لاہور: (رانا لیاقت علی) دنیا بھرکی طرح پاکستان میں بھی یوم اساتذہ 5 اکتوبر کو سلام ٹیچر ڈے کے نام سے منایا جاتا ہے، ابتدا میں تو یہ دن بڑے اہتمام کیساتھ منایا جاتا رہا، اسلام آباد اور صوبائی دارالحکومتوں میں مرکزی تقریبات منعقد ہوئیں، اساتذہ کو بہترین نتائج اور اعلیٰ کارکردگی پر انعامات سے بھی نوازا گیا اور سٹار لگائے گئے، پھر ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام اور محکمہ سکول ایجوکیشن پنجاب میں سیکرٹری صاحبان کی بار بار تبدیلی کی وجہ سے عالمی یوم اساتذہ (سلام ٹیچر ڈے) کو وہ پذیرائی نہ مل سکی جو اسے ملنا چاہیے تھی۔
بہر حال معاشرہ اسلامی ہو یا مغربی دونوں میں استاد بنیادی اہمیت کا حامل کردار ہے، دین اسلام کا فروغ عظیم معلم، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بدولت ممکن ہوا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ترجمہ( بیشک مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا)، جب پیارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرما دیا تو پھر اس پیشہ سے منسلک شخص کا احترام معاشرے کے ہر فرد پر واجب ہو جاتا ہے، حضرت علی کا فرمان ہے ہے کہ جس شخص نے مجھے ایک لفظ سکھایا وہ میرا آقا قرار پایا، ترقی یافتہ ممالک نے استاد کے ادب واحترام کو اپنایا اور کامیاب ہوگئے۔
برطانیہ میں استاد کیلئے کسی تقریب میں مہمان خصوصی کے احترام میں کھڑے ہونا لازم نہیں ہوتا، ہٹلر جیسا حکمران بھی بدترین معاشی بدحالی میں استاد کی تنخواہ کم کرنے پر تیار نہ ہوا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اگر استاد معاشی تفکرات کا شکار ہوا تو جرمن نسل احساس محرومی کا شکار ہو جائے گی، یہی وجہ ہے کہ آج بھی جرمن استاد کی تنخواہ دیگر ملازمین سے زیادہ ہے، جو قومیں اپنے استاد کا معاشی و معاشرتی استحصال کرتی ہیں وہ ترقی نہیں کر سکتیں۔
جاپان پر ایٹم بم کے حملے کے بعد دنیا میں اس کی شاندار ترقی ان کے اساتذہ کی مرہون منت ہے، استاد ہی قوموں میں تحریک پیدا کرتا ہے اور سوچ و نظریہ دیتا ہے، مشرقی پاکستان میں ہندو اساتذہ کا کردار اس کی واضح مثال ہے۔
پاکستان میں اس وقت ایک محتاط اندازے کے مطابق 20 لاکھ افراد پرائمری سے لیکر یونیورسٹی کی سطح تک تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں، پنجاب میں تقریباً 5 لاکھ اساتذہ سرکاری اور 6 لاکھ پرائیویٹ سیکٹر میں کام کر رہے ہیں، استاد کا احترام معاشرے کے ہر فرد پر لازم ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں 76 سالوں میں استاد کو وہ مقام نہیں ملا جو ایک اسلامی مملکت میں دیا جانا چاہیے، ملک میں سیاسی عدم استحکام نے جہاں دیگر شعبوں کو متاثر کیا وہاں تعلیم جیسے اہم شعبہ کو بھی شدید متاثر کیا ہے، اقربا پروری اور سفارشی کلچر نے اسے تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے، لستاد کو اپنے جائز مسائل اور حقوق کے حصول کیلئے سیاسی کلچر کا حصہ بننا پڑ رہا ہے۔
پاکستان کے دیگر صوبوں کی طرح صوبہ پنجاب کا استاد بھی مسائل ومصائب کا شکار ہے، استاد ان مسائل سے چھٹکارا پانے کیلئے کسی مسیحا کا منتظر ہے جو اس کے معاشی و معاشرتی استحصال کا ازالہ کر کے اس کے وقار و احترام میں اضافے کا سبب بن سکے، حکومتیں استاد کے وقار اور تعلیمی میدان میں انقلابی اقدامات اٹھانے کا وعدہ کرتیں ہیں، کمیٹیاں اور ٹاسک فورس تشکیل دی جاتیں ہیں مگر نتائج برآمد نہیں ہوتے۔
حکومتی سطح پر استاد کو پذیرائی میسر نہیں بلکہ ایسے اقدامات اٹھائے جاتے ہیں جس سے استاد کی تذلیل و رسوائی کا پہلو نکلتا ہے، خانہ شماری ہو یا مردم شماری، ووٹ کی تصدیق ہو یا اندراج، بار دانے تقسیم سے لیکر گندم کی نقل و حمل، پولیو ڈیوٹیاں، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سروے یا پراپرٹی سروے یہ سب استاد کے ذمہ ہے، رواں سال تاحال اساتذہ کسی نہ کسی طرح الیکشن کمیشن کے ٹاسک کو پورا کرنے میں مصروف عمل ہیں، ان غیر تدریسی خدمات کے دوران استاد کو جن مصائب وتضحیک کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ ناقابل بیان ہے۔
معاشرے میں استاد کا مقام اور وقار کیا ہوگا جب اسے اس کے اصل فرض سے ہٹا کر اسے گلی محلوں میں غیر تدریسی ٹاسک کیلئے بھیج دیا جاتاہے۔
فکر معاش انسان سے اس کی تخلیقی صلاحیتیں چھین لیتی ہے، یہاں استاد کو معاشی طور پر خوشحال کرنے کی بجائے اسے اپنی تنخواہوں میں اضافے کیلئے احتجاج کرنا پڑتا ہے، حکومتی پالیسیوں کا یہ حال ہے کہ ریٹائرمنٹ پر اس کی آس و امید پنشن وگریجویٹی میں کٹ لگانے اور لیو انکیشمنٹ میں کمی کے اقدامات سے اس سے زندہ رہنے کی امید چھین لی جاتی ہے، کیا اس قوم کے نونہالوں کی آبیاری کرنے والا استاد ریٹائرمنٹ کے بعد بھیک مانگے گا، اسے قوم و ملک کی خدمت کا یہ صلہ دیا جائے گا، اس کے گھر والے اسے بوجھ تصور کریں گے، دوران سروس بھی وہ اپنی معاشی پسماندگی کی وجہ سے خاندان اور معاشرے میں سہمی ہوئی زندگی بسر کر کے ریٹائرمنٹ کے بعد لیو انکیشمنٹ، پنشن وگریجویٹی کا خاصہ بڑا حصہ چھین جانے کے بعد کیسے زندگی بسر کرے گا، ساری زندگی علم کی روشنی دینے والا بڑھاپے میں خود زندگی کی روشنی کا متلاشی ہوگا۔
دوران سروس بھی استاد معاشی بے بسی کا شکار رہتا ہے، خواتین اساتذہ کے مسائل ومصائب کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، انہیں ٹرانسفر کیلئے نام نہاد پالیسیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کبھی STR کی پابندی تو کبھی سکول کلوز کی پابندی، میٹرنٹی لیو پر اضافی الاؤنس دینے کی بجائے کنوینس الاؤنس کے چند سو روپے بھی کاٹ لئے جاتے ہیں، نوازئیدہ شیر خوار بچے کو سکول ہمراہ لانے پر پابندی عائد کر کے ماں اور بچے کے بنیادی حقوق کو پامال کیا جاتا ہے، سکولوں میں ڈے کیئر سنٹر یا آیا کی سہولت میسر نہیں، خواتین اساتذہ کو گھروں سے دور تعیناتی پر دوران سفر جن دشواریوں اور اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ ناقابل بیان ہے۔
اگر انہیں ازدواجی مسائل کی وجہ سے رخصت درکار ہو تو اس کے لئے بھی انہیں سفارش ڈھونڈنا پڑتی ہے، میڈیکل چیک اپ کیلئے پہلے میڈیکل ڈاکٹ بنوانا اور میڈیکل لیو کیلئے ڈسٹرکٹ ہسپتال سے ہی میڈیکل سرٹیفکیٹ کی شرط جو مشکل ترین ہدف ہے کا سامنا ہے، پہلے استاد کو سیاسی جلسوں کو بھرنے کیلئے طلب کیا جاتا تھا اب ہاکی اور کرکٹ میچز کے افتتاح کے موقع پر سٹیڈیم بھرنے کیلئے بھی استاد ہی مستعار لیا جاتا ہے، اگر کسی اور محکمہ کی تقریب میں نفری کی ضرورت پڑے تو وہ بھی استاد نے ہی پوری کرنا ہے بعض اوقات تو استاد کلاس میں پڑھا رہا ہوتا ہے اسے پیغام ملتا ہے کہ فلاں جگہ تقریب میں پہنچو " استاد نہ ہوا کوئی غلام"
پنجاب میں آج بھی استاد کو اپنے دفتری امور کے سلسلے میں سفارش یا رشوت کا سہارا لینا پڑتا ہے، آن لائن سکول انفارمیشن سسٹم ہونے کے باوجود استاد کو مینوئل فائل جمع کروانا پڑتی ہے، آن لائن جنریٹڈ آرڈر پر دستخط کیلئے دفتر کا چکر لگانا پڑتا ہے، آن لائن اپلائی کرنے کے باوجود ایک دفتر سے دوسرے دفتر تک ڈیٹا ٹرانسفر کیلئے سہارا ڈھونڈنا پڑتا ہے ورنہ مستردگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اکاؤنٹ آفسز کا آدم ہی نرالا ہے جہاں تنخواہ کی شروعات سے لیکر پنشن وگریجویٹی، جی پی فنڈ اور لیو انکیشمنٹ کا حصول احسن طریقے سے ممکن نہیں، پنشن گریجوایٹ یا تنخواہ کا کوئی بل نکلوانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
ایجوکیشن دفاتر میں اساتذہ کیلئے بیٹھنے تک کیلئے جگہ نہیں ہوتی اور گھنٹوں کھڑے انتظار کرنا پڑتا ہے، گریڈ 19 کے سی ای او اور ڈی ای او کے دفتر کے باہر کھڑے گریڈ 20 یا 19 کے پرنسپل کو نائب قاصد نہیں پوچھتا، دفاتر کے باہر وقت ملاقات 11 بجے سے 1 بجے تحریر ہوتا ہے لیکن استاد جب اپنے تدریسی فرائض انجام دے کر 40/50 کلومیٹر کا سفر طے کر کے ملازمتی امور کیلئے دفتر 3 یا 4 بجے پہنچتا ہے تو ملاقات کا وقت ختم ہو چکا ہوتا ہے، استاد بے بسی کی تصویر بنا اگر افسر کو ملنے کی کوشش کرے تو اسے میٹنگ ہو رہی ہے کا کہہ کر چلے جانے کا کہا جاتا ہے۔
استاد کو اپنے ہی محکمہ میں محرومی کے سوا کچھ نہیں ملتا، تعلیمی اداروں کی این جی اوز کو حوالگی اور اڈاپشن استاد کیلئے عدم تحفظ کا باعث ہے،اعلیٰ تعلیم یافتہ 14 ہزار سیکنڈری سکول ایجوکیٹرز اور اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسرز 3 سال سے اپنی مستقلی کیلئے دربدر ہیں، عدالتی فیصلوں کے باوجود 1 لاکھ سے زائد اساتذہ کو پے پروٹیکشن نہیں مل رہی، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں دوگنا اضافہ ہوچکا لیکن کنوینس الاؤنس پچھلے 8 سال سے ایک ہی جگہ منجمند، مکانات کے کرائے دوگنا بڑھ چکے لیکن ہاؤس رینٹ 8 سال پرانی شرح پر منجمند، ادویات کی قیمتوں میں 4 گنا اضافہ لیکن میڈیکل الاؤنس بھی 8 سال پرانی سطح پر منجمند ہے، استاد کی تنخواہ 45 ہزار اور بجلی کا بل 30 ہزار روپے کیسے استاد اپنی زندگی گزر بسر کرے، اس کے باوجود تھکے بغیر، رکے بغیر، ناامید ہوئے بغیر، تنقید کی پرواہ کئے بغیر، صلے کی تمنا کے بغیر ، ہر موسم ، ہر حالت میں چہرے پر مسکان، دل میں محبت ، لب پر دعا ، حوصلے اور جرآت کے ساتھ مسلسل چلتے رہنے کا نام استاد ہے۔
استاد کے وقار کو بڑھانے اور اس کے مسائل ومصائب کو کم کرنے کیلئے حکومتی سطح پر اقدامات اٹھانا ہوں گے، استاد کو معاشی تفکرات سے آزاد کرنا ہوگا، استاد چاہیے پرائمری، ایلیمنٹری یا سیکنڈری سطح کا ہو اسے کم از کم گریڈ 17 دیا جائے، اس کی تذلیل و رسوائی کا باعث بننے والی غیر تدریسی ڈیوٹیوں کا خاتمہ کیا جائے، استاد کو علاج معالجے، رہائشی اور آمدورفت کی بہترین سہولیات میسر کی جائیں، سیاسی وغیر سیاسی تقریبات میں بلانے کی پابندی عائد کی جائے، خواتین اساتذہ کو وفاق کی طرز پر بچے کی پیدائش پر کم از کم 6 ماہ کی میٹرنٹی لیو اور بنیادی تنخواہ کے برابر مٹرنٹی الاؤنس دیا جائے۔
3 سال ایک ہی جگہ پر تعیناتی کے بعد ٹرانسفر کی سہولت دی جائے، سکولوں میں خواتین اساتذہ کے شیر خوار بچوں کیلئے آیا یا ڈے کیئر سنٹر بنائے جائیں، اساتذہ کو معاشی تحفظ دینے کیلئے لیو انکیشمنٹ میں کمی کا نوٹیفکیشن واپس لیا جائے اور پنشن وگریجویٹی میں کمی سے گریز کیا جائے، اساتذہ کے سروس سٹرکچر کو بہتر بنایا جائے، ان سروس پرموشن کے ساتھ ساتھ ٹائم سکیل پرموشن کا اجراء کیا جائے، 14 ہزار کنٹریکٹ اساتذہ کو فوری مستقل کیا جائے، پے پروٹیکشن کے عدالتی فیصلوں پر فوری عمل درآمد کیا جائے، ریٹائرمنٹ پر گروپ انشورنس اور بناولنٹ فنڈ میں جمع شدہ رقم ادا کی جائے۔
اساتذہ کو نجی و سرکاری ٹرانسپورٹ اور فضائی سفر میں خصوصی رعایت دی جائے، بلاسود قرضے دیئے جائیں اچھے نتائج اور اچھی کارکردگی کے حامل اساتذہ کو نقد انعامات اور اعزازات سے نوازا جائے، تمام محکمہ جات اور شعبہ جات کے سربراہان اپنے ماتحت دفاتر اور عملہ کو استاد کی عزت وتکریم کیلئے عملی اقدامات اٹھانے کیلئے مراسلہ جات جاری کریں، سینیٹ، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اعزازی طور پر صدارت کیلئے مدعو کیا جائے، اساتذہ کی بھرتی پر عائد پابندی کا خاتمہ کیا جائے، کنٹریکٹ پر بھرتی کی بجائے مستقل بنیادوں پر اساتذہ بھرتی کئے جائیں۔