اسلام آباد: (دنیا نیوز) پی ٹی آئی کی مخالفت کے باوجود پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس نے سیکشن 230 کے کلاز 2 اے سمیت الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2023ء کثرت رائے سے منظور کر لیا۔
الیکشن ایکٹ کے سیکشن 230 کے کلاز 2 اے میں ترمیم کی منظوری کے ذریعے نگران وزیر اعظم کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا ہے، اس سیکشن کی پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی اور پی ٹی آئی نے مخالفت کی ہے، پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کورم پورا ہونے کی بھی نشاندہی کی گئی، پارلیمنٹ نے الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کی شق وار منظوری دی۔
الیکشن ایکٹ بل منظور ہونے کے بعد نگران وزیر اعظم کو مزید مالیاتی اختیارات مل گئے ہیں جبکہ نگران حکومت کو بھی اضافی اختیارات حاصل ہوں گے، نگران حکومت کو پہلے سے جاری منصوبوں پر اداروں سے بات کرنے کا اختیار ہوگا جبکہ کوئی نیا معاہدہ نہیں کر سکے گی، دو فریقی اور کثیر فریقی جاری معاہدوں پر فیصلوں کا بھی اختیار نہیں ہو گا، نگران حکومت ملکی معیشت کے بہتر مفاد سے متعلق ضروری فیصلے کر سکے گی۔
یہ بھی پڑھیں: سینیٹر رضا ربانی نے نگران وزیراعظم کو غیر معمولی اختیارات دینے کی مخالفت کر دی
مشترکہ اجلاس نے امیدوار کو تین پولنگ ایجنٹ نامزد کرنے کا اختیار دینے کی ترمیم بھی منظور کر لی جس کے بعد امیدوار کسی ایک پولنگ سٹیشن پر 3 پولنگ ایجنٹس کے نام دے سکے گا، جن میں سے صرف ایک پولنگ ایجنٹ ہی پولنگ اسٹیشن کے اندر رہے گا، پریذائیڈنگ افسر کو ووٹرز کی لسٹ پولنگ سٹیشن کے باہر آویزاں کرنے کا بھی پابند بنایا گیا ہے۔
پوسٹل بیلٹنگ کو شفاف بنانے کیلئے بھی ترمیم منظور کی گئی ہے، الیکشن کمیشن انتخابات سے قبل جاری کردہ پوسٹل بیلٹ کی تفصیل ویب سائٹ پر ڈالنے کا پابند ہو گا، ہارنے اور جیتنے والے امیدوار کے درمیان ووٹ کا فرق 5 فیصد ہونے پر دوبارہ گنتی ہو سکے گی، قومی اسمبلی 8 جبکہ صوبائی اسمبلی کی نشست میں 4 ہزار ووٹ کا فرق ہو تو ری کاؤنٹنگ ہو گی، ریٹرننگ افسر اپنی نگرانی اور امیدواروں کی موجودگی میں گنتی کروائے گا۔
الیکشن ایکٹ بل منظور ہونے کے بعد پریذائیڈنگ افسر نتیجے کی کاپی فوری طور پر الیکشن کمیشن اور ریٹرننگ افسر کو بھیجنے کا پابند ہو گا اور حتمی نتیجے کی تصویر بنا کر ریٹرننگ افسر اور الیکشن کمیشن کو بھیجے گا، انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہونے کی صورت میں پریذائیڈنگ افسر اصل نتیجہ خود پہنچانے اور الیکشن کی رات 2 بجے تک نتائج دینے کا پابند ہو گا، تاخیر کی صورت میں ٹھوس وجہ بتائے گا، پریذائیڈنگ افسر کے پاس الیکشن نتائج کیلئے اگلے دن صبح دس بجے کی ڈیڈ لائن ہو گی۔
یہ بھی پڑھیں: تحریک انصاف کو انتخابی اصلاحات کے بل سے دور رکھا جا رہا ہے: شاہ محمود قریشی
الیکشن ایکٹ بل میں نادرا کو بھی نئے شناختی کارڈ کے ریکارڈ کی الیکشن کمیشن کو فراہمی کا پابند بنایا گیا ہے، الیکشن کمیشن پولنگ سے ایک روز قبل شکایات نمٹائے گا، امیدوار 60 روز میں قومی اسمبلی یا سینیٹ کی نشست پر حلف لینے کا پابند ہو گا، حلف نہ لینے پر سیٹ خالی تصور کی جائے گی، سینیٹ ٹیکنوکریٹ سیٹ پر تعلیمی قابلیت کے علاوہ 20 سالہ تجربہ درکار ہوگا۔
پولنگ ڈے سے 5 روز قبل پولنگ اسٹیشن تبدیل نہیں ہو گا، انتخابی اخراجات کیلئے امیدوار پہلے سے زیر استعمال بینک اکاؤنٹ استعمال کر سکیں گے، حلقہ بندیاں رجسٹرڈ ووٹرز کی مساوی تعداد کی بنیاد پر کی جائیں گی، حلقہ بندیاں انتخابی شیڈول کے اعلان سے 4 ماہ قبل مکمل ہوں گی، تمام انتخابی حلقوں میں رجسٹرڈ ووٹرزکی تعداد برابر ہو گی، کسی حلقے میں ووٹرز کی تعداد میں فرق 5 فیصد سے زیادہ نہیں ہو گا، حلقہ بندیوں کے خلاف شکایت 30 روز میں کی جا سکے گی۔
عملہ انتخابات کے دوران اپنی تحصیل میں ڈیوٹی نہیں دے گا، پولنگ عملے کی حتمی فہرست الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کی جائے گی، امیدوار 10 روز کے اندر حلقے میں پولنگ عملے کی تعیناتی چیلنج کر سکے گا، پولنگ سٹیشن میں کیمروں کی تنصیب میں ووٹ کی راز داری یقینی بنائی جائے گی، الیکشن کمیشن ریٹرننگ افسر کو ماتحت حلقے کی ووٹر لسٹ پولنگ سے 30 روز قبل فراہم کرنے کا پابند ہو گا، سکیورٹی اہلکار پولنگ اسٹیشن کے باہر ڈیوٹی دیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: نگران حکومت کے اختیارات میں اضافہ الیکشن کو مشکوک بنارہاہے : شیخ رشید
الیکشن ایکٹ بل کے مطابق کاعذات نامزدگی مسترد یا واپس لینے پر امیدوار کو فیس واپس کی جائے گی، امیدوار ٹھوس وجوہات پر پولنگ اسٹیشن کے قیام پر اعتراض کر سکے گا، حتمی نتائج کے 3 روز میں سیاسی جماعتیں مخصوص نشستوں کی حتمی ترجیحی فہرست فراہم کریں گی، قومی اسمبلی کی نشست کیلئے 40 لاکھ سے ایک کروڑ روپے، صوبائی نشست کیلئے انتخابی مہم پر 20 سے 40 لاکھ خرچ کئے جا سکیں گے۔
بل منظور ہونے کے بعد معذور افراد کو ووٹ کی سہولیات پریذائیڈنگ افسر دینے کا پابند ہو گا، الیکشن ٹریبونل 180 دن میں امیدوار کی جانب سے دائر پٹیشن پر فیصلہ کرے گا، ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا فیصلہ 15 کے بجائے 7 روز میں کیا جائے گا، غفلت پر پریذائیڈنگ اور ریٹرننگ افسر کیخلاف فوجداری کارروائی ہو گی، انٹرا پارٹی انتخابات نہ کروانے کی صورت میں سیاسی پارٹی کو 2 لاکھ جرمانہ ہوگا۔