لاہور: (ڈاکٹر جاوید اقبال ندیم) قیام پاکستان کے وقت بنگالی اکثریت میں تھے تاہم سیاست دونوں خطوں کیلئے ایک جیسی تھی، تعلیم کم ہونے کے باعث 15 فیصد اعلیٰ سرکاری افسران بنگالی تھے، تربیت یافتہ افسران کی ملک بھر میں کمی تھی، خاص طور پر بنگالیوں کو انتظامیہ کا کوئی تجربہ نہ تھا۔
یہی وجہ ہے کہ ڈھاکہ میں مہاجرین کو اعلیٰ عہدوں پر تعینات کیا گیا، کچھ افسران مغربی پاکستان سے بھیجے گئے، 1948ء میں وہاں انفنٹری کی ایک بریگیڈ تھی جو فرسٹ ایسٹ بنگال رجمنٹ کہلاتی تھی، بعد ازاں پنجاب رجمنٹ بنائی گئی، اس وقت ایوب خان 14 آرمرڈ کے کمانڈر تھے، ایئر فورس اور بحریہ نوزائیدہ تھی، فضائیہ کا لڑاکا سکوارڈن موجود تھا، جس کی قیادت پرویز مہدی قریشی کر رہے تھے۔
1947ء میں وہاں چائے او رپٹ سن کی انڈسٹری نوزائیدہ تھی، حضرت قائداعظمؒ اور ان کے بعد آنے والے لیڈروڈ نے وہاں سرمایہ کاری کیلئے پرکشش مراعات کا اعلان کیا تھا، آپؒ کے حکم پر چائے کے باغات کو ترقی دی گئی، اسے جتنے فنڈز درکار تھے وہ دیئے گئے، حکومت نے 1954ء میں برما اور دوسری برطانوی نو آبادیات سے صنعتکا روں کو وہاں سے منتقل کرنے کیلئے پرکشش ترغیبات دیں، جس کی بدولت سر آدم جی داؤد اور عبدالپشین متعدد بزنس مین سابقہ مشرقی پاکستان میں سرمایہ کاری پر رضا مند ہوئے تھے۔
بزنس مین مرزا احمد اصفہانی کو پی آئی اے کا پہلا چیئرمین نامزد کیا گیا تھا، ٹیکسوں میں چھوٹ ملنے پر آئل کمپنیوں نے 1955ء سے 1960ء تک گیس اور تیل کے ذخائر دریافت کئے جبکہ ایران کے تعاون سے چٹاگانگ میں ریفائنری لگائی گئی، 1965ء میں امریکہ کے تعاون سے ’’کپتائی ڈیم‘‘ بنایا گیا، ڈر تھا کہ یہ منصوبہ بھی کالا باغ ڈیم کی طرح خراب نہ ہو جائے، بہرکیف لیڈر شپ نے40 ہزار لوگوں کی نئی جگہ پر منتقلی سمیت تمام رکاوٹیں عبور کرلیں۔
اس کے برعکس بعض عالمی اداروں نے سابقہ مشرقی پاکستان میں معاشی بے چینی پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی، ایک عالمی ادارے نے لکھا کہ مشرقی حصے سے حاصل شدہ کچھ زر مبادلہ مغربی حصے میں استعمال ہوا، یہ رپورٹ حقائق کے قطعی منافی تھی، مثلاً رپورٹ کے مطابق 1950ء سے1955ء کی پانچ سالہ مدت میں مغربی پاکستان میں 1.29 ارب روپے اور مشرقی پاکستان میں 5.420 ارب روپے (46.4 فیصد) خرچ کئے گئے۔
1955ء سے 1960ء کے مغربی حصے میں16.55 ارب روپے جبکہ مشرقی حصے پر 5.24 ارب روپے(32 فیصد) 1965ء سے1970ء تک کے پانچ برسوں میں مغربی حصے میں52 ارب اور مشرقی حصے میں22 ارب (42 فیصد) روپے خرچ ہوئے تھے۔ مجموعی طورپر 21 برسوں میں مغربی پاکستان میں13.3 ارب روپے اور مشرقی پاکستان میں46 ارب روپے (41.5 فیصد)خرچ ہوئے۔ اس رپورٹ کی تیاری میں 1962ء کے بعد صرف پنجاب میں دریائی نظام کے متبادل نہری نظام بنانے کیلئے بھیجے گئے 62 کروڑ ڈالر بھی شامل کر لئے گئے، حالانکہ یہ فنڈز تو خرچ ہی پنجاب میں ہونا تھے۔
اگر ایسے مخصوص وسائل کو نکال دیا جائے تو اخراجات کے معاملے میں مشرقی پاکستان کا ’’پلڑا‘‘ بھاری ہو جاتا ہے، پھر دنیا بھر میں صنعتی ترقی کے بعد رفتہ رفتہ پٹ سن کی جگہ دوسری مصنوعات نے لے لی، کپاس کی مانگ میں اضافہ اور پٹ سن کی مانگ میں مسلسل کمی کے بعد آمدن کا توازن بھی بدلنے لگا، 1960ء میں ’’سبز انقلاب‘‘ کے دور میں سوت کی پیداوار میں اضافے سے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو فروخ حاصل ہوا، گندم کی خود کفالت کے ثمرات مغربی حصے میں زیادہ تیزی سے برآمد ہوئے۔
ادھر عالمی منڈیوں میں ہماری پٹ سن اور چائے کی مانگ مسلسل گرنے لگی، مغربی بازو میں سرمایہ کاری کی رفتار زیادہ تیز ہونے کے باعث یہاں 1960ء سے 1965ء کے عرصے میں جی ڈی پی کو شرخ نمو 4.4 فیصد اور مشرقی حصے میں 2.6 فیصد تھی، بنگلہ دیش بننے کے بعد پٹ سن کی انڈسٹری کا ختم ہوجانا اس کا ثبوت ہے۔
سیاسی نظام میں بھی بنگالیوں کا اثر و رسوخ رہا، خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل تھے، لیاقت علی خان بھی بنگالیوں کے بہت قریب تھے، محمد علی بوگرا نے 1954ء میں اپنی ’خاص کابینہ‘‘ بنائی، وہ بھی قدامت پرستانہ خیالات کے حامل بنگالی رہنما تھے، سیاسی افراتفری کے ماحول میں17 اکتوبر کو ایوب خان نے اقتدار سنبھال لیا، تمام سیاسی جماعتیں کالعدم قرار دے دی گئیں، ان کے دور میں تمام اختیارات کا اگلا صدارتی الیکشن نہ لڑنے کا اعلان کرتے ہوئے اقتدار (سابق) جنرل یحییٰ خان کے حوالے کر دیا۔
قومی اسمبلی کے انتخابات میں 310 نشستوں میں سے عوامی لیگ نے 167 نشستوں پر کامیابی حاصل کر لی، مشرقی پاکستان میں 169 میں سے صرف دو نشستوں پر دوسری جماعتیں کامیاب ہوئیں جبکہ پیپلزپارٹی نے 88 اور دیگر جماعتوں نے 5 نشستیں حاصل کیں، 7 پر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے، یوں قومی اسمبلی کے 310 کے ایوان میں167 نشستیں حاصل کر کے عوامی لیگ بڑی جماعت کے طورپر ابھری۔
شیخ مجیب الرحمان خود کو نئے وزیراعظم کے طورپر دیکھ رہے تھے، بھارت نوازی کے پیش نظر یہ خدشہ پایا جاتا تھا کہ اگر انہیں وزارت عظمیٰ کا قلمدان سونپا گیا تو کہیں وہ کوئی نازک فیصلہ نہ کر لیں، درمیانی راستہ نکالنے کیلئے سابق صدر نے مشرقی پاکستان کا دورہ کیا، اس میٹنگ کے اختتام پر اس پر اتفاق ہوا کہ شیخ مجیب الرحمن ہی اگلے وزیراعظم ہوں گے۔
17 جنوری 1971ء کو انہوں نے بھٹو سے ملاقات کے بعد دوبارہ بنگالی رہنماؤں سے رابطے شروع کر دیئے، پیپلزپارٹی نے بھی شیخ مجیب سے رابطہ کیا، بھٹو اور جنرل یحییٰ خان ڈھاکہ گئے، انہوں نے 11 فروری کو کہا کہ ’’قومی اسمبلی کا اجلاس 23 مارچ کو منعقد ہوگا‘‘ مگر بھٹو نہ مانے، انہوں نے پشاور میں پریس کانفرنس کر کے اس اجلاس سے لاتعلقی ظاہر کر دی، بھٹو کے بائیکاٹ پر یکم مارچ 1971ء کو قومی اسمبلی کا مجوزہ اجلاس ملتوی کر دیا گیا، اجلاس کے ملتوی ہوتے ہی شیخ مجیب الرحمان کو پہلے سے طے شدہ ایجنڈے پر عملدرآمد کا موقع مل گیا، لہٰذا سابقہ مشرقی پاکستان میں ٹکا خان گورنر نامزد کردیئے گئے۔
شیخ مجیب الرحمان نے مارشل لاء کے خاتمے ، قومی اسمبلی کے اجلاس کی طلبی اور وفاقی اور صوبائی سطح پر اقتدار کی منتقلی کے مطالبات کئے، ان سے ملاقاتوں کے کئی راؤنڈ ناکام رہے، ذوالفقار علی بھٹو19 مارچ کو ڈھاکہ پہنچے جہاں انہوں نے عوامی لیگ کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں جس کے بعد ڈھاکہ میں ایک آل پارٹیز کانفرنس طلب کر لی گئی، اس مرتبہ پھر کانفرنس کا بائیکاٹ ہوا مگر بائیکاٹ کرنے والے شیخ مجیب الرحمن تھے، یوں سابقہ مشرقی پاکستان میں حالات مزید خراب ہونا شروع ہوگئے۔
پاکستان سے غیر ملکی سفارت کاروں کے انخلاء کے بعد عالمی میڈیا کا غلبہ تھا، میڈیا وہی کچھ نشر کر رہا تھا جو کچھ اسے مکتی باہنی اور بھارتی کارندے بتا رہے تھے، اسی سازش کی آڑ میں بھارت نے اپنے در انداز وہاں داخل کئے اور جنہوں نے قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا، 3 دسمبر کو بھارت نے باقاعدہ جنگ چھیڑ دی، تاہم مشرقی حصے میں بھارت نومبر کے وسط میں ہی ’’جنگ‘‘ کی سی کیفیت پیدا کر چکا تھا، ان حالات میں ہونے والا سانحہ مشرقی پاکستان ہماری تاریخ کا المناک باب ہے اور ہمیں اس سے بہت کچھ سیکھنا چاہئے۔
پروفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال ندیم ممتاز ماہر تعلیم ، محقق اور فلسفی ہیں۔