لاہور: (سلمان غنی) مسلم لیگ (ن) کے صدر، سابق وزیراعظم شہبازشریف لندن میں ہیں جہاں ان کی اپنے بڑے بھائی اور پارٹی کے لیڈر نوازشریف سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ شہباز شریف کے لندن پروگرام کو ملکی حالات، آنے والے انتخابات اور خصوصاً نوازشریف کی وطن واپسی کے حوالے سے اہم قرار دیا جا رہا ہے اور ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ ان معاملات پر مشاورت کیلئے لندن میں بڑی بیٹھک کا بھی امکان ہے جس میں پارٹی کی آئندہ حکمت عملی خصوصاً انتخابات کے حوالے سے فیصلے ہوں گے۔
لندن کی مشاورت میں بڑے فیصلے کے طور پر نواز شریف کی وطن واپسی کو لیا جا رہا ہے اور پارٹی کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی وطن واپسی کے حوالے سے کوئی قانونی رکاوٹ نہیں اور وہ ستمبر میں واپس آئیں گے، مگر پارٹی کے کئی ذمہ داران اس کی تصدیق نہیں کر رہے، ان کی رائے میں نوازشریف کی وطن واپسی ملک میں الیکشن کے شیڈول سے مشروط کرنی چاہئے اور ان کی وطن واپسی سے قبل خود پارٹی کو ان کے استقبال کیلئے فضا بنانی چاہئے۔
دوسری جانب قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی وطن واپسی کے حوالے سے کوئی بڑی قدغن تو نہیں البتہ انہیں وطن واپسی پر اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کر کے ان اپیلوں پر جو خارج ہو چکی ہیں ان کی دوبارہ بحالی اور عدالتی فیصلہ درکار ہوگا، ان ماہرین کی رائے میں پارٹی کی چیف آرگنائزر مریم نواز کو ملنے والے عدالتی ریلیف کے بعد نوازشریف کے کیس میں اب جان نہیں رہی، البتہ فی الحال ستمبر میں نوازشریف کی وطن واپسی ممکن نظرنہیں آتی، یہ انتخابی شیڈول کی روشنی میں طے ہوگی۔
جہاں تک مسلم لیگ (ن) کے انتخابی عمل میں حصہ لینے کا اعلان اور اس حوالے سے حکمت عملی کے تعین کا سوال ہے تو یہ مرحلہ (ن) لیگ کیلئے خاصاً کٹھن ہوگا کیونکہ ایک وقت تھا کہ مسلم لیگ (ن) اس کی سیاست اور لیڈر شپ کو قومی و عوامی مسائل کے حل کے ساتھ منسلک کیا جاتا تھا، خصوصاً شہبازشریف کے دورِ وزارت اعلیٰ پنجاب کا حوالہ دیتے ہوئے ان کے بارے میں عام رائے تھی کہ وہ مسندِ اقتدار پر آ کر مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کا مداوا کرتے ہوئے عوامی زندگیوں میں اطمینان اور ملک میں استحکام لائیں گے، لیکن ملک میں مہنگائی کے خاتمہ کے نعرہ پر قائم ہونے والی اتحادی حکومت نہ تو استحکام کا ذریعہ بن سکی اور نہ ہی مہنگائی کے آگے بند باندھا جا سکا۔ لہٰذا اب جب انہیں واپس عوام کے پاس جانا ہوگا تو ان کا مقابلہ اپنے مخالفین سے کم اور مہنگائی سے زیادہ ہوگا۔
اب مسلم لیگ (ن) کی ساری توقعات نوازشریف کی واپسی سے ہیں اور بڑا سوال بھی یہی ہے کہ ڈیڑھ سال کی حکومت کے بعد کیا مسلم لیگ (ن) کے پاس ایسی کوئی حکمت عملی ہے کہ کہا جا سکے کہ وہ پریشان حال اور مہنگائی زدہ عوام کی آواز بن سکے گی یا ان کی ریلیف کا باعث بنے گی؟ فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا اور یہ بھی کہ کیا نوازشریف مسلم لیگ (ن) کی سیاسی مقبولیت کی بحالی کا ذریعہ بن پائیں گے؟ اگر نوازشریف کی سیاست اور حکمت کا جائزہ لیا جائے تو حقیقت ظاہر ہو جاتی ہے کہ اُن کی سیاست کا محور ہمیشہ ترقی کا عمل اور عوام کیلئے ریلیف رہا ہے، لیکن آج کے پاکستان میں جب وہ آئیں گے تو انہیں بدلہ ہوا پاکستان ملے گا، آج کے پاکستان میں شدید معاشی مسائل ہیں اور مہنگائی کا دور دورہ ہے، کیا نواز شریف کے پاس ایسا پروگرام ہوگا کہ لوگ ان پر اعتماد کر سکیں؟
جہاں تک ملک میں انتخابی عمل کا سوال ہے تو الیکشن کمیشن تو اپنی تیاریاں جاری رکھے ہوئے ہے لیکن عملاً سیاسی جماعتیں انتخابی پوزیشن کیلئے تیار نظر نہیں آتیں، البتہ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ انتخابات سے قبل بڑی جماعتوں کو اعتماد میں لیا جائے گا، اس سلسلے میں بات چیت کیلئے الیکشن کمیشن کی جانب سے باقاعدہ اعلان بھی سامنے آ چکا ہے اور پی ٹی آئی کے سربراہ کو آج جمعرات کے روز، پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو تین بجے، مسلم لیگ (ن) کے صدر شہبازشریف کو کل جمعہ کے روز تین بجے اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کو 29 اگست کو بلایا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے مذکورہ عمل اور اقدام کو بھی انتخابات کے حوالے سے سنجیدگی اور اس کے آزادانہ اور منصفانہ انعقاد کے حوالے سے اہم قرار دیا جا رہا ہے، مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف ملک سے باہر اور پی ٹی آئی کے چیئرمین جیل میں ہونے کی وجہ سے اس مشاورت کا حصہ نہیں بن سکیں گے، ان کی جگہ یقیناً پارٹی کے دیگر ذمہ داران الیکشن کمیشن جائیں گے، سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن کو کیا تجاویز و آرا دیتی ہیں، یہ دیکھنا ہوگا، دوسری جانب انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے صدر مملکت بھی متحرک ہوگئے ہیں، انہوں نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو الیکشن کی تاریخ کیلئے ملاقات کی دعوت دی ہے۔
صدر مملکت آئین کے آرٹیکل 48 کے تحت عام انتخابات کیلئے اسمبلی کی تحلیل کے 90 روز میں تاریخ دینے کی پابندی کی بنا پر متحرک ہوئے ہیں جبکہ الیکشن کمیشن انتخابات کیلئے حلقہ بندیوں کے شیڈول کا اعلان کر چکا ہے اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ حلقہ بندیوں کے عمل کے تحت اب انتخابی عمل اکتوبر، نومبر کے بجائے فروری، مارچ 2024ء میں ہوگا، صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 48 کے تحت اسمبلیوں کے خاتمہ کی ایڈوائس پر تو فوری طور پر عمل کیا مگر اس وقت مذکورہ آرٹیکل کو جواز بناتے ہوئے انتخابات کا اعلان نہیں کیا۔
لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دو اہم قوانین پر ٹویٹ سے پیدا ہونے والی صورتحال میں وہ آئین کا سہارا لے کر انتخابات کے حوالے سے نئی بحث کو چھیڑناچاہتے ہیں، کیا وہ اس حوالے سے کامیاب ہوں گے، یہ دیکھنا ہوگا، اب اہم سوال یہ ہے کہ انتخابات کیلئے تاریخ کا اختیار صدر مملکت کے پاس ہے یا الیکشن کمیشن کے پاس؟ آج جمعرات کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے چیف الیکشن کمشنر ملاقات کیلئے جائیں گے یا الیکشن کمشنر کے سیکرٹری یا کسی اور کو بھیجیں گے، یہ بھی دیکھنا ہوگا، آئینی امور کے ماہرین کا تو کہنا ہے کہ نئی قانون سازی کے بعد الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار چیف الیکشن کمشنر کے پاس ہے، صدر مملکت کے پاس نہیں۔