انتخابات: ہماری ذمہ داریاں اور اسلامی رہنمائی

Published On 02 February,2024 12:08 pm

لاہور: (مولانا محمد الیاس گھمن) اللہ تعالیٰ ہمارے ملک اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کی ہر طرح سے حفاظت فرمائے، موجودہ حالات کے پیش نظر تین عنوانات پر معروضات پیش کرنی ہیں، پاکستان کے جمہوری نظام کی حیثیت کیا ہے؟ ووٹ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ عام انتخابات میں ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اس وقت دنیا میں دو طرح کی جمہوریت رائج ہے۔

مغربی طرز جمہوریت: مغربی دنیا میں جمہوریت کا نظریہ، یہ ہے کہ ملک کے ارکان پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ہوتا ہے، وہ کسی بھی بات کو (جو ہماری شریعت میں حرام ہو) کثرت تعداد کی بنیاد پر حلال اور جائز قرار دیں یا کسی بھی بات کو (جو ہماری شریعت میں حلال ہو) کثرت تعداد کی بنیاد پر ناجائز اور حرام قرار دیں، وہی ان کے قانون کا حصہ بن جاتا ہے۔

پاکستانی طرز جمہوریت: پاکستان میں رائج جمہوریت کا بنیادی تصور اسلامی ہے جس کا اظہار قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے قیام پاکستان کے دوران مختلف مواقع پر کیا مثلاً 26 نومبر 1946ء کو سید بدرالدین احمد کو اپنی قیام گاہ پر ایک تفصیلی انٹرویو دیا جس میں آپؒ نے کہا: ’’ان شاء اللہ پاکستان کے نظام حکومت کی بنیاد لا الہ الا اللہ ہی ہوگی اور اس پر ایسی فلاحی اور مثالی سٹیٹ قائم ہوگی کہ دنیا اس کی تقلید پر محبور ہو جائے گی‘‘۔

پاکستانی جمہوریت کی بنیاد
1973ء کے آئین میں اس بات کو ضروری قرار دیا گیا کہ یہاں جو بھی قانون سازی ہوگی وہ قرآن و سنت کی روشنی میں ہوگی، حاکمیت اعلیٰ اللہ رب العزت کی ہے اور قرآن و سنت کے مخالف کوئی قانون نہیں بنایا جا سکتا، یہ ہمارے آئین کا ایسا حصہ ہے جسے کوئی منسوخ یا تبدیل نہیں کر سکتا، اس لئے پاکستان کی جمہوریت وہ جمہوریت نہیں جو مغرب میں رائج ہے بلکہ ہمارے ملک کی جمہوریت قرآن و سنت کی پابند ہے۔

حکمران کا انتخاب
اللہ تعالیٰ ہمارے خالق بھی ہیں اور حاکم بھی۔ مفہوم آیت: ’’خبردار اس بات کو اچھی طرح سمجھو کہ اسی اللہ ہی کیلئے ہے پیدا کرنا اور حکم چلانا‘‘(الاعراف: 54)، اللہ رب العزت نے عادلانہ احکام کو نافذ کرنے کیلئے حکمران اور امیر کو نائب اور خلیفہ بنایا ہے، مفہوم آیت: ’’وہ اللہ تمہیں روئے زمین کا خلیفہ بناتا ہے‘‘(سورۃ النمل:62)۔

اسلام کا اصل حسن نظامِ خلافت میں ہے، تاریخ شاہد ہے کہ جب تک اسلامی خلافت موجود رہی مسلمانوں کی شان و شوکت باقی رہی لیکن اس کے بعد عالمی سطح پر جب اسلامی دنیا میں بھی نظام جمہوریت رائج ہوا تو اس نظام میں کچھ ترامیم، اصلاح اور اضافہ کے ساتھ اسے اسلامی دھارے میں ڈھالنے کی کوشش کی گئی، جس میں بنیادی طور پر اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلا شرکت غیرے حاکم مطلق ہے اور اسی نے جمہور کی وساطت سے مملکت پاکستان کو اختیارِ حکمرانی اپنی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کیلئے نیابتاً عطا فرمایا ہے۔

ووٹ کیا ہے؟
ووٹ انگریزی زبان کا لفظ ہے عربی میں انتخاب جبکہ اردو میں نمائندہ چننا اور حق رائے دہی کے استعمال کو کہتے ہیں، جمہوری ممالک میں پارلیمنٹ اسمبلی، کونسل، بلدیہ یا اس جیسے اداروں کیلئے عوام کے ذریعہ نمائندہ چننے کا عمل ووٹ پر منحصر ہوتا ہے۔

ووٹ کی شرعی حیثیت
ووٹ دینے والا حق رائے دہی کے استعمال کے وقت امیدوار کے بارے یہ گواہی دیتا ہے کہ میں جس امیدوار کو ووٹ دے رہا ہوں یہ اس عہدہ اور منصب کے زیادہ لائق ہے، جس مقصد کیلئے میں اسے ووٹ دے رہا ہوں وہ اس حوالے سے محنتی اور دیانت دار ہے، اس حوالے سے شریعت کی چار بنیادی تعلیمات ذہن میں رکھیں۔

(1)شہادت( گواہی ) دینے کے وقت انکار نہ کیا جائے، ترجمہ آیت: ’’جب گواہوں سے گواہی مانگی جائے تو وہ انکار نہ کریں‘‘ (البقرہ: 282)۔
(2) شہادت(گواہی) کو چھپایا نہ جائے، ترجمہ آیت: ’’گواہی کو مت چھپاؤ اور جس نے گواہی کو چھپا یا تو یقیناً اس کا دل گناہ گار ہے‘‘ (البقرہ: 283)۔
(3) عدل و انصاف کیلئے گواہی دینی چاہیے خواہ وہ اپنے، والدین یا قریبی عزیز و اقارب کے خلاف بھی ہو، ترجمہ آیت: ’’اے ایمان والو!تم انصاف قائم کرنے اور اللہ کیلئے گواہی دینے والے بنو،اگرچہ (وہ گواہی)خود اپنے یا والدین یا رشتہ داروں کے خلاف کیوں نہ ہو‘‘(سورۃ النساء: 135)
(4)جھوٹی گواہی گناہ کبیرہ ہے، حضرت ابوبکرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا: ’’کیا میں تم کو سب سے بڑے گناہ کے بارے میں نہ بتاؤں؟ صحابہ کرامؓ نے عرض کی کیوں نہیں یا رسول اللہﷺ! ضرور فرمائیے، آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شریک کرنا، والدین کی نا فرمانی کرنا، جھوٹی بات (یعنی جھوٹی گواہی دینا)‘‘(صحیح بخاری: 2654)

ہماری ذمہ داریاں
ہر پاکستانی شہری کی خواہش ہے کہ انتخابات کا مرحلہ خیر و عافیت سے مکمل ہو اور وطن عزیز کو صادق و امین، نیک، صالح، منصف مزاج، رعایا پرور، اسلام اور وطن دوست حکمران میسر آئیں، آنے والے انتخابات میں ہم نے ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دینا ہے، ایسے افراد کا انتخاب کرنا ہے جو ہماری ہر قسم کی ضروریات و مشکلات سے بخوبی واقف ہوں ان کو حل کرنے کی اہلیت بھی رکھتے ہوں، ہمارے سیاسی نظام کو مستحکم کر سکتے ہوں، ہمارے داخلی و خارجی نظام کو مضبوط بنا سکتے ہوں،ہمارے تعلیمی نظام کو بہتر سے بہتر بنا سکتے ہوں اور ہمارے اقتصادی اور معاشی نظام کو مستحکم کر سکتے ہوں۔

زمینی حقائق اس پر شاہد ہیں کہ مذکورہ بالا اوصاف کا حامل وہ طبقہ جو لیاقت و استعداد اور قابلیت کے ساتھ ساتھ اخلاص وتقویٰ، فہم و ذکاء، بصیرت و فراست، قانون سازی اور معاملہ فہمی کو بروئے کار لا کر معاشرے میں امن وسکون، سلامتی و وقار اور ترقی و خوشحالی لاسکتا ہے وہ طبقہ ہے جو محسنِ انسانیتﷺ کی تعلیمات کے مطابق چلنے والا ہو، آفاقی قوانین سے خوب واقف ہو، سماوی اصول وقواعد سے واقف ہو، آئین پاکستان کو جاننے اور سمجھنے والا ہو، عدل و انصاف کو معاشرے کی اہم ضرورت سمجھتا ہو، آئین اور قضاء کا بخوبی علم رکھتا ہو، تعزیرات اسلامیہ اور ملکی قوانین کو جانتا بھی ہو اس کا دفاع بھی کر سکتا ہو اور سب سے بڑھ کر وہ خوف خدا بھی رکھتا ہو۔

اس لیے اپنے حلقوں میں نامزد ہونے والے امیدواروں کی خوب پہچان کیجیے،ایسے خطرناک حالات میں جب دین اور وطن دشمن طبقات کی شر انگیزیاں ہمارے اعتقادات، ہماری اسلامی و مشرقی تہذیب، ہماری ثقافت، ہماری طرزِ معاشرت یہاں تک کہ ہماری پہچان کو ختم کرنے پر تلی ہوں، ہماری ملکی و قومی دینی وایمانی غیرت اور وقت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ہم اپنے اس انتخابی عمل میں ان لوگوں کو منتخب کریں جو تدبر وسیاست کے میدان میں موجودہ اور آنے والی مشکلات کو بالکل ختم نہ سہی کم تو ضرور کر سکیں۔

امیدواروں سے گزارشات
چونکہ ان دنوں تمام سیاسی جماعتیں اور ہر امیدوار الیکشن مہم چلا رہا ہے، اس لیے بطور خاص چند گزارشات ان کی خدمت میں عرض کرنی ہیں، ہر کام اللہ کو راضی کرنے کیلئے کریں، نام و نمود اور شہرت کے حصول سے بچیں، صرف عوام سے ووٹ لینے کیلئے جھوٹ نہ بولیں، اپنے حلقے کے دوسرے امیدوار پر تہمتیں نہ لگائیں، گالم گلوچ، بد زبانی، دوسروں کو برے القاب سے پکارنا، غیبت، الزام تراشی اور بہتان طرازی جیسے کبیرہ گناہوں سے بچیں، اپنی مہم کو ہر طرح کے غیر شرعی کاموں سے دور رکھیں، اپنے کارکنوں کو صبر و تحمل اور ملکی سالمیت و استحکام کا عملی سبق دیں، اسلام اور آئین پاکستان کی حدود میں رہ کر الیکشن مہم چلائیں۔

خدمت خلق اسلامی اور انسانی فریضہ ہے، اسے صرف الیکشن میں کامیاب ہونے تک محدود نہ رکھیں بلکہ ساری زندگی کا اصول بنا لیں، الیکشن مہم کے دوران فرائض واجبات خصوصاً نماز وغیرہ کو قطعاً نہ چھوڑیں، پیار و محبت کی فضاء عام کریں، یہ نہ ہو کہ ہماری اس مہم میں رشتہ داری، محلہ داری، برادری، تعلق داری اور رواداری سب ہی داؤ پر لگ جائے، ووٹ آزاد جمہوری عمل ہے، اس میں اپنے منصب اور شخصیت سے کسی کو خوف زدہ نہ کریں اور کسی کو بھی مجبور نہ کریں، اس موقع پر لوگوں سے قرآن پر ہاتھ رکھوا کر قسمیں نہ لیں، کسی طرح کی بلیک میلنگ نہ کریں، کامیاب ہونے کے بعد اللہ کا شکر ادا کریں اور عوام سے کئے گئے وعدے پورے کریں۔

عوام سے گزارشات
عوام کی خدمت میں گزارشات یہ ہیں کہ اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کریں، سودا بازی نہ کریں، کسی دھونس دھمکی کا شکار نہ ہوں، نااہل اور کرپٹ لوگوں کو محض اپنے مفادات کیلئے منتخب نہ کریں، ہر معاملے میں وطن عزیز کی اسلامی اور جمہوری شناخت کو برقرار رکھیں، باہمی رواداری کو ختم نہ کریں، پارٹی لیڈر کیلئے اپنے گھر والوں اور دوست احباب سے لڑائی نہ کریں۔

یاد رکھیے! اگرہم نے بھی اپنی ووٹ کا صحیح استعمال نہ کیا تو ہماری آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی، بعد میں حسرت و افسوس سے ہاتھ ملتے رہیں گے، انتخابات کے بعد مجموعی طور پر تین طرح کے طبقات ہمارے سامنے موجود ہیں: جیتنے والے امیدوار ،ہارنے والے امیدواراورعوام الناس۔

جیتنے والے امیدوار
اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں، عوام کا شکریہ ادا کریں، آپ کے کندھوں پر بہت بڑی عوامی ذمہ داری آن پڑی ہے اس کو احسن طریقے سے نبھانے کیلئے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لائیں، ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کو مضبوط کرنے میں اپنا کردار ادا کریں، اقرباء پروری کے بجائے اہلیت کی بنیاد پر فیصلے کریں، علاقے کے لوگوں کی ضروریات کو پورا کریں، جن لوگوں کے بارے میں آپ کو یقین بھی ہو کہ انہوں نے آپ کو ووٹ نہیں دیا تھا ان کے کام بھی کریں۔

منصب اور عہدے کی وجہ سے کسی پر دباؤ نہ ڈالیں، قومی خزانہ آپ کے پاس عوامی امانت ہے اسے ذاتی استعمال میں خرچ نہ کریں، تعلیم، صحت اور روزگار کے منصوبوں کو ترجیحی بنیادوں پر پورا کریں، اسمبلی میں اپنے علاقے کی بہتری کیلئے موثر آواز بلند کریں، آپ کے مقابلے میں جو امیدوار تھے ان سے بہتر راہ و رسم رکھیں، اگر ان کی مشوروں کی ضرورت ہو تو دل بڑا رکھ کر ان سے مشورہ بھی کریں۔

ہارنے والے امیدوار
آپ اپنی ہار کو برداشت کریں اور بحیثیت مسلمان یہ ذہن بنائیں کہ آپ کے حق میں اسی میں خیر ہوگی، اپنے رویوں پر ٹھنڈے دل سے غور کریں، اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کی فکر کریں، آئندہ انتخابات تک مکمل محنت کریں، عوام سے گلے شکوے نہ کریں، بے لوث ہو کر عوام کے خوشی و غمی میں شریک ہوں، عوامی سہولیات کا دروازہ بند نہ کریں، دوسرے فریق کو جیتنے پر مبارکباد پیش کریں، دوسرے فریق کو طعن و تشنیع کا شکار نہ بنائیں۔

عوام الناس
انتخابات عوام کے سیاسی رجحان کے عکاس ہوتے ہیں، جیتنے والا اسے عوامی مینڈیٹ قرار دیتا ہے جو کہ واقعتاً اس کا حق ہے، اس حقیقت سے انکار نہ کریں، اس وجہ سے قومی، علاقائی، خاندانی یہاں تک کہ گھریلو رشتوں کو ختم نہ کریں، لڑائی جھگڑا کرنا اور قطعی تعلقی کرنا شریعت میں حرام ہے، اس سے بچیں، پارٹی سے محبت اور وابستگی کی بنیادیں دو ہونی چاہییں، اسلام اور پاکستان۔ ان دونوں پر دیانت داری سے اپنی رائے قائم کریں۔

اگر آپ کا قائم کردہ رجحان اسلام اور پاکستان کے حق میں بہتر ہے تو اسے برقرار رکھیں ورنہ دین و ملت کے وسیع تر مفاد میں اسے تبدیل کریں، سیاسی تجزیہ کاری میں اپنے وقت کو برباد نہ کریں، ملکی اداروں کے خلاف نفرتیں نہ پھیلائیں، دنیا کے سامنے اسلام اور پاکستان مخالف قوتوں کو مزید قوت فراہم نہ کریں، سوشل میڈیا پر فضول بحثوں سے بچیں، دینی اور دنیاوی معاملات کو نظر انداز نہ کریں، آپ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اسلام اور پاکستان کی حفاظت فرمائے۔

مولانا محمد الیاس گھمن معروف عالم دین اور دو درجن سے زائد کتب کے مصنف ہیں۔