پاکستان کے تدبر نے دنیا کو بڑی آگ سے بچا لیا

Published On 22 January,2024 11:45 pm

اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) 17 جنوری کو ایران نے اچانک بلوچستان میں راکٹوں سے حملہ کر دیا جس سے تین معصوم پاکستانی شہری شہید اور دو زخمی ہو گئے۔

اس حملے نے پوری دنیا بالخصوص پاکستان کو حیران اور پریشان کر دیا کیونکہ پاکستان اور ایران کے درمیان ہر طرح کا اور ہر سطح پر سفارتی اور فوجی رابطہ رہتا ہے، ایران نے بغیر کوئی اطلاع دیئے پاکستان کی سالمیت اور علاقائی خود مختاری کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر دی، اس اقدام کے بعد پاکستان کا امتحان شروع ہو گیا۔

پاکستان کو ایک ایسے وقت میں ایران کے اس اقدام کا جواب دینا تھا جب مشرق وسطیٰ میں صورتحال پہلے ہی سنگین تھی اور ایران کہیں نا کہیں سے اس صورتحال کا حصہ ہے، سپہ سالار جنرل سید عاصم منیر کو جہاں ایرانی اقدام کا جواب دینے کا فیصلہ کرنا تھا وہیں اپنے عوام کو بھی مطمئن کرنا تھا جو ایران کے اس اقدام پر شدید غم و غصہ میں تھے۔

یہ فیصلہ شاید آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ سے زیادہ مشکل تھا کیونکہ فروری 2019 میں بالا کوٹ حملے کا جواب تو ایک دشمن کو دینا تھا مگر اس مرتبہ ایک دوست ملک کا معاملہ تھا جہاں معمولی سی غلطی خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی تھی۔

سپائلرز معاملے کو بڑھاوا دینے کی طاق میں تھے اور چنگاری کے بڑھنے کا انتظار کر رہے تھے، ایسے میں قابل سفارت کاری، میچور اور پرو ایکٹو میڈیا میسجنگ اور نپا تُلا ملٹری ریسپانس ایک مؤثر ہتھیار بنا جس نے نہ صرف دنیا کو حیران کر دیا بلکہ صورتحال کی خرابی کا انتظار کرنے والوں کو منہ کی کھانا پڑی۔

پاکستان جو کہ کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے، نے کسی بھی قسم کا فوری اور جلد بازی میں جواب دینے کی بجائے انتہائی صبر اور تدبر کے ساتھ حالات کا جائزہ لینے کے بعد سفارت کاری کو فوقیت دی اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔

ایرانی اقدام پر غصے میں سیخ پا عوام کو میڈیا کے ذریعے بڑے ہی میچور طریقے سے پیغام دیا گیا کہ پاکستان کسی صورت بھی اپنی خود مختاری پر کمپرومائز نہیں کرے گا اور معصوم شہریوں کے جان و مال سب سے مقدم اور اہم ہیں، اس دوران انتہائی احتیاط سے میڈیا پر یہ بیانیہ بھی بنایا گیا کہ ایسی جارحیت کا جواب دینے کا پاکستان مکمل اختیار اور حق رکھتا ہے، اس صورتحال میں آئی ایس پی آر کا کردار قابل ستائش رہا۔

18 جنوری کی صبح پاکستان نے راکٹس، میزائل اور ڈرونز کی مدد سے ایران کے اندر بلوچ دہشت گردوں کے تین کیمپس کو انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کی بنیاد پر سٹرائیکس کے ذریعے نشانہ بنایا اور دہشت گردوں کے اِن کیمپس کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ بی ایل ایف کے سرغنہ دہشت گردوں کو بھی ہلاک کیا، اس پیچیدہ آپریشن کے دوران اس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ کولیٹرل ڈیمج کے نتیجے میں ایرانی شہریوں اور فورسز کو نقصان نہ پہنچے۔

پاکستان نے اس انتہائی پیچیدہ آپریشن کو مکمل کرنے کے فوری بعد باقاعدہ طور پر وزارتِ خارجہ کے ذریعے بتایا کہ پاکستان نے ایران میں غیر قانونی طور پر موجود بلوچ دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو آپریشن مرگ بر سرمچار کر کے نشانہ بنایا جس میں دہشت گردوں کے بھاری نقصانات ہوئے۔

انتہائی احتیاط سے لکھی گئی اِس پریس سٹیٹمنٹ میں پاکستان نے کسی بھی قسم کا جنگی جنون، فتح کا جشن، اشتعال یا غصہ دلانے والے الفاظ کا استعمال نہیں کیا بلکہ ایران کے ساتھ اپنے تاریخی تعلقات کی بنیاد پر بات چیت اور باہمی تعاون سے مسئلے کے حل پر زور دیا۔

اِس کے بعد آئی ایس پی آر کی طرف سے آپریشنل تفصیلات کے آنے سے مزید فوگ آف وار کم ہو گئی کیونکہ اس میں ٹارگٹ کئے گئے کیمپس، مارے جانے والے دہشت گردوں کی تفصیلات اور استعمال کئے جانے والے ہتھیاروں کی تفصیلات تک بتا دی گئیں تاکہ کسی بھی قسم کا ابہام یا کنفیوژن کسی بھی طرف نہ رہے، اس پریس ریلیز میں بھی ایک بار پھر پاکستان نے ایران سے برادرانہ تعلقات کی بنیاد پر تعاون اور بات چیت سے آگے بڑھنے کی اہمیت پر زور دیا۔

دو ہمسایہ ملکوں کے درمیان اس انتہائی پیچیدہ نیشنل سکیورٹی کے مسئلے پر پاکستان نے انتہائی میچور، ذمہ دارانہ ہینڈلنگ سے نہ صرف منہ توڑجواب دے کر اپنی ڈیٹرنس بحال کر لی بلکہ دہشت گردوں کو انتہائی مہارت سے ٹارگٹ کر کے اپنی صلاحیت بھی منوا لی۔

چونکہ پاکستان نے کسی بھی قسم کی للکار بازی جیسے بیانیے سے اجتناب کیا، صورت حال غیر متوقع طور پر انتہائی کم وقت میں ڈی اسکیلیٹ ہونا شروع ہو گئی، نیشنل سکیورٹی کمیٹی کی میٹنگ سے بھی اِسی طرح کے باہمی تعاون اور بات چیت سے ڈی اسکیلیشن اور مسئلے کو حل کرنے پر زور دیا گیا۔

پاکستان نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ وہ نہ صرف اپنا دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ انتہائی پیچیدہ اور نازک حالات میں سفارت کاری، میڈیا کے ذریعے میچور اور پرو ایکٹو سٹریٹجک میسجنگ کے ذریعے حساس ترین معاملات کو بھی انتہائی کم وقت میں حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

کشیدگی کے چند گھنٹوں میں ہی دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہونا سفارتی میدان میں ایک بڑی کامیابی ہے۔