا راستہ خود بنائے گا اور اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔